ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 46)
خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت
ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...
غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...
غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...
فکرِ فراہی کا سقم
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...

مولانا واصل واسطی
جناب غامدی انہی مذکورہ مردوں اورعورتوں کے متعلق آگے لکھتے ہیں کہ ،، اس لیے ان میں سے جو اپنے حالات کے لحاظ سے نرمی کی مستحق ہیں ، انہیں زنا کے جرم میں سورہِ نور کی آیت (2) کے تحت سوکوڑے اور معاشرے کو ان کے شروفساد سے بچانے کےلیے ان کی اوباشی کی پاداش میں سورہِ مائدہ کی (33) کے تحت نفی ، یعنی جلاوطنی کی سزادی جائے ، اسی طرح جن کے ساتھ کوئی نرمی برتنا ممکن نہیں ہے وہ اس آیت کے حکم ان یقتّلوا کے تحت رجم کردی جائیں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی قران کے مدعا میں ہرگزکوئی تبدیلی نہیں کرتا ( میزان ص 40) ہم اس درج عبارت کے حوالے سے دو باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے جس کی ہم نے پہلے بھی کچھ وضاحت کی ہے کہ ،، فعلِ زنا ،، اپنی ذاتی حیثیت میں گناہ اور قبیح فعل تو ضرور ہے جیساکہ قران وحدیث میں اس کی شناعت کا بیان اور اس کی سزامذکور ہے مگر عام حالات میں اس کو ،، محاربہِ اللہ ورسول ،، قرارنہیں دیاجاسکتا ۔ان لوگوں نے اس پر ،، محاربہ اللہ ورسول ،، کی تعریف منطبق کرنے کے لیے مختلف مقالات وکتابوں میں مختلف باتوں کا اضافہ کیا ہے۔ ہمارے لیے ان سب کا ایک ایک کرکے اس کا تجزیہ کرنا ناممکن ہے ۔گذارش دوبارہ یہ ہے کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو ،، عربی ادب اورلغت ،، کے شناورکہتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں ان سے یہ ثابت کرکے دکھائیں کہ فعلِ زنا ،، محاربہ ،، ہے ۔قران وسنت کے نصوص میں سینکڑوں جگہ زنا کا ذکر ہوا ہے مگر کہیں بھی اس کے لیے ،، محاربہِ اللہ ورسول ،، کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔اوراگر کوئی بر خود غلط شخص سورہِ مائدہ کی ان آیات سے اس بات پر استدلال کرتا ہے تو یہ عین مصادرہ علی المطلوب ہے جو منطق سے مالامال اور معقول لوگوں کا قطعا شیوہ نہیں ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی کا خود ساختہ تصورِ دین بھی عجیب ہے ۔معقول آدمی اسے پڑھ کر انگشت بدندان رہ جاتاہے کہ ، این چہ بوالعجبی است ۔ احباب ادھر صرف ایک بات نوٹ کرلیں باقی باتیں اپنے اپنے محل میں آجائیں گی ان شاءاللہ تعالی ۔ قران وسنت نے نماز ، زکوة ، روزہ ، حج ، سب کو جیسا کہ معلوم ہےفرض قراردیا ہے ۔اسی طرح عورتوں کے لیے پردہ وحجاب کرنے ( یہاں اس کے حدود سے بحث نہیں ہے کہ اس میں کون کون سے اندام اوراعضاء داخل ہیں ) اورمردوں سے اختلاط رکھنے اورمشترک مجالس سے انہیں بچنے کا حکم فرمایا ہے جیساکہ ،، قل للمؤمنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ،، اور پھر فرمایا ھے کہ ،، ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ،، اورپھر سلبی طور پر بھی انہیں یہی بات فرمائی ہے کہ ،، ولایبدین زینتھن الا ۔۔۔۔۔ ،، اور ،، ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن ،، وغیرہ ، ان آحکام سے معلوم ہوجاتا ہے کہ عورتوں کا باہر معاشرے میں بے پردہ ہو کرنکلنا وغیرہ ، یا پھر مخلوط مجالس میں مردوں کے ساتھ منہمک ہوجانا ان کے لیے شرعا درست نہیں ہے ۔اسی طرح قران مجید نے نظامِ حکومت کی شرائط کا بھی سورہِ شوری ، اورسورہِ حج وغیرہ میں بیان فرمایاہے جس کی پوری تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے لیکن فقط ایک جزیہ سن لیں کہ سورہِ حج میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ،، الذین ان مکناھم اقامواالصلوة وآتوالزکوة وامروابالمعروف ونھواعن المنکر وللہ عاقبة الامور ( الحج 31) اب محققین کے نزدیک جو بھی حکومت مثبت اورایجابی قانون بناتی ہے تو وہ اس ،، امربالمعروف ،، کی تفصیل ہوگی اور جو بھی وہ سزا اور زجر وغیرہ کے لیے قانون بنائے گی تو وہ اس ،، نھی عن المنکر ،، کی تفصیل ہوگی۔ گویا اسلامی حکومت کے ایجابی اورسلبی قوانین کے ماخذ یہی دو جملے ہیں ۔ اب جناب غامدی ،، نھی عن المنکر ،، کی تعمیم کی حد تک عام علما کرام متفق سے ہیں اس لیے سزاؤں کے مقرومعترف ہیں جیساکہ اوپر ان کی عبارت میں درج ہے مگر مثبت قوانین میں وہ صرف نماز ، و زکوة کی حد تک ،، امر بالمعروف ،، کی تعمیم کے قائل ہیں یہاں پر جناب غامدی بعض لوگوں کی طرح بالکل ( جاوید کے بجائے ) ،، جامد ،، ہوگئے ہیں ۔باقی احکام چاہے وہ فرض و واجب ہی کیوں نہ ہوں مگر ان کے لیے حکومت کوئی قانون نہیں بنا سکتی ۔ جیسے روزہ اورحج ہیں ۔ اب حکومت کا ان احکام پربزورعمل کرانا جناب غامدی کی نگاہ میں شرعی حدود سے تجاوز ہے جو قطعا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح پردہ وحجاب پر زبردستی عمل کرانا یا عورتوں کو بذریعہِ قانون مردوں کے اختلاط سے محفوظ اور دور رکھنا ان کے نزدیک غیرشرعی کام ہے ۔ہاں عورتیں خود ان احکام پر عمل کریں توان پر کوئی قدغن نہیں ہے ۔ یہ باتیں جناب غامدی نے دو تین جگہ لکھی ہیں ،، دینی فرایض ،، نامی عنوان کے تحت بھی لکھی ہیں ، اور ،، شہریت اور اس کے حقوق ،، کے عنوان کے تحت بھی لکھی ہیں ۔چونکہ اس دوسرے مقام کی عبارت ذرامختصرہے اس لیے ہم اسے نقل کرتے ہیں ۔ سورہِ توبہ کی آیت ،، فان تابوا واقاموالصلوة وآتوالزکوة فاخوانکم فی الدین ( توبہ 11، 5 ) اور بخاری ومسلم کی ایک حدیث ،، امرت ان اقاتل الناس حتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،، نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ،، یہ حکم مشرکینِ عرب کےلیے تھا لیکن صاف واضح ہے کہ جن پرخدا کے رسول کی طرف سے اتمامِ حجت کیاگیا جب ان سے براہِ راست خدا اور رسول کی حکومت میں کوئی مطالبہ اس سے زیادہ نہیں کیاگیا تو بعد کے لوگوں سے بدرجہِ اولی نہیں کیا جاسکتا ۔ چناچہ شہریت کے حقوق وفرایض سے متعلق جوبنیادی اصول قران کی ان آیتوں سے متعین ہوتے ہیں وہ یہ ہیں (اول) یہ کہ جولوگ یہ تین شرطیں پوری کردیں اس سے قطع نظر کہ اللہ کے نزدیک ان کی حیثیت کیاہے ، قانون وسیاست کے لحاظ سے وہ مسلمان قرار پائیں گےاورتمام حقوق انہیں حاصل ہوجائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کی ریاست میں ان کو حاصل ہونے چاہئیں ( میزان ص 489) اس سے اگے پھرابوبکر جصاص کی وہ عبارت نقل کرنے کے بعد جو اصلا مولانا مودودی نے نقل کی ہے ، لکھتے ہیں کہ ،، اس سے واضح ہے کہ ریاست اپنے مسلمان شہریوں کو کسی جرم کے ارتکاب سے روک سکتی اور اس پر سزادے سکتی ہے مگر دین کے ایجابی تقاضوں میں سے نماز اور زکوة کے علاوہ کسی چیز کو بھی قانون کی طاقت سے لوگوں پرنافذ نہیں کرسکتی ۔وہ مثال کے طور پر ، انہیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی ۔ ان میں سے کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوجانے کے باوجود کہ وہ صاحبِ استطاعت ہے ، اسے حج جانے پر مجبور نہیں کرسکتی ( میزان ص 490) تو جب منصوص فرائض جیسے حج اور روزہ وغیرہ کے لیے بھی جناب غامدی کے تصورِدین میں حکومت کسی کو مجبور نہیں کر سکتی ، وہ حجاب کو عورتوں پر لازم کرنے اوران کو اختلاط سے دور رکھنے کےلیے قانون بنانے کی بدرجہِ اولی اجازت نہیں دے سکتے ۔ تو اس بحث کا حاصل یہ ہوا کہ ، زیب وزینت کی نمائش جاری رہے ، مخلوط مجالس پرباندی نہ ہو ، مگر سزا ئیں نافذ ہونی چاہیں ۔ ایک طرف آگ میں لکڑیاں بھی عورتیں ڈالیں اوردوسری طرف تم اس پر پانی بھی ڈالتے رہو تاکہ تاقیامت یہ سلسلہ رکنے نہ پائے۔ یہ کیاتصورِدین ہے ؟ حالانکہ دنیا کے عقلاء پہلے اسباب کا ازالہ کرتے ہیں ؟ اگر زناباالجبر ہو تو پھر سنگ ساری بھی ہوسکتی ہے ؟ یہ کیا تصورِ دین ہے ؟کوئی معقول شخص اسے قبول کرسکتا ہے؟ اورپھر ایک نھی عن المنکرہے جس کی تعمیم تو سزاؤں تک متعدی ہو مگر ،، امربالمعروف ،، صرف نماز وزکوة میں سزا تک متعدی ہو۔ دین کے باقی ایجابی مطالبوں میں وہ صرف تبلیغ ودعوت تک محدود ہو ؟ یہ کیا تصورِ دین ہے ؟ حالانکہ ہرمعقول آدمی جانتا ہے کہ سزاؤں سے سلبی طور پرانہی احکام کی پابندی مطلوب ہے جو ایجابی طوردین میں بیان ہوئی ہے ، عقلی طورپر تو ایجابی پہلو پرزور دینا چاہئے مگر جناب غامدی کے ہاں سب کچھ الٹ اوربالعکس موجود ہیں ۔مریض کو دوادینے پر سختی کو حرام قرار دیتے ہیں مگر پرہیز نہ کرنے پر اسے جوتے مارنے لگ جاتے ہیں ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید...
غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے...
فکرِ فراہی کا سقم
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ...