تصورِ جہاد ( قسط اول)

Published On February 18, 2025
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

شعیب احمد

غامدی تصورِ جہاد

کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ “عمار خان کا نیا اسلام میں با قاعدہ شائع ہوا تھا۔ چونکہ دیگر مسائل و افکار کی طرح اس مسئلے میں بھی عمار خان صاحب نے غامدی صاحب کی شارحا نہ تقلید کی ہے، اس لیے وہ مضمون دراصل غامدی صاحب ہی کے نظریہ جہاد کا نقد شمار کیا جانا چا ہے۔ زیر نظر تحریر ہی مضمون کی ترتیب جدید و تخصیص ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے بادل نخواستہ طویل لیکن ضروری و مفید عبارات حذف کرنا پڑی ہیں اور انداز بیان میں بعض ناگزیر تبدیلیاں ضروری سمجھی  گئی ہیں ۔ اگر کہیں تشنگی محسوس ہو تو اصل مضمون سے مراجعت فرمائی جائے ۔ ( شعیب احمد )

مقدمہ:۔

جہاد اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے، قرآن وسنت میں اس کا صریح حکم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جہاد کیا، صحابہ نے کیا اور پھر امت کرتی رہی، لیکن چونکہ کفار کے لیے یہ علما و عملاً تکلیف وہ چیز تھی، اس لیے انہوں نے اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات میں ہمیشہ اسے سرفہرست رکھا۔ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے یا اسلام ایک سخت مذہب ہے اس جیسے اعتراضات انہیں نفسیات کی ترجمانی تھی۔ یہ اعتراضات اگر چہ طویل عرصے سے چلے آتے تھے لیکن مغرب کے سیاسی و فکری غلبے اور امت مسلمہ کی مغلوبیت و مرغوبیت کے بعد ان کی شدت میں فطری طور سے بھر پور اضافہ ہوا۔

جب مغرب کے دیے ہوئے فکری واخلاقی اصولوں کے مطابق مذہب کا سوال انسان کی بنیادی بلکہ ہر طرح کی ترجیحات سے نکل گیا اور مذہب کا صحیح تصور اور اس سے پختہ وابستگی کوتنگ نظری اور دقیانوسیت سمجھا جانے لگا۔ اور پھر مغلوب مسلمانوں میں سے مرعوب اذہان ( بالفاظ دیگر متجددین) نے ان اصولوں کو شعوری ولا شعوری طور پر اپنا لیا تو انہیں بھی اسلام کے دامن میں جہاد کا حکم اچنبھا اور اوپرا لگنے لگا۔ دماغوں پر یہ دھن سوار ہوئی کہ کاش اسلام کے دامن سے اس داغ کو کسی طریقے سے ختم کر کے مغرب کی نظر میں اس کا امیج درست کر دیا جائے ۔ اس غرض سے رنگا رنگ افکار و نظریات سامنے آئے۔ کسی نے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا کسی نے جہاد اقدامی کا انکار کر دیا اور یہ کہا کہ اسلام میں صرف دفاعی جہاد ہے، یعنی از خود کسی کافرقوم پر حملہ نہ کیا جائے بلکہ اگر وہ کریں تو صرف اپنے ( پیشگی یا فوری ) دفاع میں تلوار اٹھائی جائے کسی نے دعوت اسلام کی آزادی کی صورت میں اس کی مشروعیت کی نفی کی ، اور کسی نے یہ نکتہ نکالا کہ جہاد کا تصور اس وقت درست تھا جب دنیا میں بادشاہت و شہنشاہیت  ہوتی تھی، اب جبکہ دنیا میں جمہوریت اور افراد و اقوام کی آزادی و خود مختاری تسلیم کرلی گئی ہے، اب جہاد کے سابقہ تصور کا کوئی جواز نہیں بنتا، وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلے میں کی جانے والی تمام مساعی کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جہاد کا نام تو قرآن وسنت سے نکالنے سے رہے، البتہ اس کے اندر سے وہ بات نکال دی جائے جو اہل مغرب کو کھٹکتی ہے۔ مغرب ان کی توجیہات سے مطمئن ہوا یا نہیں لیکن خود اسلام میں غلط تو جیہات و تاویلات بلکہ تحریفات کے دروازے کھل گئے۔

