ناقد : کاشف علی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے جزئیات پر بات نہیں ہو سکتی ۔ دین کی دو تعبیرات ہیں ۔ ایک تعبیر کے مطابق اسلام سیاسی سسٹم دیتا ہے ۔...
اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ
منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد
ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن اول ۔ یہ کہنا کہ جمعہ کا منبر علماء سے واپس لے لینا چائیے کیونکہ اسلامی تاریخی میں جمعہ کے منبر کا علماء کے...
جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔...
عورت کی امامت اور غامدی صاحب
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں...
مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار...
واقعہ معراج اور غامدی صاحب
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن جسمانی معراج کے انکار پر غامدی صاحب کا استدلال " وما جعلنا الرؤیا التی" کے لفظ رویا سے ہے ۔حالانکہ یہاں...
اِس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں۔ اِس کے مقابل میں اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ اِس کو ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں دلائل کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کر دیا جائے تو سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اِس کی تفصیلات کے لیے تو ہماری اِس کتاب ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، لیکن اِس کا جو حصہ اسلام اور ریاست سے متعلق ہے، اُس کا ایک خلاصہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں:
۱۔ اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اُسی کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، اُس کے مخاطب بھی درحقیقت وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں۔ لہٰذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اُس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اِس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اِسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، اُنھوں نے اِس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور اُن میں بسنے والے غیر مسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت (protected minority) کی ہے اور ریاست کے اصل مالکوں سے وہ اگر کسی حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں تو اِسی حیثیت سے کر سکتے ہیں۔
۲۔ جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی ایک ریاست ہاے متحدہ قائم کر لیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہو سکتا ہے اور ہم اِس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کر سکتے ہیں، لیکن اِس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اِس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔ پہلی صدی ہجری کے بعد ہی، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہا اُن کے درمیان موجود تھے، اُن کی دو سلطنتیں، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام سے قائم ہو چکی تھیں اور کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر اُن میں سے کسی نے اِسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا، اِس لیے کہ اِس معاملے میں سرے سے کوئی حکم قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں ہے۔ اِس کے برخلاف یہ بات سب نے کہی اور ہم بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر کسی جگہ قائم ہو جائے تو اُس سے خروج ایک بدترین جرم ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُس کے مرتکبین جاہلیت کی موت مریں گے۔*
