تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

Published On February 18, 2025
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

شعیب احمد

غامدی تصورِ جہاد؟

شهادت علی الناس:۔

شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود اقوام عالم پر شہادت علی الناس کا یہ منصب اعزازی اور خصوصی طور سے دیا گیا ہے۔ اور روم و فارس کا جہاد اسی شہادت کا مظہر تھا۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:۔

(صحابہ کی ) دعوت شہادت علی الناس” ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ وہی دعوت ہے جس سے دین کی حجت پوری دنیا پر قائم ہوگئی ہے . جب آپ نے اپنی قوم پر اتمامِ  حجت کر دیا تو جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے آپ کی صحبت اٹھائی ، وہ خدا کی زمین پر حق کا ایسا نمونہ بنے کہ سارے اخلاقی تصورات ان کے وجود میں بالکل مجسم ہو گئے یہاں تک کہ خود پروردگار عالم نے انھیں خیر امت قرار دیا…. اس جماعت کی یہی حیثیت تھی جس کی بنا پر قرآن نے انھیں مخاطب کر کے اعلان کیا ہے کہ تم ایک ” امت وسط ” یعنی  درمیان کی جماعت ہو جس کے ایک طرف اللہ کا رسول اور دوسری طرف الناس یعنی دنیا کی سب اقوام ہیں لہذا جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے ، اب وہی شہادت باقی دنیا پر تم دو گے …… صحابہ کرام کو اللہ تعالی نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے…… چنانچہ جس طرح رسولوں کو اپنی قوم پر اتمام حجت کے بعد یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے عذاب کے حوالے کر دیں، اسی طرح صحابہ کو بھی ، جب وہ رسول کی شہادت کے پس منظر میں اور خیر امت بن کر اٹھے تو بحیثیت جماعت یہ حق حاصل ہوا کہ وہ روم و ایران کی سرحدوں  پر کھڑے ہو کر انھیں اسلام کی دعوت دیں اور اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں جہاد و قتال کے ذریعے سے زیر دست بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیں …. نبوت جس طرح نبی پر ختم ہو گئی، اسی طرح شہادت کا یہ منصب اور اس کے ساتھ منکرین حق  سے قتال اور ان پر جزیہ عائد کرنے کا حق بھی ان نفوس قدسیہ پر ختم ہوا۔ ہم مسلمانوں کو یہ دعوت پیغمبر کے ان صحابہ ہی سے ملی ہے اور ان کی اس شہادت ہی کے حوالے سے ہم اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے تابعین اور تبع تابعین کی ہے۔ (میزان ۲۰۳)

اور عمار خان صاحب اس بارے میں یوں گویا ہیں :۔

شہادت علی الناس کے منصب کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ عالم کا پروردگار کسی خاص گروہ سے اپنی وفاداری اور اطاعت کا عہد و پیمان لے کر اسے دین و شریعت کی نعمت سے نواز تا آزمائش اور ابتلاء کے مختلف مراحل سے گزار کر اس کے تزکیہ وتربیت کا اہتمام کرتا اور اس امتحان میں کامیابی پر اسے دنیوی حکومت واقتدار سے بہر یاب کر دیتا ہے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعی وجود کے لحاظ سے یوں سراپا حق اور مجسم عدل و انصاف ہوتا اور اپنی دعوت اور کردار کے ذریعے سے حق کی اس طرح عملی شہادت بن جاتا ہے کہ اللہ تعالی اسے دنیا میں کفر و طغیان کا رویہ اپنانے والی قوموں کو سزا دینے کا اختیار دے دیتا ہے۔ شہادت کے منصب پر فائز گروہ کے لیے اس اختیار اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی فتوحات کی حیثیت اللہ کے انعام کی ہوتی ہے اور اسے یہ حق دے دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کی سرزمین میں اس کی میسر کردہ نعمتوں اور وسائل کو اپنے تصرف میں لے آئے جبکہ مفتوح و مغلوب قوم کے لیے یہی عمل اللہ کی طرف سے سزا اور انتظام قرار پاتا ہے ۔ ( جہاد :۱۷۳)

 

ان لوگوں کی تحریرات کو از اول تا آخر بغور دیکھیں تو منصب شہادت کے اس اختراعی اور من گھڑت مطلب کے پیچھے ایک بھی صریح دلیل نہیں ملے گی ۔ پھر اس بات کی بھی دوٹوک دلیل کوئی نہیں کہ شہادت علی الناس کا منصب صرف صحابہ کے ساتھ خاص ہے۔ اور اگر اس کو مان لیں تو اصل بات یہ ہے کہ صحابہ کا روم و فارس کے خلاف جہاد اسی شہادت کے حق کا حصہ تھا اس کی سوائے غامدی صاحب کے ذوق وجدانی کے اور کوئی دلیل نہیں ۔ اور اگر صحابہ کا قتال اس کے تحت ہو تو پھر بھی باقی امت سے جہاد برائے غلبہ دین کی نفی کا اس سے کوئی لزوم نہیں۔

پھر خود غامدی صاحب کی عبارت میں تعارض ہے ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ صحابہ روم و فارس کی سرحدوں پر اسی منصب شہادت کے تحت کھڑے ہوئے تھے اور دوسری طرف یہ بھی لکھتے ہیں:۔

ہم (یعنی آج کل کے مسلمانوں کو یہ دعوت پیغمبر کے ان صحابہ ہی سے ملی ہے اور ان کی اس شہادت کے حوالے سے ہم اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے تابعین اور تبع تابعین کی ہے۔” جب ہم سمیت بعد کی امت کی منصب شہادت میں حیثیت صحابہ کے تابعین کی ہے تو اس کے با وجود صحابہ کے علاوہ باقی امت کو جہاد کے حکم سے مستثنیٰ کرنے کا نہ جانے کیا جواز رہ جاتا ہے۔

اسی طرح ان کی عبارات اور فلسفے میں ایک اور الجھاؤ یہ ہے کہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ جو شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر قائم کی وہی شہادت صحابہ روم و فارس پر قائم کریں گے حالانکہ صحابہ پر قائم ہونے والی شہادت کی ان کے بقول عملی شکل تزکیے اور مجسم اخلاق بن جانے کی صورت میں تھی، جبکہ روم و فارس کا تو صحابہ نے ایسا کوئی تزکیہ نہیں کیا اور نہ طویل عرصے تک ان میں رہ کر دین سے روشناس کروایا ہے۔ پھر وہی شہادت کیسے ہوگئی ؟

الغرض خود انہی کے بتائے ہوئے مطلب کے مطابق آپ ﷺ کی شہادت اور ہے اور روم و فارس پر صحابہ کی شہادت اس سے بالکل مختلف بلکہ متضاد ہے۔ اس کے باوجود پتہ نہیں غامدی صاحب کے پاس کون سا ایسا آلہ و پیمانہ ہے جس سے دونوں متضاد شہادتوں کو بالکل برابر کر کے یوں فرماتے ہیں کہ جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے، اب وہی شہادت باقی دنیا پر تم دو گے پھر اگلا طرفہ تماشا یہ کہ صحا بہ والی شہادت باقی امت دے گی لیکن اس سے جہاد خارج کر دیا ۔ یہ کیسی نرالی منطق ہے کہ ایک ہی شهادت تین جگہوں پر دی جارہی ہے اور تینوں جگہ اس کی حقیقت مکمل طور سے بدل رہی ہے، اس کے باوجود بھی وہ ایک ہی شہادت ہے۔ فیا للعجب

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…