ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...
غلامی : پہلے، اب اور آئندہ
غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...
فکرِ فراہی کا سقم
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...
نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام
احمد الیاس نائین الیون کے بعد امریکہ نے کئی مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر 'ماڈریٹ اسلام' کے پروجیکٹس شروع کیے۔ برنارڈ لوئیس، جان ایسپسیٹو جیسے مستشرقین اور 'اسلام ایکسپرٹس' کی رہنمائی بھی اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کو حاصل تھی۔ پاکستان میں بھی مشرف رجیم کی معاونت...
اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اس”فتویٰ“ میں سورۃ الانفال کی آیت 72 سے کیا گیا استدلال بالکل ہی غلط ہے۔ پہلے یہ آیت پوری پڑھ لیجیے (اس آیت کا اور نیچے دی گئی تمام آیات کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے):۔إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ...
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر عموماًً مذہبی مسائل پر بحث چلتی ہے۔ بعض لوگ ایسے موقع کو مذہب پر اعتراض کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ایک مرغوب موضوع غلامی ہے اور یہ عموماً مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی غلامی کی بات کرتے ہیں یا مستقبل کے متعلق پیشین گوئی کرتے ہیں جب مفروضہ طور پر مسلمان کسی وقت اس پوزیشن پر آجائیں گے کہ وہ پھر سے لوگوں کو غلام بناسکیں گے۔ لمحۂ موجود میں غلامی کی بات یا تو ہوتی نہیں، یا ہوتی ہے تو صرف ایک مخصوص گروہ کی جس نے بہت ہی محدود پیمانے پر اس کا ارتکاب کیا، حالانکہ یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ اس مخصوص گروہ کو سوا ارب مسلمانوں کا نمائندہ کیسے مانا جاسکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ مستقبل میں غلامی کی پیشین گوئیاں کرنے والوں میں غامدی صاحب کا حلقۂ اثر بھی شامل ہوتا ہے حالانکہ غامدی صاحب کے نزدیک مسلمانوں کے عالمی سیاسی غلبے کا مفروضہ ہی غلط ہے کیونکہ ان کے خیال میں نہ تو امام مہدی نے آنا ہے، نہ ہی سیدنا مسیح نے۔ ماضی کے لوگوں کو ماضی کا جواب دینے دیں، مستقبل کے لوگ اپنا جواب دے لیں گے، ہم لمحۂ موجود کی بات کیوں نہ کریں اور یہ کیوں نہ دیکھیں کہ اس وقت غلامی کی کتنی شکلیں رائج ہیں اور ان میں کتنوں کےلیے ہم ذمہ دار ہیں؟
غلامی کے موضوع پر پچھلی ڈیڑھ صدی میں لکھے گئے لٹریچر کی عمومی خصوصیت یہ ہے کہ ’غلامی‘ کو ایک جامد اور عالمی طور پر متفق علیہ یکساں تصور فرض کرلیا جاتا ہے حالانکہ مختلف ادوار میں، مختلف معاشروں میں، مختلف نظامہاے قوانین میں، غلامی کا عنوان مختلف نوعیت کی جکڑبندیوں کو دیا گیا ہے۔ اس انتہائی وسیع سپیکٹرم میں موجود مختلف شیڈز کو ’غلامی‘ کا ایک عنوان دے کر نہ صرف تنوع کی نفی کی جاتی ہے بلکہ بہت ہی زیادہ سادہ فکری اور سطحیت کی بنیاد پر انتہائی قطعی لہجے میں دو ٹوک موقف اپنایا جاتا ہے۔ مثلاً رومی قانون میں غلام اور اسلامی قانون میں غلام کا تصور یکساں نہیں تھا۔ رومی قانون میں غلام کو ’شخص‘ کے بجاے ’مال‘ پراپرٹی قرار دیا جاتا تھا۔ ’شخصیت‘ کی نفی کا قانونی اثر یہ تھا کہ گائے، بھینس، زمین، لکڑی یا کسی بھی دوسری چیز کی طرح، جسے مال مانا جاتا تھا، غلام کے کوئی قانونی حقوق نہیں ہوتے تھے۔ اس کے برعکس اسلامی قانون میں غلام کو محض مال نہیں مانا جاتا تھا بلکہ اس کی الگ قانونی شخصیت بھی ہوتی تھی اور اس وجہ سے غلام کے کچھ حقوق ایسے تسلیم کیے گئے جن پر آقا کا اختیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں اور شریعت کے دیے گئے حقوق کو چھیننے کا اختیار آقا کے پاس ، بلکہ ریاست کے پاس بھی ، نہیں تھا۔
