محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر
محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط
محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...
محمد فہد حارث
محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر لوگوں نے موقع غنیمت جان کر روا رکھا ہے اور بجائے کہ غامدی صاحب کے موقف کو ٹھوس علمی حقائق کی روشنی میں غیر صائب ثابت کرتے، حُبِ علیؓ کی آڑ میں بغضِ معاویہؓ کی بدترین مثال قائم کرتے دیکھے جارہے ہیں، ہم ان زمینی حقائق کی طرف توجہ کروانا ضروری سمجھتے ہیں جو ہمارے خیال میں یہ تقابل کرتے ہوئے غامدی صاحب کے مستحصر نہ رہے ہونگے۔ تفصیل اس امر کی کچھ یوں ہے کہ:
سیدنا علیؓ کا دورِ خلافت چونکہ نامساعد حالات کے سبب اُس طرح کے تمکن فی الارض کا نمونہ پیش نہ کرسکا جس طرح کا تمکن فی الارض سیدنا علیؓ کے پیشرؤں کو حاصل تھا۔ اس سبب بعض حضرات سیدنا علی سے متعلق اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ
سیدنا علیؓ بہادر و شجیع تو تھے تاہم میدانِ حرب و سیاست کے شناور نہ تھے۔
ہمارے خیال میں یہ موقف کسی قدر محل نظر ہے جس کا ماخذ کتاب الاغانی میں مذکور سیدنا علیؓ کا خود کا قول ہے کہ
قال قریش ابن ابی طالب رجل شجاع و لکن لا علم لہ بالحرب۔
سردست اس قول کی استنادی حیثیت کی بحث اور بشرط صحت جن حالات میں سیدنا علیؓ سے یہ قول سرزد ہوا اس کی تفاصیل میں جائے بغیر ہم اس نکتے کی بابت فقط یہ عرض کریں گے کہ
سیدنا علیؓ میں سیاست و خلافت کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہونے اور ہم عصر امت کا اس پر اتفاق ہونے کی سب سے بین و پختہ دلیل یہ ہے کہ سیدنا علیؓ اس چھ رکنی کمیٹی میں شامل تھے جن کو اپنے بعد سیدنا عمرؓ سب سے زیادہ بلادِ اسلامیہ کی حکومت کرنے کا اہل سمجھتے تھے۔ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ سیدنا عمرؓ جیسا جہاندیدہ و مدبر منتظم اور کامیاب ترین خلیفہ ایک انکمپیٹنٹ یا فنِ سیاست و خلافت سے نابلد شخص کو اپنے بعد امتِ اسلامیہ کی باگ ڈور سنبھالنے کو نامزد کرجاتا جبکہ سیدنا عمرؓ تو وہ شخص تھے جو ذرا سی شخصی و انتظامی کمزوری یا اندیشہ حکمت و مصلحت پر بڑے سے بڑے گورنر و سپہ سالار کو معزول کرتے لمحے بھر کو نہ سوچتے تھے۔ مملکتِ اسلامیہ کی خلافت کے لیے سیدنا عمرؓ کی طرف سے سیدنا علی۠ کی نامزدگی ہی اس بات کو کافی ہوجاتی ہے کہ سیدنا علیؓ ہر لحاظ سے خلافت کرنے کے اہل اور ماہر تھے۔
سیدنا علیؓ کی خلافت اگر اپنے پیشرؤں جیسی مثالی و مستحکم نہ تھی تو اس کی وجہ ان کی کوئی شخصی یا انتظامی کمزوری نہ تھی بلکہ اس کی اصل وجہ وہ نامساعد حالات تھے جو سیدنا علیؓ کو درپیش تھے جبکہ ان کے پیشرؤں کو ایسے کسی مسائل سے اس طور سے سامنا نہ کرنا پڑا جیسے سیدنا علیؓ کو اپنے دور میں کرنا پڑا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ارتداد، مانعین زکوة اور جھوٹی نبوت کے دعویدار اٹھے تو سیدنا ابو بکر کی پشت پر جمیع صحابہ کی جماعت یکجٹھ ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ ہر صحابی ہر امتی کامل طور سے سیدنا ابو بکر کی خلافت کو کامیاب بنانے میں جٹ گیا۔ اور یوں سیدنا ابو بکر نے اپنے تدبر، استقلال، ہمت اور جمیع صحابہ و امت کے ساتھ کے ذریعے اسلام کی ڈوبتی کشتی پار لگادی۔