۳۔ اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے، جس طرح کے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا اُنھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘** (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ وہ دسیوں اقوام، ممالک اور ریاستوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اِس لیے یہ تقاضا تو اُن سے کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، اُن کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں اُن کے کام آئیں، وہ مظلوم ہوں تو اُن کی مدد کریں، معاشی اور معاشرتی روابط کے لیے اُن کو ترجیح دیں اور اُن پر اپنے دروازے کسی حال میں بند نہ کریں، مگر یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہو کر لازماً ایک ہی قوم اور ایک ہی ریاست بن جائیں۔ وہ جس طرح اپنی الگ الگ قومی ریاستیں قائم کر سکتے ہیں، اُسی طرح دین و شریعت پر عمل کی آزادی ہو تو غیر مسلم ریاستوں میں شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم بن کر بھی رہ سکتے ہیں۔ اِن میں سے کوئی چیز قرآن و حدیث کی رو سے ناجائز نہیں ہے۔
۴۔ دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کرلیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، اُن کے اِس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے، اُسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اُس کے حاملین چونکہ قرآن وحدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِس طرح کے عقائد و اعمال کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طرح ہوں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے عقائد و نظریات میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔
۵۔ شرک، کفر اور ارتداد یقیناًسنگین جرائم ہیں، لیکن اِن کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا کا حق ہے۔ قیامت میں بھی اِن کی سزا وہی دے گا اور دنیا میں بھی، اگر کبھی چاہے تو وہی دیتا ہے۔ قیامت کا معاملہ اِس وقت موضوع بحث نہیں ہے۔ دنیامیں اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں اپنی عدالت کے ظہور کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو اُس کی طرف اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ یہ رسول اُس قوم پر اتمام حجت کرتا ہے، یہاں تک کہ کسی کے پاس خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد خدا کا فیصلہ صادر ہوتا ہے اور جو لوگ اِس طرح اتمام حجت کے بعد بھی کفر و شرک پر اصرار کریں، اُنھیں اِسی دنیا میں سزا دی جاتی ہے۔ یہ ایک سنت الٰہی ہے جسے قرآن نے اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آ جاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘ *** اِس کی نوعیت بالکل وہی ہے جو اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی اور واقعۂ خضر میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اِس کا عام انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم جس طرح کسی غریب کی مدد کے لیے اُس کی اجازت کے بغیر اُس کی کشتی میں شگاف نہیں ڈال سکتے، کسی بچے کو والدین کا نافرمان دیکھ کر اُس کو قتل نہیں کر سکتے، اپنے کسی خواب کی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنے بیٹے کے گلے پر چھری نہیں رکھ سکتے، اُسی طرح کسی شخص کو اُس کے شرک، کفر یا ارتداد کی سزا بھی نہیں دے سکتے، الاّ یہ کہ وحی آئے اور خدا اپنے کسی رسول کے ذریعے سے براہ راست اِس کا حکم دے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔
۶۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جہاد اسلام کا حکم ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ اُن کے پاس طاقت ہو تو وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کریں۔ قرآن میں اِس کی ہدایت اصلاً فتنہ کے استیصال کے لیے کی گئی ہے۔ اِس کے معنی کسی شخص کو ظلم و جبر کے ساتھ اُس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کے ہیں۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں ’persecution‘ کہا جاتا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ حکم اُن کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحیثیت جماعت دیا گیا ہے۔ اِس کی جو آیتیں قرآن میں آئی ہیں، وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اُن کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا اِس معاملے میں کسی اقدام کا حق بھی اُن کے نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ اُن کے اندر کا کوئی فرد یا گروہ ہرگز یہ حق نہیں رکھتا کہ اُن کی طرف سے اِس طرح کے کسی اقدام کا فیصلہ کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ مسلمانوں کا حکمران اُن کی سپر ہے، جنگ اُسی کے پیچھے رہ کر کی جاتی ہے۔****