اسلامی قانون کے بعد کی دنیا میں غلامی کی جو مختلف شکلیں دنیا میں رائج رہی ہیں وہ بنیادی طور پر انھی دو قسموں میں تقسیم ہیں: غلام بطور مال یا غلام بطور قانونی شخص اور مال۔ اس دوسری قسم کے پھر مختلف مدارج ہیں: کسی میں قانونی حقوق زیادہ ہیں اور کسی میں کم۔ یہ دو قسمیں آج بھی رائج ہیں ۔ کیا بعض انسانوں کےلیے قانونی شخصیت کا انکار آج بھی ہورہا ہے یا نہیں؟ کیا بہت سے ممالک نے بارہا بہت سارے لوگوں کو حقوقِ شہریت سے محروم نہیں کیا ؟ روہنگیا اور بہار میں ہی دیکھ لیجیے۔ حقوقِ شہریت سے محروم شخص ، جو کسی بھی ریاست کا شہری نہ ہو، کے قانونی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ بین الاقوامی قانون کی رو سے انسانی حقوق کےلیے مطالبہ ریاست سے کیا جاتا ہے۔ جب ایسا شخص کسی ریاست کا شہری ہی نہیں ہے تو اس کے حقوق کا مطالبہ کن سے کیا جائے؟ اس کی حیثیت قانونی طور پر اس غلام سے کیسے مختلف ہے جس کےلیے قانونی شخصیت تسلیم کی گئی ؟
دوسری مثال گوانتانامو کے قیدیوں کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے مانا جاتا تھا کہ جنگ میں آپ کے مخالف فریق یا تو مقاتل ہیں اور یا غیر مقاتل اور پھر دونوں قسموں کےلیے قانونی حقوق و فرائض متعین تھے۔ امریکا نے کہا کہ یہ لوگ نہ مقاتل ہیں، نہ ہی غیر مقاتل اور اس وجہ سے بین الاقوامی قانون میں موجود دونوں قسموں کے قانونی نحقوق سے محروم ہیں۔ مزید انھوں نے ان کو امریکا سے باہر گوانتانامو کے جزیرے میں رکھا کہ امریکی قانون کی پہنچ سے بھی دور رہیں۔ سوال یہ ہے کہ گوانتانامو میں موجود قیدیوں کو کس بنیاد پر غلاموں سے مختلف گروہ مانا جائے؟ گوانتانامو تو محض ایک مثال ہے۔ برطانیہ کی بل مارش جیل ہو، عراق کی ابوغریب جیل ہویا افغانستان کی بگرام جیل ہو ، اس نوعیت کی غلاموں کی فیکٹریاں تقریباً ہر ریاست نے بنا رکھی ہیں۔ مقدار اور معیار کا فرق ضرور ہوگا لیکن نوع ایک ہی ہے۔ پھر ’کارپوریٹ غلامی‘ پر بھی غور کریں، جو اس وقت غلامی کی بدترین شکل ہے۔
ان سب سے آگے بڑھ کر ریاست کی غلامی تو اس وقت بھی بین الاقوامی قانون کا رکنِ رکین ہے۔ریاست میں جو کچھ ہے اور جو کوئی بھی ہے، وہ ریاست کی ملکیت ہےاور ریاست کے ساتھ غیرمشروط وفاداری اس کا ناقابل تنسیخ فریضہ ہے۔ ریاست آپ کی نہیں ہے، بلکہ آپ ریاست کے ہیں۔ جبری خدمت کا قانون ہی دیکھ لیجیے ۔ ریاست کیسے سب کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کرسکتی ہے؟ جبری تعلیم بھی دیکھیے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، آپ کے بچے کو تعلیم دیں گے اور اسے وہ کچھ پڑھائیں گے جو ہم چاہیں گے۔ جبری ویکسینیشن کو ہی دیکھیے۔ اس جبر میں اور غلامی میں درجے کا فرق ہے، نہ کہ نوع کا، لیکن یہی فرق تو غلامی کی دیگر شکلوں میں بھی ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ غلامی کی بہت سی شکلوں کو لمحۂ موجود میں بھی بین الاقوامی قانونی نظام نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سوال ہی غلط ہے کہ کل کو اگر مسلمان عالمی سیاسی غلبہ حاصل کرلیں گے تو وہ غلامی کو کیسے رائج کرسکیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں نے غلامی کو ہمیشہ تسلیم کیا ہے اور آئندہ بھی تسلیم کرتے رہیں گے۔ ہاں، مغربی سیاسی نظام کی منافقت یہ ہے کہ ’غلامی‘ کے عنوان پر پابندی لگادی ہے خواہ غلامی کی کئی نئی بدترین شکلیں انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اسی نظام نے رائج کی ہوں۔
شریعت نے آزاد انسان کو غلام بنانے کی تمام صورتیں ناجائز کردیں، سواے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے۔ اس آخری صورت کے متعلق بھی امام محمد بن حسن شیبانی نے، جنھیں اسلامی بین الاقوامی قانون کا بانی کہا جاتا ہے، تصریح کی ہے کہ جنگ کے فریقین آپس میں معاہدہ کرسکتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کو غلام نہیں بنائیں گے اور جب تک ایسا معاہدہ برقرار ہے، اس کی پابندی مسلمانوں پر لازم ہوگی۔ شریعت نے غلاموں کی آزادی کے بہت سارے طریقے بھی دیے اور غلاموں کےلیے ایسے حقوق بھی متعین کیے جو ان کے آقاؤں کے اختیار سے باہر تھے۔ یہ حقوق موجودہ دور کے غلاموں کے لیے مان لیے جائیں، تو انھیں بھی آزادی مل سکتی ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب...
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات...
نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام
احمد الیاس نائین الیون کے بعد امریکہ نے کئی مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے...