غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

Published On January 14, 2024
جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔ جمعے کی نماز کی عدمِ فرضیت پر جناب کا استدلال ہے کہ مسلم ریاست میں خطبہ سربراہِ ریاست یا اسکے حکم سے اسکے نمائندے کا حق...

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں ہے کہ عورت امام نہیں بن سکتی ۔ لیکن ایسا استدلال درست نہیں ہے ۔ ہم انہیں اجماعِ امت سے منع کریں گے کہ صحابہ میں ایسا کبھی...

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا ۔انکا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں زنا کی سزا رجم نہیں ہے بلکہ کوڑے ہیں ۔ " الزانیۃ الزانی فالجلدوا کل...

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن جسمانی معراج کے انکار پر غامدی صاحب کا استدلال " وما جعلنا الرؤیا التی" کے لفظ رویا سے ہے ۔حالانکہ یہاں لفظ رویا میں خواب اور رویت بمعنی منظر دونوں کا احتمال ہے اور واقعے کے جسمانی یا روحانی ہونے پر قرآن کا بیان جہاں سے شروع...

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

 ڈاکٹر زاہد مغل - پہلا: جب ناقدین سے کہا جائے کہ "قرآن و سنت کو سمجھ کر احکامات اخذ (یعنی "خدا کی رضا" معلوم) کرنے کے لئے اگر یونانیوں کے وضع کردہ طرق استنباط سیکھنا سکھانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جب کہ سنت نبوی میں انکی تعلیم کا کوئی بھی ذکر نہیں ملتا، تو صوفیاء...

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

 محمد فیصل شہزاد معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی ہے: مفہوم: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘...

ڈاکٹر زاہد مغل

کچھ عرصہ قبل ایک تحریر میں متعدد مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا گیا تھا کہ اصولیین جسے نسخ، تقیید و تخصیص (اصطلاحاً بیان تبدیل و تغییر) کہتے ہیں، قرآن کے محاورے میں وہ سب “بیان” ہی کہلاتا ہے اور اس حوالے سے محترم مولانا اصلاحی صاحب اور محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ امور تبیین یعنی شرح سے خارج کہلاتے ہیں (مسئلہ رجم میں ان کی رائے کی اصل بنیاد یہی نکتہ ہے)۔ اس تحریر میں جو مثالیں پیش کی گئیں، ان کا جواب دینے کے لئے غامدی صاحب نے ایک ویڈیو سیریز شروع کی ہے جس کی پہلی قسط میں انہوں نے سورہ بقرۃ میں مذکور مثال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے نظرئیے کا دفاع کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ سورہ بقرۃ میں مذکور اس واقعے میں بنی اسرائیلیوں کو دئیے گئے ایک حکم (“گائے ذبح کرو”) پر یک بعد دیگرے دس قیود کا اضافہ کیا گیا اور یہ سب اضافے لفظ “یبین” کے جواب میں کئے گئے جو واضح کرتا ہے کہ بیان تغییر (اصطلاحی نسخ و تخصیص و تقیید) بھی تبیین میں شامل ہے۔ 

اس کا جواب دینے کے لئے غامدی صاحب نے دو طریقے اختیار کئے۔ پہلی بات یہ کہی گئی کہ یہاں “یبین” کا لفظ خدا نے استعمال نہیں کیا بلکہ یہود نے کیا تھا۔ لیکن یہ کوئی اہم بات نہیں ہے کیونکہ جواب اسی لفظ سے پوچھے گئے سوال میں دیا گیا ہے۔ اگر یہ اضافی قیود “یبین” کا جواب نہیں تھیں تو خدا کو کہنا چاہئے تھا کہ تم نے لفظ ہی غلط استعمال کیا ہے یا یہ کہ حکم تو واضح ہے اور شرح کا محتاج ہی نہیں، تم بیان کیوں مانگ رہے ہو؟ لیکن شارع نے لفظ “یبین” ہی کے تقاضے کو ایک بار نہیں بار بار کھولتے ہوئے ان قیود کا ذکر کیا۔ لہذا ان کا یہ جواب سرے سے لائق التفات نہیں۔ پھر یہ نرا ایک مفروضہ ہے کہ تبیین میں تقیید و تخصیص شامل نہیں، اس کی دلیل ان پر ادھار ہے کہ لغت و عقل کی رو سے آخر یہ امور کیوں کر تبیین سے خارج ہیں۔ چنانچہ ایک غیر ثابت شدہ مفروضے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خدا نے جو تقیید کی وہ سائل کے لفظ کا جواب نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی جانب سے دئیے گئے دوسرے و اصل نکتے سے ہی اس کی تردید ہوجاتی ہے جہاں انہوں نے خود ہی اسے تبیین بنا دیا ہے۔

دوسری بات میں غامدی صاحب یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ابتدائے حکم کے سیاق ہی میں ایک ایسا سوال موجود تھا جو تفصیل کا تقاضا کرتا تھا۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیلیوں کو محض گائے ذبح کرنے کا نہیں بلکہ “قربانی کی گائے” ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور جس طرح ہم جانتے ہیں کہ قربانی کا جانور عام جانور سے بایں معنی مختلف ہوتا ہے کہ اس پر کچھ اضافی قیود عائد ہیں (کہ مثلاً وہ بے عیب ہو وغیرہ)، اسی طرح بنی اسرائیلیوں نے بھی سوال پوچھا کہ یہ قربانی کا جانور کیسا ہو اور اس کے جواب میں اس کی خصوصیات بیان کی گئیں۔ یوں یہ معاملہ ان کے مطابق گویا ان کے اس نظرئیے کی رو سے تبیین بن گیا (نہ کہ نسخ و تخصیص وغیرہ) جسے انہوں نے کتاب “برھان” میں لکھا تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے فرمایا کہ بنی اسرائیلی یہ قیل و قول بری نیت سے کررہے تھے نیز اگر وہ پہلے حکم پر عمل کرلیتے تو حکم ادا ہوجاتا۔

اگر ان کے اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے کہ سیاق کلام سے یہاں “قربانی کی گائے” ہی مراد تھی نیز یہ مفروضہ بھی مان لیا جائے کہ قربانی کی گائے ذبح کرنے کا حکم لازماً چند اضافی قیود کا تقاضا کرتا ہے تب بھی اس جواب کا حاصل صرف یہ ہے کہ انہوں نے اصطلاحی نسخ و تخصیص و تقیید کو تبیین مان لیا ہے۔ اصولیین جسے نسخ یا تخصیص کہتے ہیں اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ثابت شدہ حکم کلی یا جزوی طور پر اٹھا لیا جائے۔ رہی یہ بات کہ حکم کا یہ اٹھایا جانا فلاں وجہ سے تھا یا فلاں سوال کے جواب میں تھا، یہ ان کی حقیقت میں شامل نہیں۔ چنانچہ جب غامدی صاحب نے مان لیا کہ ابتداء بنی اسرائیلیوں کے حق میں ایک حکم ثابت ہوگیا تھا کہ کوئی سی ایک گائے ذبح کرلیں اور پھر اس کے بعد اس حکم میں قیود کا اضافہ کرکے اسے محدود کردیا گیا، اسے ہی تو نسخ و تخصیص کہا جاتا ہے (جسے بیان تغییر کہتے ہیں)۔ اس تغییر کی وجہ چاہے فوری سیاق کلام میں موجود ہو یا دور کے (جسے قیاس کے مباحث میں “جنس وصف” کہتے ہیں)، یہ اسے بیان تغییر کی حقیقت سے خارج نہیں کرتا۔ الغرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اب تبیین کی جس طرح شرح کی ہے اس کے بعد یہ صرف لفظی نزاع بن کے رہ گیا ہے کہ اگر مجتہد حکم میں اضافے یا کمی کو کسی طرح دور و نزدیک کے سیاق سے قائم ہونے والے کسی سوال کا جواب بنا کر دکھا دے تو یہ بھی تبیین بن جائے گا۔ اہل علم جانتے ہیں کہ جواب دیکھ لینے کے بعد ایسا سوال قائم کرلینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔

غامدی صاحب کا جواب تب درست ہوتا جب وہ یہ دکھاتے کہ یہاں اصل حکم پر ایسا کوئی اضافہ نہیں ہوا جو بیان تبدیل یا تغییر کہلا سکے۔ چنانچہ اگر تو وہ یہ کہتے کہ جب تک بیان نہ آیا تھا تب تک بنی اسرائیلیوں پر ابتدائی حکم کی ادائیگی لازم ہی نہ تھی (یعنی اصطلاحی زبان میں اگر وہ یہ ثابت کرتے کہ گائے ذبح کرنے کا حکم “مجمل” تھا) تو ان کی بات بن سکتی تھی کیونکہ پھر آگے مذکور تفصیل کمی یا اضافہ نہیں بنتے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر یہ راستہ بند کردیا کہ اگر وہ ابتدائی حکم ادا کردیتے تو حکم ادا ہو جاتا۔ ویسے یہ کہنے کی صورت میں انہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیلیوں کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا کیونکہ وہ بیچارے تو مجمل (ایسی بات جس کی وضاحت متکلم کے مزید کلام کے بغیر ناممکن ہو کہ وہ گویا اس کی ایک نوع کی اصطلاح ہوتی ہے) کی وضاحت مانگ رہے تھے۔ امکانی طور پر غامدی صاحب کے پاس دوسرا راستہ یہ کہنا ہے کہ ہم خبر واحد سے ایسے نسخ، تخصیص یا تقیید کے قائل نہیں ہیں لیکن اس بات کے کہنے سے بھی اس حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ قرآن نے اسے تبیین ہی کہا ہے اور بحث اس میں نہیں ہے کہ خبر واحد سے تخصیص و تقیید جائز ہے یا نہیں بلکہ اس میں ہے کہ تخصیص و تقیید تبیین ہے یا نہیں۔ پس:

– جب خود انہیں قبول ہے کہ نبی کا وظیفہ تبیین کرنا ہے

– اور یہ ثابت ہوگیا کہ جسے اصولیین بیان تغییر وغیرہ کہتے ہیں وہ قرآن کے محاورے میں تبیین ہے

– تو انہیں ماننا ہوگا کہ نبی کے کلام سے تبیین کی صورت تخصیص و تقیید بھی جائز ہے۔ زیادہ سے زیادہ شرط اتنی ہے کہ مجتہد کسی سیاق سے حدیث میں مذکور اس اضافے و کمی کو اصل حکم سے جوڑ کر دکھا دے اور بس۔

اس کے بعد مسئلہ رجم میں محترم اصلاحی و غامدی صاحبان کے موقف کی جو اصل بنیاد ہے (کہ بیان تبدیل و تغییر تبیین نہیں) وہ اپنی جڑ سے اکھڑ کر رہ جاتا ہے۔

ویڈیو کے لئے درج ذیل لنک کو کلک کریں

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…