غامدی صاحب کا نظریہ جہاد:۔

ان میں سے ایک نرالی توجیہ اور انوکھا نظر یہ جاوید احمد غامدی صاحب کا ہے۔ غامدی صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ جہاد کی ، اقدامی یا دفاعی کے نام سے کوئی تقسیم نہیں ہے، بلکہ ایک اور پہلو سے یعنی جہاد کی غرض وغایت کے اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں: ایک محض اعلائے کلمۃ اللہ اور غلبہ دین کے لیے جس کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر کافروں کے ملک میں جاکر ( بالکل اسی طرح جس طرح صحابہ نے روم و فارس کی سرحدوں پر کھڑے ہو کر کہا )یہ کہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ دو ورنہ قتال کے لیے تیار ہو جاؤ!  اور دوسری قسم یہ ہے کسی جگہ کے مسلمان باشندوں پر کفار کی طرف سے دین پر یا مال و جان یا عزت و آبرو پر ہونے والے ظلم کو ختم کرنے کے لیے ان ظالم کفار کے خلاف کسی مسلمان ریاست کی طرف سے با قاعدہ قتال کیا جائے۔ غامدی صاحب اس بات کے پرزور داعی ہیں کہ ان میں سے پہلی صحابہ کے  ساتھ خاص تھی اور ان کے بعدسے خود بخود ختم ہو گئی ہے، جبکہ دوسری ہمیشہ   کے لئے باقی ہے ۔

موصوف اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں :۔

اس جہاد کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لئے آیا ہے ۔ 1 ۔ ظلم ، عدوان کے خلاف 2۔ اتمامِ حجت کے بعد منکرین ِ حق کے خلاف

پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اس کے تحت جہاد اسی مصلحت سے کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کے قانون اتمام حجت سے ہے، جو اس دنیا میں ہمیشہ اس کے براہ راست حکم  سے ادرانہی ہستیوں کے ذریعے روبعمل ہوتا ہے، جنہیں وہ ر سالت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ یہ (یعنی رسول اللہ ﷺ کا جزیرۃ العرب میں اور صحابہ کا فارس دروم کے خلاف قتال ) محض قتال نہ تھا بلکہ ا للہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام (قیصر و کسری) پر نازل کیا گیا۔ یہ لاریب انہی کا حق تھا جن کے ذریعے اللہ کی حجت ان اقوام پر قائم ہوئی اور جنہیں خود اللہ اور اس کے رسول نے شہداء اللہ فی الارض قرار دیا۔ لہذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جز یہ عائد کر کے انہیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح قوم کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔

مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جاسکتی ۔”

(میزان – بحوالہ الشریعہ : ۳۰۴)

اور فتنہ و ظلم کے خلاف جہاد کے دائمی ہونے کی تصریح یوں کرتے ہیں:۔

فتنہ کے خلاف جنگ کا یہ حکم قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی بیان ہوا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دوسروں کو بالجبر ان کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی روایت اب بڑی حد تک دنیا سے ختم ہو چکی ہے۔ لیکن انسان جب تک انسان ہے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب اور کسی صورت میں پھر زندہ ہو جائے ۔ اس لیے (یعنی گو یا صرف اس احتمال کی بنیاد پر۔ ناقل ) قرآن کا یہ حکم قیامت تک باقی ہے۔ اللہ کی زمین پر اس طرح کا کوئی فتنہ جب سر اٹھائے مسلمانوں کی حکومت اگر اتنی قوت رکھتی ہو کہ وہ اس کا استعمال کر سکے تو اس پر یہ لازم ہے کہ مظلوموں کی مدد کے لیے اللہ کی اس راہ میں جنگ کا اعلان کر دے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کی یہ ہدایت ابدی ہے اسے دنیا کا کوئی قانون بھی ختم نہیں کر سکتا ۔ (میزان: ۲۶۲)

اور غامدی صاحب کا یہ فلسفہ ان کے مایہ ناز شاگر جناب عمار خان صاحب کے الفاظ میں یہ ہے:۔

قرآن وسنت کی نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے پیر واہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد و قتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا۔ (۱) ۔ اہل کفر کے فتنہ و فساد اور اہل ایمان پر ان کے ظلم وعددان کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ (۲)۔ اور دوسرے کفر و شرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سر بلندی قائم کرنے کے لیئے ۔ ( جہاد ۔ ایک مطالعہ: ۱۱۱) رسول اور اس کے پیروکاروں کا یہ غلبہ پوری دنیا کی قوموں پر نہیں بلکہ ان مخاطبین پر ہوتا ہے جن پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے سزا نا فذ کرنے کا اذن مل جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت نبی ﷺ اور آپ کے متبعین نے جو جہاد کیا وہ غلبہ دین کے اس وعدے کی تشکیل کے لیے اور انہی اقوام تک محدود تھا جن کے خلاف اقدام کی اجازت اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی تھی اور جن کی تعیین نبی ﷺ نے ان کے سربرا ہوں کو خطوط لکھ کر کر دی تھی۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کے صدر راول میں نبی ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کے ہاتھوں جزیرہ عرب اور روم و فارس کی سلطنتوں پر دین حق کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد غلبہ دین کے لیے جہاد و قتال کے حکم کی مدت نفاذ خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ یہ شریعت کا کوئی ابدی اور آفاقی حکم نہیں تھا اور نہ اس کا ہدف پوری دنیا پر تلوار کے سائے میں دین کا غلبہ اور حاکمیت قائم کرنا تھا۔ اس کے بعد قیامت تک کے لیے جہاد و قتال کا اقدام دین کے معاملے میں عدم اکراہ اور غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ سے گریز کے ان عمومی اور اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا جو قرآن مجید کی نصوص میں مذکور ہیں ۔ ( جہاد۔ ایک مطالعہ : ۳۰۲)

جمہور امت کا صحیح نظریہ جہاد:۔

جبکہ اس کے برعکس امت کا اجتماعی ضمیر جس کی نمائندگی فقہائے کرام کرتے ہیں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ظلم وعدوان کے خلاف تو جہاد ہے ہی ، اس پر تو کسی کافر کو بھی اختلاف واعتراض نہیں ، اس کے علاوہ محض کفر کے خلاف بھی جہاد ایک مقدس فریضہ خداوندی ہے جو اشخاص و افراد یا کسی زمان و مکان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جس طرح زمانہ رسالت اور صحابہ کے لیے تھا بالکل اسی طرح قیامت تک باقی ہے۔ تمام متقدمین و متاخرین فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ امام المسلمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ دار الحرب پر حملے کے لیے تیاری رکھے اور مناسب حالات و ماحول میں کفار کے علاقوں پر دین اسلام کی سربلندی اور غلبے کے لیے از خود ابتداء حملہ آور ہو۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔

فقہاء کرام کا یہ بھی نظریہ ہے کہ مسلمان اور کا فرممالک کے باہمی تعلقات کی بنیاد اصلاً صلح پر نہیں بلکہ جنگ اور عداوت پر ہے، اس لیے امام المسلمین کفار سے عارضی صلح تو کر سکتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کے مفاد میں ہو، مستقل جنگ بندی کرنے کا اسے حق حاصل نہیں ۔ کفار چاہے اپنے بلاد میں اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہوں اور مسلمانوں سے کوئی تعرض نہ بھی کریں تب بھی مسلمان ان سے تعرض کریں گے اور انہیں دین حق اور سنت عادلہ کی دعوت دینے اور اسے نہ ماننے کی صورت میں مطبع و سرنگوں بنانے کے پابند ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف خاتم النبیین ہیں اور دوسری طرف آپ کی نبوت عالمی اور روئے زمین پر رہنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اور انسانیت کے تمام طبقات آپ کے لائے ہوئے پیغام کے محتاج ہیں ۔ اس پیغام کو پہنچانے کے لیے ارباب ثروت و شوکت اور اصحاب حکومت واقتدار کی کھڑی کی ہوئی ہر طرح کی حسی اور معنوی رکاوٹوں کوختم کرنا نا گزیر ہوتا ہے اور یہ سب دین حق کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتا ہے، اس لیے جہاد کی ہر زمانے اور خطے میں ضرورت رہتی ہے۔ اس بات پر فقہاء کی دوٹوک تصریحات تو بے شمار ہیں اور اصل مضمون میں چیدہ چیدہ حوالے موجود بھی ہیں، لیکن یہاں اختصار کے پیش نظر صرف ایک حوالہ پیش کرتے ہیں اور وہ بھی ایسے عالم کا جو صرف فقیہ ہی نہیں بلکہ اسلامی لٹریچر پر وسیع نظر رکھنے والے مفکر و مجد د بھی ہیں یعنی مسند الہند شاہ ولی اللہ ۔ حضرت اپنی مشہور کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں رقم طراز ہیں :۔

