امام غزالی کا تصورِ کشف اور غامدی صاحب کا طریقہ واردارت

Published On November 26, 2023
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

ڈاکٹر زاہد مغل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غامدی صاحب نے تصوف کے خلاف اپنی ظاہر پرستی پر مبنی مضمون میں متفرق علماء اور صوفیاء کی الگ تھلگ عبارات کو پیش کرکے یہ منظر کشی کرنے کی کوشش کی ہے کہ “یہ سب لوگ” نبوت کے بعد نبوت کے قائل ہوگئے تھے۔ سرِدست مجھے ان سب حوالوں کا تجزیہ نہیں کرنا، میری دلچسپی کا سامان وہ حوالہ ہے جو انہوں نے امام غزالی کی کتاب المنقذ من الضلال سے لگایا ہے
غزالی کہتے ہیں
من اول الطریقۃ تبتدئ المشاھدات والمکاشفات حتٰی انھم فی یقظتھم یشاھدون الملٰئکۃ وارواح الانبیاء ویسمعون منھم اصواتاً ویقتبسون منہم فوائد.(المنقذ من الضلال۵۰)
اِس راہ کے مسافروں کو مکاشفات و مشاہدات کی نعمت ابتدا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیوں کی ارواح اور فرشتوں کا مشاہدہ کرتے ، اُن کی آوازیں سنتے اور اُن سے فائدے حاصل کرتے ہیں ۔

یہ حوالہ لگانے کے بعد پھر وہ کچھ اور لوگوں کے حوالوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مختلف لوگوں کی جزوی عبارات اکٹھی کرکے ایک مجموعی کہانی بنالیتے ہیں۔ یہ طریقہ تحقیق ہی غلط ہے، بات تب بنتی ہے جب آپ کسی معین شخص کی گفتگو اور تصورات سے بتائیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس غامدی صاحب ایک عبارت ایک شخص سے تو دوسری اور تیسری کسی دوسرے سے لیتے ہیں اور اس کے بعد پھر چوتھی سے چھٹی عبارات کسی تیسرے مصنف کی لاتے ہیں۔ ان تمام عبارات سے جو مجموعی کہانی وہ اخذ کرتے ہیں اس کی نسبت وہ ان سب مصنفین کی طرف کردیتے ہیں جبکہ انفرادی طور پر وہ کہانی بمشکل کسی ایک شخص پر پورا اترتی ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ میں پرویز صاحب اور ان جیسے دیگرمصنفین کی عبارات کے ساتھ غامدی صاحب کی چند جزوی عبارات لگا کر انہیں انہی کی طرح منکرین سنت قرار دوں۔ ظاہر ہے علم کی دنیا میں اس طریقہ تحقیق کی کوئی علمی حیثیت نہیں اور غامدی صاحب کا مضمون اسی سے عبارت ہے۔ غامدی صاحب نے “المنقذ” سے ایک عبارت کا حوالہ دیا ہے، نجانے کیوں امام غزالی کی اسی کتاب میں درج ان کی دیگر باتوں سے انہوں نے سہو نظر کیا ہے۔ آئیے ہم آپ کے سامنے چند متعلقہ عبارات رکھے دیتے ہیں

لو جُمع عقل العقلاء ، وحكمة الحكماء ، وعلمالواقفین على أسرار الشرع من العلماء ، لیغیروا شیئاً من سیرهم وأخلاقهم ، ویبدلوه بماهو خیر منه ، لم یجدوا إلیه سبیلا . فإن جمیع حركاتهم وسكناتهم ، في ظاهرهموباطنهم ، مقتبسة من ( نور ) مشكاة النبوة
یعنی اگر تمام عقلاء کی عقل،حکماء کی حکمت اور واقفین شریعت علماء کا علم اس مقصد کی خاطر جمع کردیا جائے کہ یہ (اس جماعت صوفیاء) کی سیرت اور اخلاق میں تبدیلی لاکر اسے ذرا برابر بھی بہتر کرسکیں تو اس کا کوئی امکان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان (صاحبان تصوف) کی تمام حرکات و سکنات اپنے ظاہر و باطن ہر دو میں نور نبوتﷺ سے منور ہیں