۷۔ اسلام جس جہاد کا حکم دیتا ہے، وہ خدا کی راہ میں جنگ ہے، اِس لیے اخلاقی حدود سے بے پروا ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ اخلاقیات ہر حال میں اور ہر چیز پر مقدم ہیں اور جنگ و جدال کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے اُن سے انحراف کی اجازت کسی شخص کو نہیں دی۔ چنانچہ یہ بالکل قطعی ہے کہ جہاد صرف مقاتلین (combatants) سے کیا جاتا ہے۔ اسلام کا قانون یہی ہے کہ اگر کوئی زبان سے حملہ کرے گا تو اُس کا جواب زبان سے دیا جائے گا، لڑنے والوں کی مالی مدد کرے گا تو اُس کو مدد سے روکا جائے گا، لیکن جب تک وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنے کے لیے نہیں نکلتا، اُس کی جان نہیں لی جا سکتی۔ یہاں تک کہ عین میدان جنگ میں بھی وہ اگر ہتھیار پھینک دے تو اُسے قیدی بنایاجا ئے گا، اُس کے بعد اُسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن میں جہاد کا حکم جس آیت میں دیا گیا ہے، اُس کے الفاظ ہی یہ ہیں کہ ’’اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں اور اِس میں کوئی زیادتی نہ کرو، اِس لیے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ ***** نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوران میں عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ ****** اِس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اگر جنگ کرنے والوں کے ساتھ نکلے بھی ہوں تو بالعموم مقاتل نہیں ہوتے، زیادہ سے زیادہ لڑنے والوں کا حوصلہ بڑھا سکتے اور زبان سے اُنھیں لڑنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
۸۔ دور حاضر کے مغربی مفکرین سے صدیوں پہلے قرآن نے اعلان کیا تھا کہ ’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘،******* (مسلمانوں کا نظم اجتماعی اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہو گا)۔ اِس کے صاف معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی حکومت اُن کے مشورے سے قائم ہو گی۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے گا۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے۔ جو کچھ مشورے سے بنے گا، وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکے گا۔ جس چیز کو وجود میں لانے کے لیے مشورہ کیا جائے گا، ہر شخص کی راے اُس کے وجود کا حصہ بنے گی۔ اجماع و اتفاق سے فیصلہ نہ ہو سکے تو فصل نزاعات کے لیے اکثریت کی راے قبول کر لی جائے گی۔
یہی جمہوریت ہے۔ چنانچہ آمریت کسی خاندان کی ہو یا کسی طبقے، گروہ یا قومی ادارے کی، کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جاسکتی، یہاں تک کہ نظم اجتماعی سے متعلق دینی احکام کی تعبیر و تشریح کے لیے دینی علوم کے ماہرین کی بھی نہیں۔ وہ یہ حق یقیناًرکھتے ہیں کہ اپنی تشریحات پیش کریں اور اپنی آرا کا اظہار کریں، مگر اُن کے موقف کو لوگوں کے لیے واجب الاطاعت قانون کی حیثیت اُسی وقت حاصل ہو گی، جب عوام کے منتخب نمایندوں کی اکثریت اُسے قبول کر لے گی۔ جدید ریاست میں پارلیمان کا ادارہ اسی مقصد سے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاست کے نظام میں آخری فیصلہ اُسی کا ہے اور اُسی کا ہونا چاہیے۔ لوگوں کا حق ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں پر تنقید کریں اور اُن کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتے رہیں، لیکن اُن کی خلاف ورزی اور اُن سے بغاوت کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ علما ہوں یا ریاست کی عدلیہ، پارلیمان سے کوئی بالاتر نہیں ہو سکتا۔ ’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘ کا اصول ہر فرد اور ادارے کو پابند کرتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں سے اختلاف کے باوجود وہ عملاً اُس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔
اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اُس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے۔ اِس سے ہٹ کر جو حکومت بھی قائم کی جائے گی، وہ ایک ناجائز حکومت ہو گی، خواہ اُس کے سربراہ کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں یا اُسے امیرالمومنین کے لقب سے نواز دیا جائے۔
