غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ہشتم)

Published On January 23, 2024
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

ڈاکٹر خضر یسین

حدیث کے متعلق غامدی صاحب کا موقف کسی اصول پر مبنی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اس بات سے دلچسپی ہے کہ حدیث کی فنی حیثیت متعین کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ حدیث کا مدار اعتبار “قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” ہے، نہ کہ “قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” ہے۔ چنانچہ حدیث کے متعلق ان کا موقف تقریبا اتنا ہی مبہم اور غیر واضح ہے، جتنا دیگر روایتی علماء کا ہے۔ اس سلسلے میں وہ عجب طرح کی ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔ حدیث کو کہیں شریعت سے بالکل بے تعلق کر دیتے ہیں اور کہیں قرآن مجید کا بیان بتاتے ہیں اور کہتے ہیں: قرآن کے حکم کی صراحتا نفی کر دینے والی حدیث بھی قرآن کا بیان اور وضاحت ہے۔ مثلا کھانے پینے کی حلت و حرمت کے باب میں احادیث میں جن چیزوں کو حرام بتایا گیا ہے، ان کے متعلق کہتے ہیں، لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے حدیث کو “بیان فطرت” کے بجائے “بیان شریعت” سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ شریعت کا ان حرمتوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔

لیکن آ گے چل کر حدیث سے ثابت ہونے والے احکام کو قرآن مجید بیان اور وضاحت بتاتے ہیں اور وہاں اسے “بیان فطرت” کے بجائے “بیان شریعت” کا درجہ دے دیتے ہیں۔

مثلا رضاعت سے جن رشتوں کو قرآن مجید نے حرام کیا ہے، وہ صرف دو ہیں۔ ماں اور بہن لیکن حدیث میں آیا ہے کہ رضاعت سے وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو ولادت سے ہوتی ہے۔ غامدی صاحب کہتے ہیں:آنجناب علیه السلام کا ارشاد قرآن مجید کے مدعا کا بیان ہے اور یہ کتاب اللہ پر زیادتی نہیں ہے۔ حلال و حرام جانوروں کے لئے حدیث “بیان فطرت” تھی اور “بیان شریعت” نہیں تھی مگر رضاعت اور دیگر معاملات میں حدیث “بیان شریعت” کا درجہ لے لیتی ہے اور خدا کی نازل کردہ شریعت میں شامل ہو جاتی ہے۔

میتة یا مردار کو قرآن مجید نے مطلقا حرام قرار دیا ہے۔ مردہ مچھلی اور مردہ ٹڈی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح دوسرے مردہ جانور حرام ہیں۔ لیکن جس مچھلی یا ٹڈی کا آپ شکار کرتے ہیں، وہ مردہ نہیں ہوتی۔ زندہ مچھلی کا شکار کیا جاتا ہے۔ لیکن دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ جانور حلال صرف اس وقت ہوتا ہے جب اس کے گلے پر چھری پھیر کر یا ذبح کر کے حلال کیا جاتا ہے۔ مچھلی اور ٹڈی کے گلے پر چھری پھیر کر حلال نہیں کیا جاتا، صرف زندہ پکڑا جاتا ہے یا شکار کیا جاتا ہے۔ لیکن دریا کنارے پڑی ہوئی مردہ مچھلی کیسے حلال ہو جائے گی؟

غامدی صاحب یہاں بھی حدیث کو قرآن مجید کے عین مطابق اور قرآن مجید کا بیان ہی مانتے ہیں۔ حالانکہ یہ کامن سینس کی بات ہے، مردہ مچھلی اور ٹڈی بھی اسی طرح حرام ہے جیسے باقی مردہ جانور حرام ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے:غامدی صاحب عربیت میں خود اتھارٹی مانتے ہیں اور عرف و عادت کو بطور سند پیش کرتے ہیں۔ لیکن عرف و عادت کی درست شناخت کرنے کے لئے ہوم ورک نہیں کرتے۔ اگر آپ عرف اور عربیت کو سب کچھ سمجھتے ہیں تو کیا مردہ مچھلی یا ٹڈی کا شکار کیا جاتا ہے؟ کیا مچھلی اور ٹڈی کے گلے پر چھری پھیر کر حلال کیا جاتا ہے؟

