غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 45)

Published On March 13, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

اس کے بعد جناب غامدی نے حدیث ،، لایرث المسلم الکافر ولاالکافرالمسلم ،، کے متعلق اپنے خیالات پیش کیے ہیں مگر ہم نے اس پرپہلے لکھا ہے  اس لیےاگے بڑھتے ہیں   اور دوسرے مسئلے کاجائزہ لیتے ہیں ۔ اس دوسرے مسئلے کے بارے میں جناب لکھتے ہیں کہ ،،  سورتِ مائدہ کی آیات 33 ، 34 میں اللہ تعالی نے ،، فساد فی الارض ،، کے مجرموں کی یہ سزابیان کی ہے کہ انہیں بدترین طریقے سے قتل بھی کیا جاسکتا ہے ، سولی بھی دی جاسکتی ہے ، ان کے ہاتھ پاؤں  بے ترتیب کاٹے بھی جاسکتے ہیں اورانہیں جلاوطن بھی کیا جاسکتا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کا اطلاق اپنے زمانے کی قحبہ عورتوں پر کیا اور فرمایا ،، خذوا عنی خذواعنی خذواعنی ، فقد جعل اللہ لھن سبیلا ، البکربالبکر جلد ماة ونفی سنة والثیب بالثیب جلدماة والرجم ( ترجمہ )  مجھ سے لو ، مجھ سے لو ، مجھ سے لو ، اللہ نے ان عورتوں کے لیے راہ نکال دی ہے ، اس طرح کے مجرموں میں کنوارے کنواریوں کے ساتھ ہونگے اور انہیں سوکوڑے اورجلاوطنی کی سزادی جائے گی ۔ اسی طرح شادی شدہ مردوعورت بھی سزا کے لحاظ سے ساتھ ساتھ ہونگے ، اورانھیں سوکوڑے اورسنگ ساری کی سزادی جائے گی ۔ آپ کا منشا یہ تھا   کہ یہ عورتیں چونکہ محض زناہی کے مجرم نہیں ہیں   بلکہ اس کے ساتھ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنالینے کی وجہ سے فساد فی الارض کے مجرم بھی ہیں ( میزان ص 39)  اس عبارت میں جناب غامدی نے ،، خوب مرچ ومصالحہ ،، لگا کر احباب کے سامنے پیش کی ہے ، پہلے تو ،، قحبہ عورتوں ،، کا لفظ ساتھ لگا دیا ہے   تاکہ لوگوں کے تصور میں یہ بات ڈالی جاسکے کہ یہ ،، حدیث شریف  ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ،، کسبی ، اور  کھنکھار کر مردوں کو بلانے والی اور پیشہ کرنے والی زناکار عورتوں ،، کے متعلق فرمائی ہے ۔ حالانکہ اس مذکورہ بالا ،، حدیث ،، میں اس طرح کی کوئی بات موجود نہیں ہے ۔ یہ حدیث مسلم کی ،، باب حد الزنا ،، میں سیدناعبادہ بن الصامت سے مختلف اسناد کے ساتھ مروی ہے ۔ ان آحادیث کے بعض الفاظ میں کچھ تاخیر وتقدیم تو ضرور موجود ہے   مگر جناب کے اس دعوی کے لیے کہ یہ بیان ،، کسبی اور قحبہ عورتوں ،، سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کوئی اشارہ تک ان میں موجود نہیں ہے ۔ یہ بات صرف ہم نہیں کر رہے  بلکہ جناب غامدی نے خود دبے لفظوں میں اس بات کا اقرارکیا ہے  کہ یہ حدیث ،، قحبہ اور کسبی عورتوں ،، سے متعلق نہیں ہے۔ رجم کے حوالے سے انہوں نے جومضمون اپنی کتاب میں لکھا ہے   اس مضمون میں اس  ،، حدیث ،، پر چند بچگانہ اعتراضات تو وارد کیے ہیں مگر یہ بات بالکل نہیں لکھی ہے کہ یہ حدیث  ،، قحبہ عورتوں ،، کے متعلق ہے۔، ورنہ اگر وہ اس ،، حدیث ،، کو ان عورتوں سے متعلق جانتے ہوتے یا مانتے  تو پھر ان بچگانہ اعتراضات کی کیا وقعت و ضرورت رہ جاتی ؟ جیسا کہ اب انہوں نے اس ،، حدیث  ،،  کی تشریح میں یہ بات اضافہ کردی ہے تو پھر اس ،، حدیث ،، پر ان اعتراضات میں سے کوئی اعتراض وارد نہیں کیا ہے  کیونکہ ان کے خیال میں انہیں اب ،، حدیث ،، کا وہ محل مل گیا ہے جس سے وہ قران مجید کے بالکل مطابق نظر آتی ہے ۔اب احباب وہ اعتراضات ملاحظہ فرمالیں جو جناب نے اس مضمون میں لکھے ہیں کہ ،، ان میں سے پہلی روایت ( جوسیدنا عبادہ کی یہی اوپر درج حدیث ہے ) کودیکھیے تو معلوم ہوتا ہے  کہ بدکاری کی سزامیں زانی اور زانیہ کے شادی شدہ اور غیرشادی شدہ ہونے کا الگ الگ اعتبار نہیں ہوگا   بلکہ تازیانے اورجلاوطنی کی سزا صرف اس صورت میں دی جائے گی   جب زانی اور زانیہ دونوں کنوارے ہوں اورتازیانے اور رجم کی سزابھی اس صورت میں نافذ ہوگی   جب دونوں شادی شدہ ہوں ۔ اسی طرح یہ بات بھی اس روایت سے معلوم ہوتی ہے   کہ کنوارے زانیوں کو رجم کی سزادینے سے پہلے سوکوڑے بھی لازما مارے جائیں گے  ( برھان ص 60)  اگے کچھ اور روایات بھی نقل کرتے ہیں پھر اس کے بعد ان سب روایات کے متعلق ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں ،،  یہ ہیں وہ روایتیں اور مقدمات جن کی بنیاد پر ہمارے فقہا قران مجید کے حکم میں تغیر کرتے اور زنا کے مجرموں کے لیے ان کے محض شادی شدہ ہونے کی بنا پر رجم کی سزا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس سارے مواد پر جو تبصرہ ہم نےکیا ہے ، ،اس روشنی میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس کا جائزہ لیجئے ۔ اس سے زیادہ کوئی بات اگر معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاءراشدین نے زنا کے بعض مجرموں کورجم اورجلاوطنی کی سزابھی دی ہے   لیکن کس قسم کےمجرموں کے لیے یہ سزا ہے ؟ اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خلفاء راشدین نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزادی ہے ؟ اس سوال کے جواب میں کوئی حتمی بات ان مقدمات اوران روایات کی بنیاد پر نہیں کہی جاسکتی ( برھان ص 88)  احباب نے دیکھ لیا ہے کہ جناب کل تک کیا کہتے تھے ؟ اور آج کیا کہتے ہیں ؟ کل تک ان آحادیث سے ان مجرموں کی جرم کی نوعیت کا علم ہی نہیں رہاتھا  مگر آج وہ دلائلِ قطعیہ بن گئے ؟ ممکن ہے کچھ  دوست کہیں جناب کو اپنی بات یاد نہ رہی ہو گی ۔مگر ہم کہتے ہیں انہیں بہت خوب یاد ہے کہ برھان میں انہوں نے کیا کچھ لکھا ہے ، اسی لیے تو اب ،، میزان ،، کے اس مبحث میں سیدنا عبادہ کی اس حدیث پر یہ حاشیہ چڑھایا ہے کہ ،، روایت میں اس کے ساتھ سوکوڑے کی سزا کا ذکر بھی ہوا ہے  لیکن یہ محض قانون کی وضاحت کےلیے ہے۔ موت کے ساتھ کوئی دوسری سزااگرہو تواسے قانون ، فیصلے ، یاحکم میں بیان کیا جاتاہے ، لیکن عملا کبھی نافذ نہیں کیا جاتا ،، ( میزان ص 40) کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کاضمیر

 سیدنا عبادہ بن الصامت کی اس ،، حدیث ،، کو نقل کرنے کے بعد جناب نے اس میں مزید ،، مرچ ومصالحہ ،، کا اضافہ کیا ہے۔ جس کو ہم بعد میں نقل کریں گے ۔ مگر پہلے یہ بات جان لینے کی ہے   کہ سورتِ مائدہ کی آیات 33 ، 34 ، کا تعلق قائم حکومت کے خلاف ایسے کام کرنے والے لوگوں سے ہے جن کو کم ازکم ،، محاربہِ  اللہ ورسول ،، سے تعبیر کیاجاسکتا ہو ۔ اس  ،،  یحاربون اللہ ورسولہ ،، والی آیت کو عام انفرادی گناہوں سے جوڑنے کی کوئی تک نہیں بنتی ہے ۔ آحادیث کی کتابوں میں بھی یہی کچھ درج ہے ۔ امام بخاری نے کتاب المغازی اور کتاب التفسیر میں اس واقعہ کو بیان کیاہے ، حافظ الدنیا حافظ ابن حجر نے اس آیت کے متعلق لکھا ہے کہ ،، وفسرہ الجمھور ھنا بالذی یقطع الطریق علی الناس مسلما او کافرا ( فتح الباری ج 8 ص 348)  یعنی جمہور نے اس آیت کی یہاں قطاع الطریق سے تفسیر کی ہے  ،، قطع الطریق ،، کوئی انفرادی معاملہ  بالعموم نہیں ہوتا  بلکہ یہ جتھابند لوگوں کا کام ہوتاہے   ورنہ درحقیقت یہ آیت ،،عرنیین ،، کے بارے میں وارد ہے جیساکہ بخاری کی کتاب التفسیر میں موجود ہے ۔