غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

Published On August 7, 2024
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

مولانا واصل واسطی

لغت وادب پرنظر رکھنا سلفی نوجوانوں کے لیے تو ہرلحاظ سے بہت ضروری ہے ۔ دیکھو فقہ میں وہ کیسے کام آتا ہے ۔ ایک حدیث شریف میں جمعہ کے باب میں  لوگوں کے متعلق وارد ہے ” عن عائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کان الناس ینتابون یوم الجمعة من منازلہم  والعوالی” ( بخاری کتاب ا لجمعہ )  حافظ ابن حجر نے  ینتابون   کی تحقیق میں لکھا کہ ” ای یحضرونہا نوبا والانتیاب افتعال من النوبة” ( فتح الباری ج2 ص 493)  پھر قرطبی کا ایک قول نقل کیاہےکہ اس حدیث میں کوفیوں پرنقد ہے کہ وہ مصر سے خارج آدمی پر جمعہ کو فرض نہیں جانتے ۔ حافظابن حجر نے  انتیاب   کی اسی مذکورتحقیق کو پیش نظر رکھ کر قرطبی کو یہ جواب دیا ہے ” وفیہ نظر لانہ لوکان واجبا علی اہل ِالعوالی ماتناوبوا ولکانوا یحضرون جمیعا” ( فتح الباری ج2 ص 496)  حالانکہ انتیاب  اور تناوب میں اہلِ لغت نے فرق کیا ہے ۔ اہلِ لغت نے پہلے لفظ کا یہ معنی کیا ہے کہ  انتیاب پیاپے آمدن ۔ یقال فلان انتاب القوم ای اتاہم مرةبعد اخری “( منتہی الارب ج 5 ص 3243)  یعنی انتیاب کامطلب ہے باربار آنا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرطبی کا اعتراض اہلِ کوفہ پر لغت کے لحاظ سے درست ہے ۔ یہی حافظ صاحب والا اعتراض اب تک ہم پر بھی مخالفین کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ لغت کے مطابق اعتراض نہیں ہے  ۔ اسی طرح بعض لوگوں نے ایک قاعدہ دیکھا ہے کہ ” قرءت سورة کذا “کا مطلب ہے میں نے فلان سورت پڑہ لی ۔ اور ” قرءت بسورة کذا ” کا مطلب ہوتا ہے میں نے فلان سورت بھی پڑھ لی ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ متعدی فعل بغیر  باکے پڑہنے سے اس میں اقتصار علی ہذاالقدر کا معنی موجود ہوتا ہے   اور جب با  سے اس کو پھر دوبارہ متعدی کریں گے  تو پھر اقتصارعلی ہذا القدر  کا معنی اس میں نہیں رہتا بلکہ وہ زیادت کا تقاضا کرلیتا ہے ۔ حافظ ابن القیم نےاوپر درج مثالوں کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے ” ففیہ نکتة بدیعة قل من یتفطن لہا وہی ان الفعل اذا عدی بنفسہ فقلت ۔۔ قرءت سورة کذا ۔۔ اقتضی اقتصارک علیہا لتخصیصہا بالذکر واما اذا عدی بالباء فمعناہ لاصلاة لمن یات بہذہ السورة فی قراءتہ او فی صلاتہ ای فی جملة مایقرء بہ وہذا لایعطی الاقتصار علیہا بل یشعر بقراءة غیرہا معہا” ( بدائع الفوائد ص 302) اس سے بعض مشہور دیوبندی علماء کرام نے بلاوجہ اوربلامقام اہلِحدیث کے خلاف فائدہ اٹھایا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ” اوتر “متعدی ہے اس کو جب دوبارہ  با  سے متعدی کرلینگے    تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے پہلے بھی آپ نے کچھ پڑھا ہوگا ۔ اور وترکی ایک رکعت سے پہلے جب آپ کچھ اور رکعات پڑھ لیں گے  تو پھر احناف کامذہب ثابت ہوجائے گا   جو کہ تین رکعات نماز ہیں ۔ ہذا تلخیص عبارتہ ۔ مگر ہم عرض کرتے ہیں  با  سے قراءت یا ایتارکو اگر متعدی کرلیں گے  تو اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ آپ نے صرف مدخولِ   با کے عمل پراکتفاء واقتصار نہیں کیا ہے  بلکہ ساتھ کچھ اور چیز بھی اس کے جنس سے اس کے ساتھ موجود کی ہے ۔ لیکن دوچیزیں آپ کو اس قاعدے کےلیے باہر سے معلوم کرنی ہوں گی  جن کا اس قاعدہ میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔(1) ایک ہے کہ وہ مزید چیز جواس مدخول  با  والی شے کے ساتھ موجود ہوئی ہے وہ اس سے مقدم ہے یا مؤخر ہے ۔ اس کا ذکر قاعدہ میں موجود نہیں ہے اسے باہر سے معلوم کرنی ہوگی۔ (2) دوسری بات یہ ہے جو باہر سے معلوم کرنی ہوگی   کہ وہ مزید چیز اس شے مزید علیہ کے ساتھ متصل ہے یا پھر اس سے منفصل ہے ۔ اب دیکھئے جب ہم مطلق طور پر” قرءت بسورة کذا “کہتے ہیں ۔ تو اس سے فقط یہ معلوم ہوتا ہے   کہ میں نے محض اس سورت کی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا ہے ۔ یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ باقی جو میں نے اس کے ساتھ پڑھا ہے  وہ کیاہے ؟ اور اس سے مقدم تھا یامؤخرتھا ؟ ۔ اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جومیں نے اس سورت کے ساتھ پڑھا ہے ۔ وہ اس کے ساتھ متصل تھا یا غیر متصل ؟ لیکن جب نماز کے بعد میں نماز کے متعلق کہونگا کہ ” قرءت بسورة کذا ” تو پھر دونوں باتیں اس سے معلوم ہوجاتی ہے   کہ اس سے پہلے فاتحہ پڑھا اور متصل پڑھا ہے یہ اس قاعدہ سے معلوم نہیں ہوا بلکہ نماز کی شرعی ترتیب سے معلوم ہوا کیونکہ شرع میں نہ تو فاتحہ کی سورت سے تاخیر مشروع ہے ۔ اور نہ دونوں میں انفصال بالشئ الاخر مشروع ہے ۔ جب یہ بات ذہن نشین ہوگئی ہے تو ایک رکعت کے متعلق جب کوئی کہتا ہے ” اوترت برکعة ” تو اس مزید شے کو مزید علیہ کے مقدم اورموخر ہونے اوراسکے ساتھ متصل اورغیرمتصل ہونے کو سمجھنے کےلیے ہم شرع کی طرف رجوع کریں گے ۔ کیونکہ قاعدہ میں مزید شے کے ساتھ ہونے کا تو ذکر ہے پران چیزوں کانہیں ہے ۔ یہ دوچیزیں تو ہم خارج یعنی شرع سے معلوم کرتے ہیں ۔ اب شرع نے یہ تو بتادیا ہے  کہ مزید رکعات اس سے مقدم ہونی چاہئے   مگر یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ اس آخری رکعت سے متصل ہونی چاہئے یا منفصل ہے ۔ کیونکہ شرع میں دونوں کا جواز موجود ہے۔ یہ بھی شرع نے نہیں بتایا کہ وہ دو رکعت سنت کی ہونی چاہئے یا پھر وتر۔ کیونکہ قراتِ سورت سے پہلے جو فاتحہ پڑھی جاتی ہے  وہ تو احناف کے نزدیک بھی واجب ہے ۔ تو اس کا خلاصہ اور مطلب یہ ہوا  کہ اس اتصال میں یہ ضروری نہیں ہے  کہ وہ مزید شے اس مزید علیہ کے ساتھ رتبے میں بھی برابر ہو ۔ مرتبہ میں اوپر بھی ہوسکتی ہے برابر بھی ہو سکتی ہے   اورنیچے بھی ہوسکتی ہے ۔ تو ہم کہتے ہیں   اس ایک رکعت سے پہلے دورکعت سنت بھی ہو تو ٹھیک ہے ۔ تین رکعات وتر پڑھنی ہو ۔ دو رکعت الگ اور ایک رکعت الگ تب بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ اورنہ اس قاعدے کے الحمدللہ مخالف ہے ۔ ہم نے اس قاعدے کا تجزیہ اس لیے کیا کہ بعض لوگ اسے بہت اچھالتے ہیں ۔ حالانکہ اس قاعدہ  میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے پریشان ہوا جائے ۔ اب  ایک اور بات کی طرف توجہ کرتے ہیں ۔  جناب غامدی کے استاد امام   نے پہلے تو یہ بات لکھی ہے کہ محدثین کرام نے جرح وتعدیل کاماخذ سورہِ الحجرات کی آیت ” ان جاء کم فاسق بنبئا فتبینوا “( الحجرات 6)  کو قرار دیا ہے ۔  ہم کہتے ہیں یہ بات بالکل خلافِ واقعہ ہے ۔ اس آیت کو جرح وتعدیل کاماخذ محدثین میں سے کسی نے متعین نہیں کیاہے ۔ اور اس کو اس کےلیے مطلقا متعین کیا بھی نہیں جاسکتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیتِ بالا میں فاسق  شخص کی خبر کے تبین کا حکم دیا گیا ہے ۔ اگر یہ جرح وتعدیل کاماخذ بنایاجائے  تواس کامطلب پھر یہ ہوگا کہ جرح وتعدیل کرنے والے پہلے پوری امت کو فاسق  قرار دیں گے ۔ پھر تبین کرنے سے اسے عادل وصالح شخص ثابت کریں گے ۔ حالانکہ یہ بالکل قانون شرعی کوتلپٹ کرنے کے برابر ہے اس لیے کہ وہ تمام لوگ جن کی برائیاں لوگوں کو معلوم نہ ہوں اور ان کے سامنے موجود نہ ہوں وہ فی الاصل بری الذمہ ہیں ۔ اور براءةالذمہ شریعت کے مسلمہ اصو ل و قوانین میں سے ایک اصل اور قانون ہے۔ ہاں یہ ہے کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے جب فاسق شخص کی روایت سچ کے امکان کے باوجود بلاتبین قبول نہیں ہے   تو ایسے شخص کی روایت کو کیونکرقبول کیا جاسکتا ہے جس کی روایت سے دین کاحلیہ بگڑجانے کاخطرہ ہو ؟ اگر اس بات سے کسی نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے اس آیت کو جرح وتعدیل کےلیے ماخذ بنالیا ہے تو اسے سمجھنے والے شخص کو خوش فہمی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ عام طور پر اکابر علماء کرام جیسے امام ابوحاتم ۔ امام بخاری ۔ نووی ۔ غزالی حافظ ابنِ حجر وغیرہم نے جرح وتعدیل کو ” غیبت ” کے حکم میں رکھ کر اسے ضرورت کی بنا پرحرام ہونے سے مستثنی قراردیاہے ۔ جبکہ بعض متوغل صوفیاء کرام نے تو جرح وتعدیل کو غیبتِ محرمہ ہی قراردیا ہے  جیسا کہ خطیب بغدادی نے ۔ ان کے بعض کے اقوال الکفایہ میں نقل کیے ہیں ۔  لیکن  بعض متاخر محققین نے اکابر کی اس بات سے زورداراختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ  جرح وتعدیل   نفسِ غیبت کے حکم میں بھی سرے سے شامل نہیں ہے۔  غیبتِ محرمہ تو بہت دور کی بات ہے ۔ خطیبِ بغدادی کی الکفایہ   اس موقف کی ایک نمائندہ تصنیف ہے ۔ ایک جگہ  دو حدیثیں ۔ بئس اخو العشیرة ۔ اور فلان ضراب للنساء ۔ وفلان صعلوک ۔ کو پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں” ففی قول النبی علیہ السلام للرجل بئس رجل العشیرة ۔ دلیل علی ان اخبار المخبر بمایکون فی الرجل من العیب علی مایوجب العلم والدین من النصیحةللسائل لیس بغیبة اذ لو کان ذالک غیبة لمااطلقہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ وانما آراد علیہ السلام بماذکر فیہ واللہ اعلم ان بئس للناس الحالة المذمومةمنہ وہی الفحش فیجتنبونہا ۔