لیکن جب عنان اقتدار کی باگ ڈور سیدنا علی کے ہاتھوں میں آتی ہے تو پہلے روز سے ہی آپ کو گوناگوں مسائل کا سامنا درپیش ہوتا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ صحابہ و تابعین کا مختلف سیاسی گروہوں میں بٹ جانا تھا۔ سوچئے ابو بکر سے لے کر عثمان تک ہر خلیفہ کو کار خلافت چلانے کے لیے تمام صحابہ و تابعین کی مکمل حمایت و مدد حاصل تھی لیکن سیدنا علی کو اپنی خلافت کے پہلے روز سے ہی نامساعد حالات سے سابقہ پیش آیا جہاں ایک قابل ذکر تعداد پر مشتمل صحابہ و تابعین کا گروہ ان کی بیعت سے احتراز کرکے غیر جانبدار معتزلین کی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا گروہ جس میں سیدہ عائشہ، سیدنا طلحہ و زبیر و معاویہ و عمرو بن العاص جیسے اکابر و جید صحابہ موجود ہوتے ہیں، قصاص عثمان کے مقابلے میں آپ کے مدمقابل تصور کیے جاتے ہیں۔ یوں خلفائے ثلاثہ کی خلافتوں کی کامیابی کے پیچھے امت کے جو بہترین اشخاص موجود تھے، سیدنا علی پہلے روز سے ہی ایسے افراد کی بڑی تعداد کی نصرت و حمایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ایک لمحے کو بھی سیدنا علی کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی۔ آپ ہمہ وقت اپنے تئیں جو بہتر سمجھتے ہیں، ان لائحہ عمل کے تحت حالات کو قابو میں لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ سیدنا عمر کو اگر مصر پر عمرو بن العاص جیسے مدبر گورنر کی خدمات میسر آئی تھیں تو ان بہترین گورنروں کے مشاجرات کے باب میں اختلافات نے سیدنا علی کو محمد بن ابی بکر جیسے ناتجربہ کار شخص کو مصر پر تعینات کرنے پر مجبور کردیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نامساعد حالات کے سبب سیدنا علی کے پاس اپنے پیشرووں کے مقابلے میں سکلفل ہیومن ریسورسز کی نہایت کمی تھی لیکن اس کے باوجود وہ پوری دلجمعی اور جدوجہد سے حالات کے دھارے کو سیدھی راہ پر موڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایسے میں کوئی دوسرا شخص ہوتا تو شدید ذہنی و اعصابی دباو کے تحت اپنے حواس کھو بیٹھتا اور رد عمل کے طور پر کئی جلد باز اور غیر محتاط فیصلے کر بیٹھتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا علی کے ہاں جیسے رد عمل یا انتقام نامی کسی شے کا وجود ہی نہیں تھا۔ حالات کے پیش نظر سیدنا علی کو اصحاب جمل و صفین و نہروان سے جنگ کرنا پڑی لیکن ملاحظہ کیجئے کہ کسی ایک جنگ میں بھی سیدنا علی شکست خوردہ مخالف فوج سے انتقامی سلوک نہیں کرتے۔ بلکہ اصحاب جمل کو تو پوری عزت و احترام کے ساتھ واپس مدینہ لوٹانے کا بندوبست کرتے ہیں۔