اس مقام پر فائز ہونے کا ذریعہ کیا ہے؟ ولیس وراء نور النبوة على وجه الأرض نور یستضاء به یعنی اس روئے زمین پر نور نبوت کی پیروی کے سواء کوئی ایسا راستہ نہیں جس سے ھدایت حاصل کی جاسکے

الأنبیاء علیهم السلام أطباء أمراض القلوب، وإنما فائدة العقل وتصرفهأن عرّفنا ذلك وشهد للنبوة بالتصدیق ولنفسه بالعجزعن درك ما یدرك بعین النبوة، وأخذ بأیدینا وسلمنا ( إلیها ) تسلیم العمیان إلى القائدین ، وتسلیم المرضى المتحیرین إلى الأطباء المشفقین. فإلى ههنا مجرى العقل ومخطاه وهو معزول عما بعد ذلك ، إلا عن تفهم ما یلقیه الطبیب إلیه
انبیاء امراض قلوب کے طبیب ہیں اور عقل کا کردار اس معاملے میں یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو پہچان لیتی ہے اور وہ نبوت کی تصدیق کرتی ہے اور اس چیز کے ادراک سے خود کو عاجز کہتی ہے جس کا ادراک نبوت کی آنکھ کے ذریعے ممکن ہوتاہے۔ عقل نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہم کو اس طرح نبی کے حوالے کردیا ہے جیسے اندھوں کو (سیدھے) راستے پر اور پریشان مریضکو کسی طبیب شفیق کے سپرد کیا جاتا ہے۔ پس عقل کی رسائی و پرواز صرف یہاں تک ہے، اس سے آگے وہ معزول ہوجاتی ہے بجز اس کے کہ طبیب جس چیز کی تلقین کرے اسے سمجھے (اور اس پر عمل کرے )

ولا سبیل إلیها للعقلاء ببضاعة العقل أصلا .وأما ما عدا هذا من خواص النبوة ، فإنما یدرك بالذوق، من سلوك طریق التصوف یعنی یہ جن حقائق کا ذکر کیا گیا ہے عقل کے ذریعے انہیں حاصل کئے جاسکنے کا امکان نہیں ہے، ان کے حصول کا طریقہ ذوق ہے جو صوفیاء کے طریقے پر چلنے سے میسر آتا ہے۔

چنانچہ امام غزالی تو یہ کہتے ہیں کہ صوفیاء کو کشف کے ذریعے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ رسول اللہﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر حاصل ہوتا ہے اور اس کے سواء اس کا کوئی راستہ و امکان ہی نہیں۔ یہاں یہ بات نوٹ کر رکھنی چاہئے کہ غامدی صاحب اس نور نبوت کے علاوہ خیر و شر کے امور میں انسان کی فطرت سے راھنمائی حاصل کرنے کے بھی قائل ہیں جو دراصل عام انسانوں کو نبی کے قائم مقام تشریعی حیثیت دینا ہے۔ المنقذ میں امام غزالی ان لوگوں کا بھی مذمتی انداز میں ذکر کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ھم تو اپنے مجاھدات کے سبب ایسے مقام پر فائز ہوچکے ہیں کہ اب ہمیں کسی عبادت کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اسی طرح اپنی دیگر کتب میں امام صاحب صوفیاء کی ایسی تمام شطحات کی یا تو تاویل کرتے ہیں اور یا انہیں غلط کہتے ہیں تو شرع کے خلاف ہوں۔ چنانچہ امام غزالی کے مجموعی نظام فکر میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جو یہ کہے کہ وہ کشف کو نبی کی وحی کی طرح حجت قرار دیتے ہیں نیز شرع کو معطل ٹھراتے ہیں وغیرہ۔

اب اس گفتگو کے بعد یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ کیا کشف و الہام واقعی ممکن ہیں؟ کیا نصوص میں اس کے اقرار کی گنجائش موجود ہے؟ کسی اگلی پوسٹ میں ھم دکھائیں گے کہ اس کا جواب اثبات میں ہے اور دراصل غامدی صاحب کا پورا مقدمہ ہی غلط بنیادوں پر کھڑا ہے کہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب بذریعہ کشف و الہام ہر قسم کے غیبی امور کا جان سکنا ناممکن ہوچکا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر غامدی صاحب “المنقذ” ہی کو درست طریقہ تحقیق کے تحت غور سے پڑھتے تو اس میں بھی امام صاحب نے اس موضوع پر گفتگو کررکھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…