اصل بات یہ ہے:غامدی صاحب بھی حدیث کی فنی حیثیت متعین کئے بغیر دین اور دینی حجت مانتے ہیں۔ لیکن فنی حیثیت کی جانب توجہ نہیں دیتے تاکہ حسب منشاء حدیث قبول کریں اور جسے چاہیں رد کر دیں۔

لیکن حدیث کی فنی حیثیت متعین ہو جائے تو بالواسطہ یا بلاواسطہ دین اور دینی حجت کے زمرے سے وہ بالکل خارج ہو جاتی ہے۔ روایتی علماء و مشائخ یہ نہیں چاہتے کہ لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ حدیث کا مدار اعتبار آنجناب علیه السلام نہیں ہیں بلکہ غیرنبی ہے۔ چونکہ غیرنبی سے نبوت کا مفاد قبول کرنا حرام ہے، اس لئے حدیث نہ دین ہے اور نہ دینی حجت ہے۔

غامدی صاحب دیگر مذہبی دانشور علماء کی طرح اس کنفیوژن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، دو ٹوک انداز میں غیرنبی کو نبوت میں موثر ماننے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر نبوت میں غیرنبی کو موثر ماننے سے انکار ہو جائے تو خود ان کے اپنے اجتہادات بھی دین کے زمرے سے باہر ہو جائیں گے، جو انہیں کسی صورت قبول نہیں ہے۔

غامدی صاحب مکتب فراہی کے نمائندے ہیں۔ اس مکتب کا اختصاص عربی زبان و ادب اور اس کا ذوق ہے۔ غامدی صاحب کے گرامی قدر اساتذہ کو عربی زبان و بیان کے روایتی علوم میں منفرد مقام اور مجتہدانہ شان حاصل ہے۔ ان حضرات کی دینی فکر پر عربی ادبیت کا غلبہ بہت نمایاں ہے۔ بعض اوقات یہ غلبہ اس حد تک متجاوز ہو جاتا ہے کہ لسانیات کے اصول و مبادی سے متصادم ہوتا ہوا باقاعدہ نظر آتا ہے۔

قرآن مجید کے متعلق زبان زد عام ایک جملے کی توثیق فرماتے ہوئے غامدی صاحب کہتے ہیں:چنانچہ بطور اصول ماننا چاہیے”القرآن یفسر بعضه بعضا” قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے۔ جس مطلب ہے: قرآن کا ایک مقام مجمل ہے اور دوسرا اس کا مفسر ہے۔

لسانیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو اجمال و اختصار کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک اجمال و اختصار ضروری ہوتا ہے اور دوسرا غیرضروری ہوتا ہے۔ ضروری اجمال و اختصار تفسیر و تفصیل کا محتاج کبھی نہیں ہوتا۔ یہ کلام کا حسن ہوتا ہے۔ اسی طرح جب کسی کلام میں غیرضروری اجمال و اختصار آ جاتا ہے تو اس کی تفسیر و تفصیل ضروری ہو جاتی ہے۔ اب اس تفسیر و تفصیل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ضروری ہوتی ہے اور ایک غیرضروری ہوتی ہے۔ تفسیر و تفصیل فی نفسہ مطلوب نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا محتاج کلام ادبی ذوق کے لئے پسندیدہ ہوتا ہے۔ جب کوئی کلام غیرضروری اجمال و اختصار رکھتا ہو تو اس کی تفسیر و تفصیل کی جاتی ہے۔