نبی علیہ السلام کو ( زمان و مکان کی تخصیص کے بغیر قیامت تک کے لئے اور پوری زمین کے لیے ) عمومی اور کلی خلافت سے نواز کر مبعوث کیا گیا ہے، اور آپ کے دین کا باقی ادیان پر غلبہ جہاد اور اس کے اسباب کی تیاری ہی کے ذریعے ممکن ہے ۔ چنانچہ اگر مسلمان جہاد کو چھوڑ دیں گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ لیں گے (یعنی کھیتی باڑی میں اور دوسرے کا روباری مشاغل میں لگے رہیں گے ) تو ذلت انہیں گھیر لے گی اور خسارہ ونقصان ان پر غالب آجائے گا۔”۔

دوسری جگہ روئے زمین پر بسنے والی تمام انسانیت کے لیے ایک عالمگیر دین کی ضرورت اور اس کے قائم کرنے والے راہنما کے تحت لکھتے ہیں:

ایسے عالمگیر راہنما کے لیے ضروری ہے کہ وہ (اپنے مذہب کی بنیاد رکھنے کے لیے ) کسی قوم کو سنت را شده ( صحیح طریقے) کی دعوت دے، ان کا تزکیہ کرے، ان کی حالت سنوارے اور پھر انہیں اپنے اعضاء (یعنی آلہ کار ) بنا کر ان کے واسطے سے زمین والوں سے مجاہدہ کرے ( یعنی جہاد اور دعوت دین کی محنت کرے ) اور اس قوم کو زمین کے اطراف واکناف میں پھیلا دے۔ یہی مطلب ہے خدا تعالی کے اس قول کنتم خير ا   مة کا۔ (اس قوم کی تربیت اور ان سے دعوت اور جہاد کا کام لینے کی ضرورت ) اس وجہ سے ہے کہ خودا کیلے امام راشد ( رسول اللہ ﷺ کے لیے ( دنیا کی ) کی لاتعداد اقوام سے لڑائی اور دعوت دین کی محنت ممکن نہیں ۔

امر واقعہ بھی یوں ہی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جماعت تیار کی جو دنیا میں پھیل گئی اور ( بغیر کسی تحدید و تخصیص کے ) جہاں تک اس کا بس چلا سنت را شدہ کی ترویج اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے دعوت و قتال کا فریضہ سرانجام دیتی رہی۔ اور پھر انہوں اپنے ساتھ مخصوص نہیں سمجھا بلکہ اگلے طبقے کو نقل کیا۔ چنانچہ ان کے تیار کردہ لوگ آگے سے آگے اسی طریقے سے چلتے رہے اور اسی نہج پر دعوت حق اور مخالفین و معاندین سے قتال کرتے رہے اور دئے سے دیا  جلتا رہا، اس بات کو شاہ صاحب نے یوں ذکر کیا ہے:

یہ (یعنی جہاد کا صدقہ جاریہ ہوتا ) اس وجہ سے ہے کہ (جہاد کی بدولت ) مہاجرین وانصار کے اولین لوگ قریش اور آس پاس کے ( حرب کے) لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کا باعث بنے۔ پھر اللہ رب العزت نے ان کے ہاتھوں عراق اور شام کو فتح کرایا پھر ان کے ہاتھوں فارس اور روم کو فتح کروایا۔ پھر ان لوگوں کے ہاتھوں ہندوستان ، ترکستان اور حبشہ کو فتح کروایا ۔ اس طریقے سے جہاد پر مرتب ہونے والا نفع لمحہ بہ لمحہ یو مافیو ما  بڑھتا چلا جاتا ہے۔” (حجۃ اللہ : ج ۲: ۴۳۸)

جمہور امت کے اس نظریہ جہاد کو غامدی صاحب کے شاگر عمار خان صاحب تسلیم کرتے ہوئے اپنےمخصوص انداز میں یوں لکھتے ہیں :۔

کا سیکی فقہی ذخیرے میں جہاد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک فرع قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خدا کی طرف دعوت دینے، کفر و شرک سے اجتناب کی تلقین کرنے اور ان کے تزکیہ و اصلاح کے لیے انبیاء کا جو سلسلہ جاری فرمایا، کفار کے ساتھ جہاد بھی اسی کی ایک کڑی اور دعوت الی الحق کی ایک صورت ہے۔ اور امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی کا فرقوموں کو اسلام کی دعوت دے اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تو ان کے خلاف جہاد کر کےنہیں اپنا غلام بنائے ۔ ( جہاد : ۱۱۰)

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…