بخاری کی روایت چونکہ کتاب المغازی میں تفصیل سے موجود ہے لہذااسے ملاحظہ فرمالیں ،، عن قتادة ان انسا رضی اللہ عنہ حدثھم ان ناسا من عکل وعرینة قدموا المدینة علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم  وتکلموابالاسلام فقالوا یانبی اللہ انا کنا اھل ضرع ولم نکن اھلِ ریف ، واستوخمواالمدینة ، فامرلھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذود وراع ، وامرھم ان یخرجوا فیہ فیشربوا من البانھا وابوالھا فانطلقوا ، حتی اذاکانوا ناحیة الحرة کفروا بعد اسلامھم ، وقتلوا راعی النبی علیہ السلام واستاقواالذود فبلغ النبی علیہ السلام فبعث الطلب فی آثارھم فامربھم فسمروا اعینھم وقطعوا ایدیھم وترکوا فی ناحیة الحرة حتی ماتوا علی حالھم ( فتح الباری ج 7 ص 586) اس حدیث کے الفاظ سے بھی وہی مفہوم مترشح ہوتاہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ یہ آیت جتھابند مجرموں سے متعلق ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ عرینہ اورعکل کے ان مجرموں کو وہ بدترین سزائیں دی گئی تھی جن کا قران کے الفاظ میں ذکر موجود ہے جیسے ،،  ان یقتّلوا ،، اوتقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف ،، وغیرہ ۔جناب غامدی کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہے   اسی لیے تو انھوں نے ،، حدیثِ عبادہ ابن الصامت ،، کی تشریح میں لکھا ہے کہ ،، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کامنشا یہ تھا کہ یہ عورتیں چونکہ محض زنا ہی کے مجرم نہیں ہیں   بلکہ اس کے ساتھ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنالینے کی وجہ سے فساد فی الارض کی مجرم بھی ہیں  ( میزان ص 39) اس عبارت سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگئی ہے  کہ ان عورتوں کا ایک جتھا تھا ۔حالانکہ ایسی کوئی  بات اس مذکور ،، حدیث ،، میں موجود نہیں ہے   مگر چونکہ جناب کے ذہن میں قران کی اس آیت کے متعلق یہ تصور موجود تھا  لہذا ان عورتوں کے متعلق بھی انہوں نے اس کو ،، ایجاد ،، کرلیا ہے ۔ پھر یہ کہنا کہ یہ ،، عورتیں صرف زنا ہی کی مجرم نہیں تھی بلکہ ۔۔۔۔۔۔ ،، سارا کا سارا افسانہ ہے   جو صرف اس لیے ،، ایجاد ،، کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اپنے خود ساختہ فلسفہ پرمطمئن کرلیں ۔ ہم نے ان آیات کے بارے میں جوبات کی ہے وہی بات اس دور کے مفسرین نے بھی اپنے اپنے الفاظ میں لکھی ہے۔ محض ایک کی عبارت ملاحظہ ہو ۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں ،، زمین سے مراد یہاں وہ ملک وعلاقہ ہے جس میں امن وانتظام کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو ، اورخدا ورسول سے لڑنے کا مطلب اس نظامِ صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے   جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو ،  اللہ تعالی کی مرضی یہ ہے ، اور اسی کے لیے اس نے اپنارسول بھیجاتھا کہ زمین میں ایک صالح نظام قائم ہو جوانسان اورحیوان اوردرخت اور ہراس چیز کو جو زمین پر ہےامن بخشے ۔ جس کے تحت انسانیت اپنی فطرت کی کمالِ مطلوب کو پہنچ سکے ۔ ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائم ہوجائے تواس کو خراب کرنے کی سعی کرنا ، قطعِ نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پرقتل وغارت اورراہزنی وڈکیتی کی حدتک ہو یابڑے پیمانے پر اس نظام کوالٹنے اور اس کی جگہ فاسد نظام قائم کردینے کےلیے ، دراصل وہ خدا اور اس کے رسول کے خلا ف جنگ ہے ( تفھیم القران ج1 ص 465)  ہمارا مقصد اس عبارت سے یہ تھا   کہ یہ آیات ان گروہوں کے متعلق ہیں   جو اجتماعی طور پراسلامی معاشرے میں ظلم وستم ، اورقتل غارت گری کا بازارگرم رکھتے ہیں۔ ان انفرادی لوگوں سے متعلق نہیں ہیں   جو محض کسی وقتی جوش اورشہوت سے کسی گناہ کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں ۔ باقی اس پوری عبارت میں بیان کردہ فلسفہ مولانا مودودی کا اپنا ہی ہے۔ ہم اپنا نقطہ نظر اس کے متعلق پہلے پیش کرچکے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…