لیکن یہاں ایک بات اچھی سمجھ لینی چاہیے۔ تفسیر و تفصیل کے الفاظ اصلا کلام کی صفت ہیں۔ وہ کلام جو بالذات واضح ہو اور خارج سے کی معاونت کے بغیر اپنے مدعا کے ابلاغ میں سو فیصد کامیاب ہو، اسے تفسیر و تفصیل کہا جاتا ہے۔ یہ تفسیر و تفصیل کلام کی صفت نہیں ہے بلکہ خود ماہیت کلام ہے۔ لیکن جب یہ الفاظ کلام کی صفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں تو پھر یہ ایک اور کلام کے بالمقابل آتے ہیں، جسے مجمل اور مختصر کہا جاتا ہے۔

قرآن مجید باعتبار ماہیت کلام، تفسیر و تفصیل ہے۔ لیکن کسی اور کلام کی تفسیر ہے اور نہ اپنے کسی مجمل حصے کی، دوسرے حصے میں تفسیر بنتا ہے۔

قرآن مجید الوہی ہدایت ہے، بجھارت نہیں ہے کہ ایک مقام پر آدھی بات کرے اور آدھی بات کہیں اور جا کر بیان کرے۔ قرآن مجید نے جہاں جو بیان کیا ہے، ہدایت کے تناظر میں، وہ وہی پر درست ہے اور مکمل بیان ہے۔ لیکن جب آپ کی آرزو حصول ہدایت کی نہ ہو بلکہ آپ داستان مکمل کرنی ہو تو پھر ایک مقام سے دوسرے مقام پر سلپ کرنا، آپ کی ایک مجبوری ہے۔

فراہی مکتب میں قرآن مجید پر زبان و بیان کے جن علوم کو برتا گیا ہے، وہ بہت عظیم الشان علوم ہیں۔ ہمیں ان علوم کی یہاں تنقید و تنقیح نہیں کرنی اور نہ ہی اس مکتب کے اصول اطلاق میں ہمیں وقت ضائع کرنا ہے۔ البتہ جو بات ہمیں یہاں بیان کرنی ہے، ان علوم کی تفہیم میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

اکیلا لفظ جسے “کلمہ مفرد” کہا جاتا ہے، وہ اگر ایک معنی پر دلالت کرتا تو اس کی تفہیم و اطلاق میں کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن ایسا کلمہ یا لفظ جس کی معنوی دلالت ایک شے زیادہ ہو تو اس وقت تک وہ مشترک رہتا ہے جب تک کلام کا حصہ نہیں بنتا۔ جونہی وہ اجزائے کلام میں سے ایک جز بن جاتا ہے تو اب اس کے معنی کا تعین سیاق کلام کا نظم کرتا ہے۔ سیاق کلام کا نظم یا نظم کلام کا سیاق خود ہی اس لفظ کی معنوی جہت کو متعین کر دیتا ہے۔ 

غامدی نے اپنے استاد گرامی مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کی ایک عبارت نقل کی ہے جس میں وہ فرما رہے ہیں

میرا ذاتی تجربہ اور مدتوں کا تجربہ تو یہ ہے کہ ایک لفظ ایک آیت میں بالکل مبہم نظر آتا ہے اور دوسری آیت میں وہ بالکل بے نقاب ہو جاتا ہے۔

آپ اندازہ کر سکتے ہیں: یہ اپروچ کیا ہے؟ قرآن مجید کا بیان اپنے اندر اس نوع کا سقم اگر رکھتا ہے تو ہدایت کا عنوان کسی طرح بھی اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔ اگر نظم کلام کا سیاق لفظ کی معنوی جہت کو متعین نہیں کرتا تو یہ کلام کسی معنی میں بھی فصیح ہے اور نہ بلیغ ہے۔

دین کے متعلق غامدی صاحب کا بنیادی تصور دینی کے بجائے علمی بلکہ مفروضاتی ہے۔ وہ دین پر عالمانہ نظر ڈالتے ہیں اور پھر پوری داستان مرتب کرتے ہیں۔ جس کا آغاز وہ ان الفاظ سے کرتے ہیں

غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید ہدایت کے بجائے دعوت ہے۔ ہدایت اور دعوت میں، آپ جانتے ہیں، زمین و آسمان کا فرق ہوتاہے۔ “ہدایت” کسی نصب العین کے حصول کا لائحہ عمل ہوتی ہے جبکہ “دعوت” کسی نصب العین کی طرف پکار کا نام ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید ایک نصب العین کی طرف پکار ہے، الوہی مقاصد کے حصول کا لائحہ عمل نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کا اپنے متعلق دعوی یہ ہے کہ وہ متقین کے لئے ہدایت ہے۔ جہاں تک دین کی دعوت کا تعلق ہے تو وہ بھی یہی ہوتی ہے کہ قرآن مجید کو ہدایت نانو اور ہدایت قبول کرو۔ اس دعوت کے رد عمل میں انسان مومن، کافر اور منافق بنتے ہیں۔ غامدی صاحب قرآن مجید کو “ہدایت” کی حیثیت سے دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ وہ اسے ایک دعوت کے طور پر لیتے ہیں اور یہ دعوت ان کے نزدیک جن مقدمات شروع ہوتی ہے وہ تین ہیں۔

الف- فطرت کے حقائق

ب- دین ابراہیمی کی روایت

ج – نبیوں کے صحف۔

فطرت کے حقائق کے متعلق ان کا فرمانا یہ ہے؛ خیر و شر یا معروف و منکر کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ ہے۔ لہذا قرآن مجید انسان سے مطالبہ کرتا ہے، معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے۔

دین ابراہیمی کی روایت بھی غامدی صاحب کے ہاں کم از کم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں اسی طرح پہلے سے معلوم ہے، جس طرح فطرت کے حقائق یعنی معروف و منکر پہلے سے معلوم ہیں۔ فطرت کے حقائق انسان میں ودیعت شدہ ہیں اور دین ابراہیمی روایت میں چلا آ رہا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قرآن مجید میں محدود ہے۔ جہاں دین کے دوسرے اہم جز سنت کا تعلق ہے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل نہیں ہوئی بلکہ وہ بھی عربوں کی روایت میں ودیعت شدہ تھی۔ چنانچہ وہ پورے زور کے ساتھ کہتے ہیں “سنت” قرآن مجید پر مقدم ہے۔

انبیاء کے صحف کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں جن باتوں کا ذکر ہے، ان تفصیلات کے لئے اصل ماخذ انبیاء کے یہی صحف ہیں اگرچہ تحریف شدہ ہیں مگر انہیں اپنی بصیرت پر پورا اعتماد ہے کہ ان محرف صحف میں سے وہ خدا کا کلام نکال کر الگ کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید کے اسالیب اور اشارات کو سمجھنے کے لئے انہی تحریف شدہ صحف سے رجوع کیا جائے گا۔

گویا قرآن مجید جن کتب سماوی کا “مہیمن” بن کر نازل ہوا ہے، وہ کتب بھی قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل اور اس کے اسالیب اور اشارات کا حل ہیں۔ یہ کتب جس طرح قرآن مجید کی محتاج ہیں، قرآن مجید بھی ان کتب کا کسی حد تک ضرور محتاج ہے۔

ہماری معروضات یہ ہیں؛ اللہ نے انسان کو انسان بنایا ہے اور اس کی ایک بالفعل فطرت ہے جو طبعی خواہشات، جبلی داعیات اور نفسانی تقاضوں پر مشتمل ہے( ال عمران؛ ١٤ )۔ اس فطرت میں وہ دیگر حیوانات سے مختلف نہیں ہے۔ انسان کی ایک فطرت بالقوہ ہے، جسے اگر انسان نشو و نما دیتا ہے تو ایک زندہ قوت بن کر اس کی بالفعل فطرت کو منضبط و منقاد بنا دیتی ہے اور انسان اللہ کی رضا حاصل کر لیتا ہے یا “انسان مرتضی” بن جاتا ہے۔ بالقوہ فطرت پانچ چیزوں پر مشتمل ہے:١- اقرار ربوبیت باری تعالی (الأعراف؛ ١٧٢)، ٢ – شیطان کی عبودیت کا انکار کا عہد اور اللہ کی عبودیت کا عہد ( يأسين؛ ٦٠، ٦١ )، ٣ –  فجور و تقوی کا امتیاز ( الشمس ؛ ٨)، ٤ – امانت کی ذمہ داری کا احساس(الأحزاب؛ ٧٢ ) ٥ – اپنے نفس پر بصیرت رکھ دی ہے ( القيامة؛ ١٤)۔