اسی طرح سیدنا علی کی پشت پر جانبازوں کی صورت میں متلون مزاج، نافرمان، غیر منظم اور باقاعدہ فوجی تربیت کی کمی کا شکار اہل عراق تھے جو کہ وقت آنے پر اپنے امیر کی بات سے پوری سرکشی کے ساتھ روگردانی کرنے سے نہ چوکتے تھے جبکہ سیدنا معاویہ کی پشت پر حد درجہ فرمانبردار، اپنے قائد کے فرمان پر جان نثار کرنے والے اور دورِ فاروقی سے رومی افواج کے ساتھ وقتا فوقتاً میدانِ حرب میں وقت گزاری کرکے اپنی عسکری و حربی صلاحیتوں کو چمکانے والے منظم اہل حرب یعنی اہل شام تھے۔
پس ایسے میں سیدنا علیؓ کی سیاسی قابلیت کا تقابل خلفائے ثلاثہ یا سیدنا معاویہ کی سیاسی قابلیت سے کرنا اور پھر اس ضمن میں سیدنا علیؓ کو میدانِ حرب و سیاست سے نابلد باور کروانا سخت خلط مبحث اور زمینی حقائق سے نا آشنا ہونے کی صریح نشانی ہے۔ اپنے پُرفتن دور میں سیدنا علیؓ نے جس باکمال طریقے سے خلافت کی، یہ ان کا ہی خاصہ تھا جب تک کوئی دوسرا شخص ان نا مساعد حالات میں خلافت کو اس طور سے انجام دیکر نہیں دکھاتا جیسے سیدنا علیؓ نے اس کو انجام دیا، یہاں تک کہ آپ تحکیم تک پر راضی ہوگیے، تب تک یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ ایسے حالات میں سیدنا علیؓ سے بہتر طریقے سے شاید ہی کوئی اور خلافت کرسکتا ہوتا۔
پس ہمارے خیال میں سیاسی قابلیت کے ضمن میں سیدنا معاویہ و سیدنا علی کا تقابل کرتے ہوئے جناب جاوید احمد غامدی صاحب مندرجہ بالا زمینی حقائق کا لحاظ کرنے سے چوک گئے۔ تاہم اس سلسلے میں ہم مشاجرات صحابہ کے باب میں جنابِ غامدی صاحب کی مجموعی فکر کے تحت اس بدگمانی کو اتہامِ بے جا کی حد تک قبیح مانتے ہیں کہ اس طور کا تقابل کرکے محترم غامدی صاحب سیدنا علی کی تنقیص کے مرتکب ہوئے ہیں یا انہوں نے دانستہ سیدنا علیؓ کا درجہ گھٹایا ہے۔ جس شخص نے بھی سیدنا علی و معاویہ کے قضیے سے متعلق یوٹیوب پر موجود غامدی صاحب کی 20 اقساط پر مبنی مفصل سیریز “حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ ۔ اختلافات کو سمجھنے کا ایک منفرد زاویہ” بغور دیکھ سن رکھی ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ غامدی صاحب پر سیدنا علی کی تنقیص کا الزام لگانے کا سوچ بھی سکے۔ گرچہ اس سیریز میں بیان کردہ بعض تحقیقات سے مجھے شدید اختلاف بھی رہا ہے اور اس ضمن میں میں نے تحریر لکھ کر غامدی صاحب کی رائے کو غیر درست سمجھتے ہوئے بدلائل اسکا ابطال بھی کیا تھا، لیکن پورے شرح صدر سے مجھے یہ اعتراف رہا ہے کہ مشاجرات کے باب میں اس قدر نپی تلی اور محتاط لیکن نہایت مفصل گفتگو میں نے آج تک کسی روایتی عالم کی بھی نہیں سنی۔ اس خارزار راہ سے جس کسی نے بسلامت گزرنا چاہا تو یا تو اس نے انتہائی اختصار سے کام لیا اور معاملہ تشنہ چھوڑ دیا یا پھر تحریرپر انحصار کیا جبکہ غامدی صاحب نے بیس مفصل ویڈیوز میں ہر ناحیہ سے اس موضوع پر گفتگو کی اور مجال ہے کہ ایک جگہ بھی آپ نے سیدنا علی یا سیدنا معاویہ کے دامن کو داغدار ہونے دیا ہو۔
تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر ہم یہ بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ جناب غامدی صاحب کے کیے گئے سیاسی اہلیت کے تقابل کو اس تناظر اور مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے جو ہم نے سیدنا عمرؓ کے سیدنا علیؓ کو خلافت کے لیے چھ رکنی ٹیم میں شامل کرنے سے متعلق دیا تھا۔ تفصیل اس امر کی کچھ یوں ہے کہ
یاد رہے کہ سیدنا عمرؓ کی کڑی نگاہ و کرائیٹیریا پاس کرنے کا یہی استدلال جو ہم نے سیدنا علی کی سیاسی قابلیت و اہلیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے بعینہ سیدنا معاویہؓ کی سیاسی قابلیت پر بھی عین صادق آتا ہے کیونکہ پورے دورِ فاروقی میں سیدنا معاویہ وہ واحد گورنر تھے جن کے بہترین طرزِ حکمرانی اور گورننس پر اطمینان کے سبب سیدنا عمر فاروق نے ان کو اپنی عام حکومتی روش کے برخلاف ایک دفعہ بھی معزول نہیں کیا بلکہ سیدنا معاویہ کی انتظامی صلاحیت سے متاثر ہوکر ان کے زیرِ نگیں مزید علاقے دمشق، بعلبک اور بلقاء دیتے چلے گئے، یہاں تک کہ سیدنا عمرو بن العاص کی امارت سے اردن و فلسطین اور سیدنا سعید بن عامر بن حذیمؓ کی ولایت سے حمص لیکر ان بلاد کو بھی سیدنا معاویہ کے زیرِ امارت کردیا اور بقول امام خلیفہ بن خیاط بعد ازاں سیدنا معاویہ کو پورے ملک شام کا تنہا عامل مقرر کردیا۔
یوں دورِ فاروقی کے تمام گورنروں پر سیدنا معاویہ کو یک گونہ سیاسی فضیلت و فوقیت حاصل ہوجاتی ہے جبکہ دیگر عمال فاروقی جیسے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح، سیدنا عمار بن یاسر، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا ابو موسیٰ اشعری، اپنے شخصی فضائل میں سیدنا معاویہ سے کہیں بڑھ کر تھے لیکن باوجود اس کے سیدنا عمرؓ ان اصحاب کو معزول کرتے رہے اور سیدنا معاویہ کو آخری وقت تک نہ صرف ان کے عہدے پر برقرار رکھا بلکہ ان کے زیرِ نگین علاقوں میں اضافہ بھی کرتے گئے۔
پس دیکھا جائے تو جس رائے کا اظہار جناب جاوید احمد غامدی نے اپنے قول سے کیا ہے، سیدنا عمر فاروق آج سے چودہ سو سال قبل اس رائے کا اظہار اپنے عملی اقدام سے کرچکے تھے۔ ایسے میں اگر کوئی منچلہ چاہے تو سیدنا عمرؓ پر بھی سیدنا معاویہ کے مقابلے میں عشرہ مبشرہ، بدری و حدیبی صحابہ کی توہین و تنقیص کا الزام لگا کر ان کو ناص بی باور کروادے کیونکہ درحقیقت ہم حُبِّ علی میں اہل تشیع کے نعل بالنعل نقال ہیں جہاں سیدنا علی بہرحال ہر تقابل سے ماوراء ہیں، یہاں تک کہ شیخین کے مقابلے میں سیدنا علی کی شخصی افضلیت، جو تفضیلیت کی جڑ ہے، تک کو بعض اہلسنت کھلم کھلا سند جواز فراہم کرنے کی سعی ناتمام کرتے ہیں لیکن اس سعی مذموم میں کسی بینا کو تنقیص شیخین نظر نہیں اتی جیسے انہیں داناؤں کو سیدنا معاویہ سے سیاسی تقابل میں سیدنا علی کی تنقیص نظر آجاتی ہے جبکہ تقابل کرنے والا (جنابِ غامدی) صراحت سے سیدنا علی کو شخصی فضائل کی بنیاد پر سیدنا معاویہ سے افضل قرار دے رہا ہوتا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم...