غامدی صاحب اور انکارِ حدیث

Published On November 26, 2023
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

دوست کا سوال ہے کہ غامدی صاحب کو “منکر حدیث” کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: دیکھیں، اصل یہ ہے کہ آپ کی “انکار حدیث” سے مراد کیا ہے؟ اگر تو انکار حدیث سے مراد کلی طور پر حدیث کا انکار ہے تو ایسا غامدی صاحب نہیں کرتے۔ بہر حال یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ حدیث کے معاملے میں “پرویزی” نہیں ہیں۔

اور اگر آپ کی انکار حدیث سے مراد یہ ہے کہ غامدی صاحب حدیث کو وہ مقام نہیں دیتے جو کہ خود قرآن مجید نے دیا ہے یا جس پر امت نے اتفاق کیا ہے تو یہ بات ایسے ہی ہے۔ عام طور لوگ کہتے ہیں کہ دیکھیں پرویز صاحب تو نماز روزے کے بھی قائل نہیں تھے لیکن غامدی صاحب تو ہیں۔ تو یہ بات درست ہیں کہ غامدی صاحب ارکان اسلام وغیرہ کے قائل ہیں لیکن وہ اسے حدیث سے نہیں، سنت سے مانتے ہیں۔ لہذا یہ ماننے کے باوجود یہ سوال پھر باقی رہ جاتا ہے کہ ان کے ہاں حدیث کا مقام کیا ہے؟

آسان الفاظ میں سوال  یہ   پیدا ہوا کہ کیا “حدیث” دین اسلام کا کوئی بنیادی ماخذ ہے؟

مسلمانوں کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ حدیث بھی بنیادی ترین مآخذ میں شامل ہے اور بنیادی ترین مآخذ دو ہیں یعنی قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حدیث میں ہے۔ جبکہ غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ حدیث، دین اسلام کا بنیادی ترین ماخذ نہیں ہے۔ اور بنیادی ترین مآخذ ان کے نزدیک بھی دو ہی ہیں لیکن وہ قرآن مجید اور سنت ابراہیمی ہیں۔

اس کو ایک اور طرح سے سمجھ لیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حدیث دین اسلام کا مستقل مآخذ ہے یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دین اسلام میں کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے سکیں؟ تو مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریع  کا یہ حق اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے جبکہ غامدی صاحب اس کے قائل نہیں ہیں۔

غامدی صاحب کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید میں موجود احکامات کی محض شرح اور تفسیر کر سکتے ہیں، ان میں اضافہ یا ان کے نسخ یا ان کی ایسی تشریح نہیں کر سکتے کہ جس سے وہ قرآنی حکم محدود ہو جائے۔ ان کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ حق نہیں دیا گیا ہے۔ شارع  صرف اللہ کی ذات ہے اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تبعا بھی شریک نہیں ہیں۔

پس وہ حدیث کی حیثیت کو مانتے ہیں لیکن صرف اتنی کہ وہ قرآن مجید کی تفسیر یا شرح بن سکے۔ جہاں جہاں حدیث قرآن مجید کے کسی حکم پر اضافہ، یا نسخ یا اس کی تحدید کا باعث بنے گی، تو وہ اسے بیان شریعت ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پس ان کے نزدیک حدیث کی حیثیت ایک تاریخی ریکارڈ اور تفسیر کی سی ہے نہ کہ دین اسلام کے کسی بنیادی مصدر  کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…