اسی فطرت کی موجودگی ہی وہ اصل الاصول ہے جس کی بنا پر اللہ کا نبی جب انسان کے سامنے اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت پیش کرتا ہے تو اس انسان کے پاس اس حق کو قبول کرنے کے سواء چارہ نہیں ہوتا۔ منکرین نبوت کا انکار کسی عذر یا وجہ سے بھی ہو، جائز نہیں ہوتا۔ حتی کہ جھوٹے نبی پر ایمان و اعتماد کرنے والا انسان، کل اللہ کے سامنے اپنے جرم کا جوابدہ ہو گا۔

غامدی صاحب کی ایک اہم اصطلاح ملت ابراہیمی ہے۔ دیانت داری کی بات یہ ہے قرآن مجید کا پرخلوص طالب علم “ملت” کا وہ تصور قرآن مجید میں کہیں نہیں پاتا جسے غامدی نے رسوم و رواج کی ایک روایت بنا دیا ہے۔ اللہ نے ملت ابراہیم کی وضاحت خود بیان فرما دی ہے:

من يرغب عن ملة ابراهيم الا من . . . . . . إذ قال له ربه أسلم قال أسلمت لرب العالمين ( البقرة؛ ١٣٠، ١٣٢، ١٣٣)

“ملة ابراهيم” ابراہیم علیہ السلام کی ملت یا “الرماد الحار” یعنی گرم ریت جس میں ان روٹی پکتی تھی وہ یہ تھی:

اذ قال له ربه أسلم قال أسلمت لرب العالمين

اسی کی ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی۔ یہ ملت ابراہیم رسوم و رواج کی روایت کا تصور کہاں سے نکالا گیا ہے؟ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ملت ابراہیم دراصل ابراہیم علیہ السلام کا وہ رویہ تھا جو وہ وحی خداوندی کے سامنے اختیار کیا کرتے تھے۔ اللہ نے اسے فرمایا میرے آگے جھک جا، اس نے کہا؛ میں رب العالمین کے آگے جھک گیا” یہ ملت ابراہیمی ہے۔ غامدی صاحب نے ملت ابراہیم کے مفہوم و مدلول کے لئے قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے کے بجائے خود سے ایک مفہوم بنا ڈالا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے:اللہ تعالی فرماتا ہے:لكل جعلنا منكم شرعة و منهاجا (المائدة ٤٨) مگر غامدی کہتے ہیں:محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی “کتاب” صحف ماسبق کا تسلسل ہے اور “سنت” انبیاء ماسبق کا طریقہ عبادت ہے۔

اس میں شک نہیں کہ الصلوۃ، الصوم، الزکوة، الحج وغیرہ ایسے الفاظ نہیں تھے، عرب جنہیں پہلی بار سن رہے ہوں۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں ان الفاظ کا مفہوم و مدلول وہ نہیں تھا جس سے عرب یا غیرعرب دنیا واقف تھی۔ خود قرآن مجید نے عربوں کی “الصلوۃ” کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے، اس کو ہی سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا ممکن نہیں رہتا کہ ان الفاظ کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں جو “اصطلاحی مدلول” ہیں، عرب اور غیرعرب دنیا ان سے واقف تھی۔ ہاں ان الفاظ کے لغوی معنی سے عرب ضرور واقف تھے۔ لغوی معنی اور اصطلاحی مدلول ایک کبھی نہیں ہوتے۔ لیکن غامدی کی دینی فکر میں اس طرح کے تسامحات جگہ جگہ ملتے ہیں اور کثرت سے ملتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…