غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 12)

Published On January 22, 2024
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نے یہ بات تولکھی ہے کہ ،، تخصیص وتحدیدِ قران کسی قسم کی وحی سے نہیں ہوسکتی ، اورنہ پیغمبر ہی اس میں کوئی ترمیم وتغیرکرسکتاہے (میزان ص 24) مگر تخصیص اورنسخ میں کوئی فرق وہ بیان نہیں کرتے ہیں حالانکہ اہلِ علم دونوں کے درمیان بہت سے فروق بیان کرتے ہیں ، مثلا (1) ایک فرق یہ بیان کرتے ہیں کہ ،، ان التخصیص بیان ماخرج بالتخصیص وھو المخصوص غیرمراد باللفظ اصلا والنسخ اخراج ماارید باللفظ الدلالة علیہ ،، اسی بات کی بعض لوگ یہ تعبیر کرتے ہیں کہ ،، التخصیص دفع والنسخ رفع ،، اور ہر متوسط عقل رکھنے والے آدمی بلکہ لڑکے بھی دومن بوری کو اٹھانے اور اس کو دھکا دینے میں فرق محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ دفع اور رفع میں فرق بداہتا انسان کو معلوم ہو جاتاہے ،گو کہ یہ پیش کردہ مثال محسوسات کی ہے ( 2) دوسرا یہ فرق کرتے ہیں کہ النسخ یشترط فیہ التراخی بین الناسخ والمنسوخ اما التخصیص فیجوز فیہ اقتران المخصص بالعام وذالک کالتخصیص بالاستثنا والشرط ،، اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تووہ فرق جو جناب غامدی نے ظنی اور قطعی کے درمیان نسخ اور تخصیص کے نہ ہونے کے لیے بیان کیاتھا ، وہ ھباء منثورا ہوجاتاہے کیونکہ دفع تو رفع سے بہت ہی سہل ہے اگرچہ وہ قطعی ہی کیوں نہ ہو ؟ ہم نے پہلے جناب غامدی کی اس دلیل کے بخیے بحوالہِ ،، ارشاد الفحول ،، للشوکانی اور ،، نزھة الخاطرالعاطر ،، للبدران کے ذریعےادھیڑ دیئے ہیں ۔مگر آج ہمارے ذہن میں آیا ہے کہ ممکن ہے جناب غامدی بھی بعض دیگر اصول فقہ سے ناآشنا لوگوں کے طرح تخصیص اور نسخ میں تناقض محسوس کرتے ہوں ۔اس لیے ہم ایک دوباتیں اس حوالے سے بھی لکھ دیتے ہیں۔ (1) پہلی بات یہ ہے کہ تخصیص دلیلِ سمعی سے محققین کے نزدیک جائز ہے سمرقندی لکھتے ہیں کہ ،، اما التخصیص بالدلیل السمعی فان کانا مثلین یجوز کتخصیص الکتاب بالکتاب وتخصیص خبرالمتواتر بالمتواتر وتخصیص الکتاب بالخبر المتواتر والمتواتر بالکتاب ( میزان العقول ج1ص 488) بالکل اسی طرح کی بات جناب ارموی نے بھی لکھی ہے کہ ،، ویجوز تخصیص الکتاب بخبر الواحدعند الشافعی وابی حنیفة ومالک وقیل لایجوز ( التحصیل ج1ص 390) ان عبارات سے ہمارا موقف واضح اورثابت ہوگیا ہے کہ جمھور فقھاءِامت تخصیص الکتاب بخبرالواحد کو جائز قرار دیتے ہیں۔ بعض غیر اصولی قسم کے لوگ جو قران کو قطعی اور حدیث کو ظنی قرار دیتے ہیں ، توان کا ایک جواب یہ ہے کہ یہ فقط الفاظِ قران کا مسئلہ ہے ، دلالت کے اعتبار سے قران کی آیات بھی مظنون ہیں اور حدیث اس کے برابر ہیں یا پھر بالعکس ہیں ۔