لاانہ اراد الطعن علیہ والثلب لہ  ” پھراس دوسری حدیث کے تعلق سے لکھا “ومما یؤید ذالک حدیث فاطمة بنت قیس ” پھر غیبت کے متعلق لکھا ہے کہ اس میں مقصود آدمی کی تحقیر وتوضیع ہوتی ہے ” واما الغیبةالتی نہی اللہ تعالی عنہا بقولہ عزوجل ۔۔ ولایغتب بعضکم بعضا ۔۔ وزجررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنہا بقولہ ۔۔ یامعشر من آمن بلسانہ ولم یدخل الایمان قلبہ لاتغتابواالمسلمین ولاتتبعوا عوراتہم ۔۔ فہی ذکرالرجل عیوب اخیہ یقصد بہا الوضع منہ والتنقیص لہ والازراء بہ فیما لایعود الی حکم النصیحة” ( الکفایة ص 86۔ 87۔88)  اب اس کے بعد جناب اصلاحی نے مولانا مودودی پر اسی جرح وتعدیل کے حوالے سے سخت تنقید کی ہے اسے ملاحظہ کرلیں ۔ اس زمانے میں بعض خوش فہم حضرات نے یہ نکتہ پیداکیا ہے کہ راویوں کے عیوب کھولنا ہے تو غیبت  ہے جس کو قران نے اسی سورہ کی آیت 12 میں حرام قرار دیا ہے   لیکن محدثین نے  حکمتِ عملی کے تحت اس حرام کوجائز بتایا ہے تاکہ فاسق راویوں کی روایات سے دین کو بچائیں “( تدبر قران ج 7ص504) مولانا مودودی نے تفہیم القران میں غیبت کے جایزصورتوں پر بحث کی ہے مگر اس کے لیے انہوں نے  ابوبکرجصاص ۔ فتح الباری ۔ شرح مسلم ۔ ریاض الصالحین ۔ روح المعانی وغیرہ کا حوالہ دیا۔ لیکن جنابِ اصلاحی نے  اس بات کو ظلما مولانا مودودی کا ایجادقراردیا ہے ۔ ان کی عبارت یہ ہے کہ ” لوگوں کوکسی شخص یااشخاص کے شر سے خبردار کرنا  تاکہ وہ اس کے نقصان سے  بچ سکیں   مثلا راویوں ، گواہوں ، اور مصنفین   کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے ۔ کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے ،عدالتوں کو بے انصافی سے ، عوام یا طالبانِ علم کو گمرائیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے ۔ یامثلا کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کارشتہ کرناچاہتا ہو   یاکسی کے پڑوس میں مکان لیناچاہتاہو   یاکسی سے شرکت کامعاملہ کرناچاہتا ہو   یاکسی کوامانت سونپنا چاہتا ہو  اورآپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے   کہ اس کاعیب وصواب اسے بتادیں تاکہ ناواقفیت میں وہ دھوکا نہ کھائے” ( تفہیم القران ج 5 ص 93) اس عبارت میں تو حکمتِ عملی   کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ ممکن ہے دوسری جگہ انہوں نے یہ بات کی ہو ۔ پرہم اس حکمتِ عملی   والے قاعدے کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر جس بات پر اصلاحی نے تنقید کی ہے وہ اس شخص کی ایجاد نہیں ہے   کیونکہ جو لوگ  غیبت  کی تعریف اس حدیث کو سمجھتے ہیں جس میں ہے کہ ”  ذکرک اخاک بما یکرہ” ( مسلم ابوداود ) یا پھر “ان تذکر من المرء مایکرہ ان یسمع ” ( المؤطا) تو وہ پھر جرح وتعدیل کے اثبات میں اس قول کو ماننے میں مجبور ہوتےہیں ۔ مولانا مودودی بھی دیگر اکابر کی طرح اس حدیث کو  غیبت  کی تعریف قرار دیتے ہیں ( تفہیم القران ج5 ص 90) ہمارامقصود اس بحث میں مولانا مودودی کادفاع کرنا نہیں تھا بلکہ صاحبِ تدبرکی خوش فہمیوں کاازالہ کرناتھا جس میں بہت سے چیزوں کاذکر بھی درمیان میں آ گیا ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…