حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 67)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
اوپر جناب غامدی کی جو عبارت نقل ہوئی ہے اس میں دوسری بات ،، اعتکاف اور ختنہ ،، کی انہوں نے کی ہے ۔ہم اس مبحث میں ،، اعتکاف ،، پر کچھ کہنا چاہیں گے ۔اگے پھر دیگر عنوانات ہوں گے۔ جناب غامدی نے ،، سنتِ ابراہیمی ،، کے حوالے سے دو باتیں لکھی ہیں ۔ ایک یہ کہ ،، سنتِ ابراہیمی ،، ہم جس عمل کو کہتے ہیں وہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب معاشرے میں فعلا موجود ہوا ہے ۔ اور دوسری بات یہ لکھی ہے کہ یہ ،، سنت ،، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بتواتر ہم تک منقول ہوئی ہے ۔ان کے لیے ہم ان کی عبارتیں پہلے نقل کرچکے ہیں ،، اعتکاف ،، کے متعلق ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں محلِ نظر ہیں۔ پہلی بات تو اس لیے درست نہیں ہے کہ اس کا کوئی مستند ماخذ موجود نہیں ہے ۔ اسی لیے تو جناب غامدی نے بھی اس کے لیے کسی ماخذ کا حوالہ نہیں دیا ہے ۔ ہمارے خیال میں اس بات کے لیے تین یا چار مآخذ میں سے کوئی ایک ہو سکتاہے (1) پہلی بات یہ ہے کہ یا تو جناب غامدی اس کو مشرکینِ کے طریقے سے ماخوذ سمجھتے ہونگے اور ان کے عمل کو اس ،، سنت ،، کا ماخذ قرار دیتے ہوں گے کیونکہ قران میں ان کے بارے میں وارد ہے کہ ،، انتم لھا عاکفین ،، اگر اس کو جناب ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔ تو اس پر بحث اور نقد کرنے کے ہم کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے اسے فقط نقل کردینا ہی اس کی تردید کے لیے کافی و شافی ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب راھبینِ نصاری کا عمل اس بات اور اس ،، سنت ،، کے لیے ماخذ سمجھتے ہونگے کیونکہ قران مجید میں ان کے لیے بھی ،، ورھبانیة ابتدعوھا ماکتبنا علیھم ،، موجود ہے ۔ اگر ایسا ہو تو ہم عرض کریں گے کہ ،، بدعت ،، کیسے اور کس طرح ،، سنت ،، کاماخذ بن سکتا ہے ؟ اعتکاف ایک ،، سنت ،، عمل ہے مگر اس کی بنیاد نصاری کی رہبانیت پر قائم ہو یہ بات قطعا ماننے کے لائق نہیں ہے لہذا یہ ماخذ بھی ازکار رفتہ ہے (3) تیسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی سیدنا موسی علیہ السلام کا چالیس دن طور پر ریاضت کرنا اس بات کے لیے ماخذ سمجھتے ہونگے اور اسی طرح سیدنا عیسی علیہ السلام اورسیدنا یحیی علیہ السلام کے عمل کو بھی جانتے ہونگے ۔اگر جناب اس کو اعتکاف کا ماخذ مانتے ہیں تو یہ بھی درست نہیں ہے اس کے درست نہ ہونے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہم فقط دو یاتین وجوہ ذکر کریں گے ، (1) پہلی وجہ یہ ہے کہ جناب اس کو ،، سنت ابراہیمی ،، قرار دیتے ہیں تو اس بات کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ اس عمل کو سیدنا ابراہیم سے براہِ راست نقل کیا جائے ۔دوسروں کے اعمال نقل کرنے سے ان کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا عمل اور ،، سنت ،، کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ ان میں اس بات کا اشارہ تک موجود نہ ہو ؟ اس بات کی تردید کےلیے اتنی ہی بات کافی اور بس ہے (2) دوسری وجہ یہ ہے کہ سیدنا موسی علیہ السلام کا وہ عمل جو چالیس دن کی ریاضت پر مبنی تھا۔ وہ تو صرف وحی کے اخذ کرنے کے لیے تھا اوراسی طرح سیدنا یحی اور سیدنا عیسی علیھما السلام کا عمل بھی تھا اس لیے کہ وحی کے ،، قول ثقیل ،، کے لیے اس طرح کی ریاضت کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ خود جناب غامدی نے سیدنا موسی اور سیدنا عیسی علیھماالسلام کے متعلق اس طرح کی بات کی تصریح کی ہے کہ ،، نبی ( علیہ السلام ) جس ذمہ داری کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں ۔ اس کے لحاظ سے عبادت وریاضت میں بعض اوقات ان سے زیادہ اہتمام کا تقاضا کیاجاتاہے ۔ اس سے مقصود جمعیتِ خاطر بھی ہوتی ہے۔ تبتل الی اللہ کے ذریعے سے قلب ونظر کی تطہیر بھی ۔ اور علم وعمل میں استقامت بھی۔ موسی علیہ السلام کے بارے میں قران کا بیان ہے کہ انہیں جب تورات کی الواح دینے کا فیصلہ کیا گیا تو اس سے پہلے وہ اس بارِ عظیم کو اٹھانے کےلیے ذہنی وقلبی تیاریوں کی غرض سے چالیس دن تک جبلِ طور پرمعتکف رہے۔ سیدنا یحی اورسیدنا مسیح ( علیھماالسلام ) نے رہبانیت کی حدتک زہد وتجرد اختیار کیے رکھا ( میزان ص 141) اس سے معلوم ہوا کہ یہ عمل فقط ،، وحی ،، کے لینے اور اخذ کرنے کے لیے تھا (3) تیسری وجہ یہ ہے کہ اس عمل کو اگر ہم اعتکاف کےلیے ماخذ مان بھی لیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا ۔ تو اس میں جناب کے لیے پھر وہی اشکال پیدا ہوا کیونکہ ان کا تو اصل مقصد یہی تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس جاری وساری ہمیں دکھا دیں ۔مگر یہاں ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے۔ ان سادات یعنی سیدناموسی اور سیدناعیسی وسیدنا یحیی علیھم السلام اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تو بہت زمانے کافاصلہ موجود ہے۔ اس زمانے میں اس کا وجود وجود ہونے سے ، اس زمانے میں اس کو کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے ؟ گویا اس ماخذ سے بھی یہ خلا پر نہیں ہوسکتا (4) چوتھی بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غارِحراء والے عمل کو اس اعتکاف کے لیے جناب ماخذ مانتے ہوں ؟ مگر ہمارے نزدیک یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غارِحراء میں عبادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے کیونکہ بخاری میں سیدہ عائشہ سے ایک روایت مروی ہے جس میں بعض الفاظ یہ ہیں کہ ،، وکان یخلو بغارِحراء فیتحنث فیہ ، وھو التعبد ،( فتح الباری ج1ص 29) مگر یہ بات بھی اعتکاف کا ماخذ بننے کے لائق نہیں ہے کیونکہ اس عمل کے بواعث میں تین احتمال ہمارے نزدیک موجود ہوسکتے ہیں ۔
ایک احتمال یہ ہے کہ انہوں نے الہاما ایسا کیا ہو اور مستقبل میں نبی اور رسول ہونے والے شخص پر الہام کی ممانعت کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو جناب کی سنت والی بات پھر خراب ہوگئی ہے لہذا یہ ماننا جناب کے لیے کچھ مفید نہیں ہوتا (2) دوسرااحتمال یہ ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو اپنی پاکیزہ فطرت اورمنزہ طینت کی بنیاد پراختیار کیا ہو جیسا کہ ہم نے اس کو پہلے ثابت کیا ہے۔ اگرایسا ہو تو یہ بات بھی جناب کے لیے باعثِ تسکین نہیں ہوسکتی کہ اس عمل سے اس کو ،، سنتِ ابراہیم ،، ثابت نہیں کیا جاسکتا (3) اورتیسرا احتمال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کے عرب سے اس کو اخذ کیا ہو۔ یہ بات پہلے تو ثابت نہیں ہے ، کما صرحنا بہ مرارا فی مامضی من المباحث ، پھر اگر ہم اس بات کو بالفرض ثابت مان لیں تو پھر جناب کو یہ بتانا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قبل ازنبوت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت اور سنت کا اتباع لازم تھا ؟ جو آیت سورہِ نحل کی جناب غامدی اس سلسلے میں پیش کرتے ہیں کہ ،، ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراھیم حنیفا وماکان من المشرکین ،، ( النحل 123) تو اس کا تعلق بعدازنبوت کی زندگی سے ہےلہذا جناب کو اس بات کے لیے اور پاپڑ بیلنے پڑیں گے ۔ اس آیت سے اس موضوع میں کوئی کام نہیں چلتا ۔اس آیت پر تفصیل کے ساتھ ہم ایک اورجہت سے اگے نقد وجرح کریں گے ۔ مگر ادھر ایک چیز احباب کی نگاہ میں رہنی چاہئے کہ ،، جناب غامدی جو اصول بناتے ہیں وہ دوسروں کے خاطر ہوتے ہیں ۔خود ان کے لیے تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن ۔ اور وہ کسی اصول کے پابند نہیں ہیں ۔ایک مثال اس بات کے لیے ملاحظہ ہو کہ جناب نے درجِ بالا آیتِ سورتِ نحل(123) کو اس بات کے لیے دلیل بنایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ابراہیم علیہ السلام کے طریقے اور ملت کی پیروی فرض تھی۔ قران کے اس اوپر والی آیتِ نحل (123)میں سنت کا لفظ تو قطعی موجود نہیں ہے۔ ہم اس بات کے متعلق جناب کی عبارتیں اس سے قبل پیش کر چکے ہیں۔ اسے دوبارہ معاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس آیت میں جناب نے گھپلاکیاہے مگر کس طرح کا گھپلا ہے ؟ احباب اس کو جان کراور دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگالیں گے کہ دین کے نام پرکیا ایسے گھپلے بھی ہوتے رہتے ہیں ؟ اب اس بات کی ذرا تفصیل سن لیں ۔ جناب نے تین کام اپنے اس ،، نئے دین ،، کے مقصود کو پانے اورثابت کرنے کےلیے کیے ہیں (1) ایک کام یہ کیا ہے کہ آیتِ نحل میں وارد لفظِ،، ملت ،، کو ،، سنت ،، سے بدل دیا ہے ،، مبادئ تدبرِحدیث ،، میزان میں احباب اس کو دیکھ لیں (2) دوسرا کام یہ کیا ہے کہ پھر ،، سنت ،، کو جو اس درج آیت سے ثابت کی ہےفقط عملی امور تک محدود کیا ہے ۔ اور قران سے اس ،، سنت ،، کو یکسر خارج کردیا ہے الا یہ کہ قران ان ،، سنن ،، کی تاکید میں وارد ہو (3) تیسرا عمل یہ کیا ہے کہ پھر ان ،، سنن ،، کو صرف (26 ) اعمال تک محدود کیا ہے ،، باقی سارے اعمال جیسے زاید بر قران روایات وغیرہ سے تو ، اللہ اللہ خیر صلّا فارغ ہوگئے۔ ان تین باتوں کے حوالے سے ہم جناب کے حضور میں کچھ سوالات رکھتے ہیں (1) پہلا سوال یہ ہے کہ قران نے تو درجِ بالا آیت میں ،، ملت ،، کالفظ رکھا ہے آپ ،، سنت ،، کالفظ اس میں کہاں سے لائے ہیں ؟(2) دوسراسوال یہ ہے کہ پھر اس آیت کو صرف عملی احکام تک محدود کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ (3) تیسراسوال یہ ہے کہ پھر عمل کو ان (26) ،، سنن ،، تک محدود کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ (4) چوتھا سوال یہ ہے کہ پھر ،، سنت ،، کا ذکر قران میں بطور ،، فرضیت وسنتیت ،، کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ بطورِ تاکید ہوسکتاہے ؟ (5) پانچواں اورآخری سوال اس سلسلے میں یہ ہے کہ ،، جناب غامدی نے حافظ محب سے بلاحوالہ یہ قاعدہ نقل کیا ہے کہ ،، آحادیث سے ، قران ، کی تخصیص وتحدید ، قطعا نہیں ہوسکتی ،، جناب اوپر اس مذکور عمل سے کہ قران مجید ،، ان (26) ، سنن ، کا صرف بطورِ تاکید ذکر کر سکتا ہے بطورِ ، فرضیت اورسنتیت ، ان کا ذکر نہیں کرسکتا ہے ،، قران کی آیات کی ، تخصیص وتحدید ، ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو اس کو کوئی پاگل شخص ہی مان سکتا ہے کیونکہ قران کی مندجہ ذیل آیات مثلا ،، کتب علیکم الصیام ،، اور ،، اقیمواالصلوة وآتواالزکوة ،، اور ،، وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ،، وغیرہ کو تاکید صرف پاگل لوگ قرار دے سکتے ہیں ؟ اوراگر جناب کی اس عمل سے قرانی آیت کی نہیں بلکہ ،، آیات ،، کی تخصیص وتحدید ہوئی ہے ، اور یقینا ہوئی ہے توپھر اس کا مطلب یہی ہوا نا ں کہ جناب خود تو قران کو ،، محدود ،، بھی کرسکتے ہیں اور ،، مخصوص ،، بھی ، مگر ،، آحادیث اور وحی ،، کو اس کی اجازت نہیں ہے ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...