شہاب مرجانی قران کی آیات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ،، منھا مایثبت بہ مجرد الاعتقاد کالایات الواردة فی الاسماء والصفات واحوال القیامہ ، ومنھا مایثبت بہ مجردالعمل کالایات المؤولة والعمومات المخصوصة ، ومنھا مایثبت بہ الاعتقاد والعمل کالایات کالطعیةالدلالة ( ناظورةالحق ص 97) ، اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ہماری اس بات کی تردید کرنا چاہتاہے تو اس سے یہ احباب کو یہ پوچھنا چاہیے کہ آپ میں اور آپ کے ،، استاد امام ،، اوران کے ،، استاد امام ،، میں معنی کے اعتبار سے قران کی کتنے مقامات میں اختلاف ہے ؟اگر وہ کہیں کہ نہیں ہے تو یہ بات خلاف واقعہ ہے اور اگر وہ اس کو تسلیم کرلیں تو پھر وہ مقامات قطعی کیسے رہے؟ تو جو جواب آپ اس اعتراض کے متعلق دینگے وہی جواب ہم آپ کو آحادیث کے حوالے سے دینگے ان شاءاللہ ، فماھو جوابکم عن ھذا فھو جوابنا عن ذالک ، اب ذرا تخصیص اور استثنا کی تعریف ،، عرف الفقھاء ،، میں ملاحظہ کرلیں ، سمرقندی لکھتے ہیں کہ ،، فالتخصیص والاستثناء بیان قدر المخصوص والمستثنی غیرمراد من اللفظ العام والمستثنی منہ لا ان یکون داخلا تحت اللفظ ثم خرج بالتخصیص والاستثناء لکن مع صلاحیة اللفظ ، للتناول بحیث لولا التخصیص والاستثناء لکان داخلا تحت اللفظ ( ایضا ج1ص 358) یعنی تخصیص اوراستثناء قدرِمخصوص اور مستثنی کا بیان ہے مگر وہ ( پہلے میں)لفظِ عام اور ( دوسرے میں ) مستثنی منہ سے مراد نہیں ہوتے ۔یہ مراد نہیں ہے کہ یہ دونوں پہلے تحت اللفظ داخل تھے پھر اس سے نکل گئے ہیں ۔اگرچہ ان الفاظ میں اس شمولیت کی صلاحیت موجود ہے ، ہاں اگر تخصیص واستثناء نہ ہوتے تو پھر یہ ان الفاظ کے تحت داخل ہو ہی جاتے ۔ ہم نے پہلے کہا تھا کہ بعض لوگ نسخ کی تعبیر اس طرح کرتے ہیں کہ یہ فی الحقیقت اللہ تعالی کی مراد کابیان ہے کہ یہ حکم بعض اوقات میں ثابت ہوگا ۔یہ مراد نہیں ہے کہ کل اوقات میں یہ حکم ثابت تھا ۔ پھر اس سے بعض اوقات کوخارج کردیا گیا کیونکہ یہ مفہوم مؤدی الی التناقض ہے ،، توجو تخصیص کو بھی نسخ کے مانند تصور کرتے ہیں ، جیسے جناب غامدی وغیرہ تو ممکن ہے وہ تخصیص میں بھی یہی تناقض محسوس کرتے ہوں ، اس لیے ہم اس بات کی ذرا تفصیل کرتے ہیں ، فی الحقیقت اس طرح کا اعتراض بعض لوگ اول اول استثناء پر کرتے تھےکہ استثناء کا تعقل وتصور مشکل ہے کیونکہ جب جاء نی القوم الازیدا کہتے ہیں ، تو اس ،، قوم ،، میں زید کالفظ یا تو داخل ہوگا یاپھر داخل نہیں ہوگا ، اگر زید ،، قوم ،، میں شامل نہیں ہے ، توپھر اس کااستثناء اس سے درست نہیں ہے کیونکہ غیرداخل شے کا اخراج متصور نہیں ہے ۔ اور اگر زید ،، قوم ،، میں داخل ہے ، تو پھر بھی اس کا اخراج درست نہیں ہے کیونکہ یہاں تناقض پیدا ہورہاہےکہ ایک ہی کلام میں پہلے اس کے مجیئت کو ثابت کیاگیاہے اورپھراس سے اس کو نفی کیاگیا ہے وھذا ھوالتناقض ؟ تواس اشکال کے جواب میں اہلِ علم نے بہت کچھ کہاہے ۔ ہم ایک دوقول نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، نجم الایمہ شیخ رضی الدین شرح کافیہ میں اس اشکال کا چوتھا صحیح جواب یہ دیتے ہیں ،، فزبدة الکلام ان دخول المستثنی فی جنس المستثنی منہ ثم اخراجہ ب ،، الا ،، واخواتھا ، انما کان قبل اسناد الفعل اوشبھہ الیہ فلا یلزم التناقض فی نحو ،، جاءنی القوم الا زیدا ،، لانہ بمنزلة قولک ،،المخرج منھم زید جاؤنی ،، ولا فی نحو ،، لہ علی عشرة الا درھما ،، لانہ بمنزلة قولک ،، العشرة المخرج منھا واحد لہ علی ،، وذالک لان المنسوب الیہ الفعل وان تاخر عنہ لفظا لکنہ لابد لہ من التقدم وجودا علی النسبة التی یدل علیھا الفعل اذالمنسوب الیہ والمنسوب سابقان علی النسبة بینھما ضرورة ( شرح الرضی ج 2ص 114) خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ اجزاء جملہ کا مفہوم پہلے متعین اور مقرر ہوجاتاہے ، فعل کی نسبت بعد میں اس کی طرف ہوجاتی ہے لہذا تناقض کا یہاں کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے ۔ تقریبا یہی جواب اس اشکال کا حافظ ابن القیم نے بھی دیا ہے ، اس کو بھی ملاحظہ فرمالیں لکھتے ہیں کہ ،، والجواب عن ھذاالاشکال انہ لایحکم بالنسب الا بعدذکر کمال ذکر المفردات فالاسناد انما وقع بعد الاخراج فالقائل اذاقال ،، قام القوم الا زیدا ،، فھاھنا خمسة امور احدھا القیام بمفردہ الثانی القوم بمفردہ الثالث زید بمفردہ الرابع النسبة بین المفردین الخامس الاداة الدالّة علی النسبة عن زید فزید دخل فی القوم علی تقدیر عدم الاسناد وخرج منھم علی تقدیر الاسناد ثم اسند بعد اخراجہ فدخولہ وخروجہ باعتبارین غیرمتنافیین فانہ دخل باعتبار الافراد وخرج باعتبار النسبة فھو من القوم غیرمحکوم علیھم ولیس من القوم المقیّدین بالحکم علیھم ( بدائع الفوائد ص 706) آج کے کلام کا حاصل یہ ہواہے کہ اگرچہ محققین کے نزدیک تخصیص اور نسخ کے مفہوم میں فرق ہے کہ تخصیص دفع ہے اور نسخ رفع ہے یعنی تخصیص کو عام لفظ شامل نہیں کرتے اگر چہ نسخ کو وہ لفظ شامل ہوتا ہے ۔ لیکن ممکن ہے کہ جو لوگ تخصیص کو نسخ کے مفہوم میں لیتے ہیں وہ اس میں تناقض محسوس کرتے ہوں ، تو پھر ہم نے اس بات کی وضاحت کے لیے نجم الایمہ اور حافظ ابن القیم کی عبارتیں احبابِ کرام کے حضور میں پیش کردی ہیں ۔گویا اب تک جناب غامدی کی اس قاعدہ کے چار جوابات دوستوں کے سامنے آئے ہیں ، امید ہے انھیں اطمینان ہوگیا ہوگا

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…