۹۔ مسلمانوں کی حکومت اگر کسی جگہ قائم ہو تو اُس سے بالعموم نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ تعبیر مغالطہ انگیز ہے، اِس لیے کہ اِس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے، دراں حالیکہ قرآن و حدیث میں یہ حق کسی حکومت کے لیے بھی ثابت نہیں ہے۔ اسلامی شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں: ایک، جو فرد کو بحیثیت فرد دیے گئے ہیں اور دوسرے، جو مسلمانوں کے معاشرے کو دیے گئے ہیں۔ پہلی قسم کے احکام کا معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور وہ اُس میں کسی حکومت کے سامنے نہیں، بلکہ اپنے پروردگار ہی کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہٰذا دنیا کی کوئی حکومت اُسے، مثال کے طور پر، روزہ رکھنے یا حج و عمرہ کے لیے جانے یا ختنہ کرانے یا مونچھیں پست رکھنے اور وہ اگر عورت ہے تو سینہ ڈھانپنے، زیب و زینت کی نمایش نہ کرنے یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ اِس طرح کے معاملات میں تعلیم و تربیت اور تلقین و نصیحت سے آگے اُس کے کوئی اختیارات نہیں ہیں، الاّ یہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان، مال، آبرو کے خلاف زیادتی کا اندیشہ ہو۔ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ دین کے ایجابی احکام میں سے یہ صرف نماز اور زکوٰۃ ہے جس کا مطالبہ مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی، اگر چاہے تو قانون کی طاقت سے کر سکتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس کے بعد وہ پابند ہے کہ اُن کی راہ چھوڑ دے اور کوئی چیز اُن پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ******** رہے دوسری قسم کے احکام تو وہ درحقیقت دیے ہی حکومت کو گئے ہیں، اِس لیے کہ اجتماعی معاملات میں وہی معاشرے کی نمایندگی کرتی ہے۔ علما ارباب حل و عقد سے اُن پر عمل کا مطالبہ کریں تو یقیناًحق بجانب ہوں گے اور اپنے منصب کے لحاظ سے اُن کو کرنا بھی چاہیے۔ مگر یہ شریعت پر عمل کی دعوت ہے، نفاذ شریعت کی تعبیر اِس کے لیے بھی موزوں قرار نہیں دی جا سکتی۔
یہ دوسری قسم کے احکام درج ذیل ہیں:
ا۔ مسلمان اپنے حکمرانوں کی رعایا نہیں، بلکہ برابر کے شہری ہوں گے۔ قانون اور ریاست کی سطح پر اُن کے بڑے اور چھوٹے اور شریف اور وضیع کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ اُن کے جان و مال اور آبرو کو حرمت حاصل ہو گی، یہاں تک کہ حکومت اُن کی رضامندی کے بغیر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی اُن پر عائد نہیں کر سکے گی۔ اُن کے شخصی معاملات، یعنی نکاح، طلاق، تقسیم وراثت، لین دین اور اِس نوعیت کے دوسرے امور میں اگر کوئی نزاع اُن کے درمیان پیدا ہو جائے گی تو اُس کا فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہو گا۔ روز و شب کی نمازوں، ماہ رمضان کے روزوں اور حج و عمرہ کے لیے اُنھیں تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اُن پر عدل و انصاف کے ساتھ اور ’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘ کے طریقے پر حکومت کی جائے گی۔ اُن کے قومی املا ک اجتماعی ضرورتوں کے لیے خاص رہیں گے، اُنھیں نجی ملکیت میں نہیں دیا جائے گا، بلکہ اِس طرح نشوونما دی جائے گی کہ جو لوگ معیشت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں، اُن کی ضرورتیں بھی اِن املاک کی آمدنی سے پوری ہوتی رہیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہوں گے تو اُن کی تجہیز و تکفین مسلمانوں کے طریقے پر ہو گی، اُن کا جنازہ پڑھا جائے گا اور اُنھیں مسلمانوں کے قبرستان میں اور اُن کے طریقے پر دفن کیا جائے گا۔
ب۔ نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی۔ یہ نمازیں صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائیں گی جو حکومت کی طرف سے اُن کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے۔ اِن کا منبر حکمرانوں کے لیے خاص ہو گا۔ وہ خود اِن نمازوں کا خطبہ دیں گے اور اِن کی امامت کریں گے یا اُن کی طرف سے اُن کا کوئی نمایندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کے حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر اِن نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔
ج۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اصلًا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے ہوں گے۔ چنانچہ معاشرے کے صالح ترین افراد اِن اداروں کے لیے کارکنوں کی حیثیت سے منتخب کیے جائیں گے۔ وہ لوگوں کو بھلائی کی تلقین کریں گے اور اُن سب چیزوں سے روکیں گے جنھیں انسان ہمیشہ سے برائی سمجھتا رہا ہے۔ تاہم قانون کی طاقت اُسی وقت استعمال کریں گے، جب کوئی شخص کسی کی حق تلفی کرے گا یا اُس کی جان، مال یا آبرو کے خلاف کسی اقدام کے درپے ہوگا۔
د۔ حکومت اپنے دشمنوں کے معاملے میں بھی قائم بالقسط رہے گی۔ حق کہے گی،حق کی گواہی دے گی اور حق و انصاف سے ہٹ کر کبھی کوئی اقدام نہیں کرے گی۔
ہ۔ ریاست کے اندر یا باہر اگر کسی سے کوئی معاہدہ ہوا ہے تو جب تک معاہدہ باقی ہے، لفظ اور معنی، دونوں کے اعتبار سے اُس کی پابندی پوری دیانت اور پورے اخلاص کے ساتھ کی جائے گی۔
و۔ قتل اور فساد فی الارض کے سوا موت کی سزا کسی جرم میں بھی نہیں دی جائے گی۔ نیز ریاست کا کوئی مسلمان شہری اگر زنا، چوری، قتل، فساد فی الارض اور قذف کا ارتکاب کرے گا اور عدالت مطمئن ہو جائے گی کہ اپنے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے تو اُس پر وہ سزائیں نافذ کی جائیں گی جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دعوت کو پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ قبول کر لینے کے بعد اِن جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اپنی کتاب میں مقرر کر دی ہیں۔
ز۔ اسلام کی دعوت کو اقصاے عالم تک پہنچانے کے لیے حکومت کی سطح پر اہتمام کیا جائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اگر اِس میں رکاوٹ پیدا کرے گی یا ایمان لانے والوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنائے گی تو حکومت اپنی استطاعت کے مطابق اِس رکاوٹ کو دور کرنے اور اِس تشدد کو روکنے کی کوشش کرے گی، اگرچہ اِس کے لیے تلوار اٹھانی پڑے۔*********
۱۰۔ نظم اجتماعی سے متعلق یہ شریعت کے احکام ہیں اور اِس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔ ********** تاہم مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اگر اِس کے باوجود اِس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے یا سرکشی اختیار کر لیتے ہیں تو علما و مصلحین کی ذمہ داری اِس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اُنھیں دنیا اور آخرت میں اِس کے نتائج سے خبردار کریں۔ اُنھیں حکمت کے ساتھ اور موعظۂ حسنہ کے اسلوب میں صحیح رویہ اختیار کرنے کی دعوت دیں، اُن کے سوالات کا سامنا کریں، اُن کے اشکالات دور کریں اور دلائل کے ساتھ اُنھیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کیوں دی ہے؟ اجتماعی زندگی کے ساتھ اُس کا کیا تعلق ہے؟ اُس میں احکام کی بنیاد کیا ہے اور دورحاضر کا انسان اُس کو سمجھنے میں دقت کیوں محسوس کرتا ہے؟ اُس کی تفہیم و تبیین کے لیے ایسے اسالیب اختیار کریں جن سے اُس کی حکمت، معنویت اور اُس کے مقاصد اُن پر واضح ہوں اور اُن کے دل و دماغ پورے اطمینان کے ساتھ اُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ قرآن میں اُن کا منصب دعوت و انذار بتایا گیا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اُس کے ارباب حل و عقد کے لیے داروغہ نہیں بنائے گئے کہ اپنے پیروکاروں کے جتھے منظم کر کے بندوق کے زور پر اُنھیں شریعت کا پابند بنانے کی کوشش کریں۔
[۲۰۱۴ء]________
* بخاری، رقم ۷۰۵۳۔ ۷۰۵۴۔
** الحجرٰت ۴۹: ۱۰۔
*** یونس ۱۰: ۴۷۔
**** بخاری، رقم ۲۹۵۷۔
***** البقرہ ۲: ۱۹۰۔
****** بخاری، رقم ۳۰۱۵۔ مسلم، رقم ۱۷۴۴۔
******* الشوریٰ ۴۲: ۳۸۔
******** التوبہ ۹: ۵۔
********* اسلام کے مآخذ میں اِن احکام کے دلائل کے لیے دیکھیے، ہماری کتاب ’’میزان‘‘۔
********** المائدہ ۵: ۴۴۔۴۷۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
Supremacy of the Parliament
Supremacy of the Parliament [Written in response to criticisms of "Islam...
Islam and Nationality
Islam and Nationality [Written in response to criticisms of "Islam and...
Caliphate
Caliphate [Written in response to criticisms of "Islam and the State: A...