اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط اول

Published On October 31, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر محمد مشتاق

۔22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ نے’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے جناب غامدی کا ایک کالم شائع کیا۔ اس’جوابی بیانیے‘ کے ذریعے غامدی صاحب نے نہ صرف ’دہشت گردی‘کو مذہبی تصورات کے ساتھ جوڑا، بلکہ دہشت گردی پر تنقید میں آگے بڑھ کر اسلامی قانون کے مسلّمہ اصولوں اور مسلمانوں کی علمی روایت کے اساسی تصورات ہی کی نفی کردی۔ بعض علماے کرام نے ان کے جواب میں مختصر تحریریں لکھیں، لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ غامدی صاحب کے اس جوابی بیانیے کا پس منظر پیش کیا جائے کیونکہ راقم کی ناقص راے میں اس پس منظر کی وضاحت کے بغیر اس کی درست تفہیم ممکن نہیں ہے۔اس باب میں اس جوابی بیانیے کاپس منظر اسی مقصد سے پیش کیا جارہا ہے۔

آزادی سے قبل اسلامی سیاسی نظام کی بحث

۔1930ء کی دہائی میں جب برصغیر میں آزادی کی تحریک ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگئی تھی، مولانا مودودی نے ماہنامہ ترجمان القرآن میں مضامین کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا جو بعد میں کتابی صورت میں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش کے عنوان سے شائع کیے گئے۔ اس سلسلۂ مضامین میں نہ صرف مسلمانانِ ہند کے عملی سیاسی مسائل پر بحث تھی، بلکہ سیاست و ریاست کے اہم موضوعات پر اسلامی اصولی مباحث بھی شامل تھے۔ یہ نظری بحث جلد ہی عملی جدوجہد میں تبدیل ہوگئی جب 26 اگست 1941ء کو جماعتِ اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جماعت اسلامی میں آنے سے قبل مولانا اصلاحی کا موقف متحدہ قومیت کے نظریے سے قریب تھا، جس پر مولانا مودودی نے تنقید کی، لیکن جب جماعتِ اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا، تو مولانا اصلاحی ابتدا سے ہی اس کا حصہ بن گئے تھے۔اگلے تقریباً ڈیڑھ عشرے تک وہ جماعتِ اسلامی کا حصہ رہے اور اس کے نظم کا حصہ بن کر عملی سیاسی جدوجہد میں بھی شریک رہے اور سیاست، ریاست اور قانون کے بعض اہم موضوعات پر مضامین اور کتب بھی لکھیں۔ نیز آپ نے مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی کے دفاع میں کتابیں بھی لکھیں۔ مولانا اصلاحی کا درج ذیل اقتباس اسلام اور ریاست کے تعلق پر ان کے موقف کی توضیح کےلیے کافی ہے

“انسانی قانون کے قانون ہونے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس کو شیخِ قبیلہ یا بزرگ ِ خاندان کی منظوری حاصل ہے ، یا کسی عدالت نے اس پر عمل کیا ہے ، یاکسی حکومت نے اس کوتسلیم کیا ہے ۔ ۔۔ برعکس اس کے اسلامی قانون کی قانونیت ان چیزوں میں سے کسی چیز کی بھی محتاج نہیں ہے ۔ وہ بہرحال قانون ہے کوئی عدالت اسے مانے یا نہ مانے ، اور کوئی حکومت اسے تسلیم کرے یا نہ کرے ۔ وہ اس کائنات کے حقیقی مالک اور حکمران کا قانون ہے ۔ اگر کوئی عدالت یا حکومت اس کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے تسلیم نہ کرنے سے اس کی قانونیت متاثر نہیں ہوتی ،بلکہ خود وہ عدالت یا حکومت نافرمانی اور بغاوت کی مجرم ٹھہرتی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا ہے : وَمَن لَّمۡ يَحۡكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ( اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ نافرمان ہیں )۔”

مولانا اصلاحی کی جماعتِ اسلامی سے علیحدگی کا سبب یہ نہیں تھا کہ اسلام اور سیاست کے متعلق آپ کا اصولی موقف تبدیل ہوگیا ہو، بلکہ اختلاف کا تعلق جماعت کے امیر کے اختیارات اور مناسب تیاری سے قبل انتخابی سیاست میں شرکت کے فیصلےسے تھا۔

اقامتِ دین اور غلبۂ دین کے متعلق مولانا اصلاحی کا موقف

جماعتِ اسلامی سے الگ ہونے کے بعد بھی مولانا اصلاحی نے نظری طور پر اسلام اور سیاست کے تعلق پر مولانا مودودی کے موقف کے ساتھ کسی جوہری اختلاف کا اظہار نہیں کیا اور عملی طور پر بھی کچھ عرصے تک مولانا اصلاحی نے پاکستانی ریاستی قوانین کی ’اسلام کاری‘ اسلامائزیشن کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ انھوں نے اس مقصد کےلیے کام نہ صرف انفرادی سطح پر، بلکہ ریاستی ادارے کا حصہ بن کر بھی کیا۔ پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956ء کو نافذ کیا گیا۔ اس آئین میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان میں اسلامی احکام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، نیز رائج الوقت تمام قوانین کو اسلامی احکام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے گا۔ اس مقصد کےلیے پارلیمان کی رہنمائی اور معاونت کےلیے 22مارچ 1957ء کو ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور مولانا اصلاحی کو اس کا رکن بنایا گیا۔ کمیشن نے کچھ عرصہ کام کیا لیکن اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرکے آئین کو معطل کردیا ، تو یہ کمیشن بھی ختم ہوگیا۔

مولانا مودودی کے تصورِ دین پر تنقید

اسلام اور سیاست کے موضوع پر مولانا مودودی کے زاویۂ نظر سے مولانا اصلاحی نے تو نہیں، لیکن بعض دیگر اہلِ علم نے اختلاف کیا مگر یہ اختلاف زیادہ تر اسلوب پر گرفت یا ترجیحات کے تعین کے بارے میں تھا۔ البتہ مولانا وحید الدین خاں (م:2021ء) کی تنقید کی نوعیت مختلف تھی۔انھوں نے مولانا مودودی کے ’سیاسی اسلام‘ کو ’تعبیر کی غلطی‘ قرار دے کر ان کے تصورِ دین کو ہی ہدف بنایا۔ جناب غامدی خود کچھ عرصہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ رہے۔ پھر کچھ گفتہ اور کچھ ناگفتہ وجوہات کی بنا پر ان کا جماعتِ اسلامی کے ساتھ تعلق ختم ہوگیا۔ 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…