غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوم)

Published On January 8, 2024
واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

یاسر پیرزادہ کسی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال پوچھا کہ کیا آپ واقعہ معراج پر یقین رکھتے ہیں، میں نے جواب دیا الحمدللہ بالکل کرتا ہوں، اگلا سوا ل یہ تھا کہ آپ تو عقل اور منطق کی باتیں کرتے ہیں پھر یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ ایک رات میں کوئی شخص آسمانوں کی سیر کر آئے۔ میرا...

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

بشکریہ ادارہ ایقاظ   سماع ٹی وی کا یہ پروگرام بہ عنوان ’’غامدی کے ساتھ‘‘مورخہ  27 دسمبر 2013 کو براڈکاسٹ ہوا۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں من و عن دیا جارہا ہے۔ ذیل میں[1] اس پروگرام کا ویب لنک بھی دے دیا گیا ہے۔ ہمارے حالیہ شمارہ کا مرکزی موضوع چونکہ ’’جماعۃ...

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

ڈاکٹر عادل اشرف غامدی صاحب اور وحید الدین خان کا یہ مفروضہ صحیح نہیں کہ مولانا مودودی کا نظریہ دین ایک یا چند آیات سے ماخوذ ہے اور ان آیات کے پسمنظر اور انکی لغت کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے ہم ایک دوسری تشریح اخذ کرتے ہوۓ انکے نظریہ کی بنیادوں کو ہی ڈھا دیں گے! مولانا مودودی...

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

سید ظفر احمد روزنامہ جنگ کی اشاعت بروز جمعرات 22 جنوری 2015ء میں ممتاز مفکر محترم جاوید احمد صاحب غامدی کا مضمون بعنوان ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے اس موضوع پر اپنے فکر کا خلاصہ بیان کردیا ہے جو وہ اس سے پہلے اپنی کئی کتب و...

نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

ڈاکٹر زاہد مغل نفس مسئلہ پر جناب غامدی صاحب بیان کے مفہوم سے استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ان کا استدلال لفظ “بیان” سے کسی صورت تام نہیں۔ یہاں ہم اسے واضح کرتے ہیں۔ قرآن اور نبی کا باہمی تعلق کس اصول پر استوار ہے؟ کتاب “برھان” میں غامدی صاحب اس سوال کا یہ...

مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور

مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور

حامد کمال الدین  پاکستان میں قادیانی ٹولے کو غیر مسلم ڈیکلیئر کرنے کا دن آج گرم جوشی سے منایا جا رہا ہے۔ اتفاق سے آج ہی ’دلیل‘ پر جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ مضمون نظر سے گزرا۔ اس موضوع پر باقی سب نزاعات کو ہم کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں اور مضمون کے آخری جملوں...

ڈاکٹر خضر یسین

غامدی کے تصور “سنت” کے متعلق غلط فہمی  پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور نہ غلط بیانی ہمارے مقصد کو باریاب کر سکتی ہے۔ اگر غامدی صاحب کے پیش نظر “سنت” منزل من اللہ اعمال کا نام ہے اور یہ اعمال آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح وحی ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید ہوا ہے تو پھر انہیں قرآن مجید کے متعلق بھی یہی کہنا چاہیے تھا:

“توریت” شریعت پر مشتمل تھی، “انجیل” حکمت کا بیان ہے اور “زبور” اللہ تعالی کی تمجید کا بیان ہے اور قرآن مجید ان تینوں وہ مجموعہ ہے جسے آنجناب علیہ السلام نے تجدید و اصلاح اور بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں بطور دین جاری فرمایا ہے۔

“سنت” کے لئے یہی الفاظ انہوں نے استعمال کئے ہیں۔ اگر انہی الفاظ سے منزل من اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر یہی الفاظ قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے کو بھی کفایت کریں گے۔

میں غامدی صاحب کی نیت پر شک نہیں کرتا، لیکن ان کے الفاظ کا انتخاب اس مدعا کو بالکل بیان نہیں کرتا جو ان کے چاہنے والے ہمیں بتا رہے ہیں۔

“دین” کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب  غامدی صاحب کے “تصور دین” کو پوری طرح پیش نظر رکھنے بعد کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین  “ما انزل اللہ علی نبیہ” میں مقید و محدد ماننے میں متردد ہیں۔ یا کم از کم دوٹوک انداز میں یہ کہنے سے اعراض برتتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ شعور مذہبی میں مذہب کی حقیقت یہی ہے کہ بندے اور خدا کے مابین یہ ایک تعلق کا نام ہے۔ 3-بندہ، 2- خدا اور 1- ان کے مابین تعلق، یہ تین عناصر ہیں جن پر مذہب کا تصور قائم ہے۔ یہ تعلق “دعا” اور “جواب دعا” یا “وحی” پر مشتمل ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے اور خدا تعالی جواب دعا کے طور وحی نازل فرماتا ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے:اھدنا الصراط المستقیم۔ اللہ تعالی جواب دعا میں الکتاب کو ھدی للمتقین کے دعوے کے ساتھ بندے کی دعا کو رسپونس فرماتا ہے۔

غامدی صاحب دین کے مشمولات contents بیان کرتے ہیں:”دین” عبادت ہے اور اس کی اساس “الحکمة” ہے جو ایمانیات اور اخلاقیات پر مبنی ہے۔ اس کے مراسم اور حدود و قیود “الشریعة” ہیں جو الکتاب ہے یا قانون ہے۔ “الحکمة” شروع سے لیکر اب تک ایک ہی چلی آ رہی ہے اور “الشریعة” تمدنی ارتقاء کے باعث متغیر ہوتی رہی ہے۔

غامدی صاحب کا یہ تصور دین اور اس کے یہ مشمولات، الہامی لٹریچر توریت، انجیل اور زبور کے مطالعے کا حاصل ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن مجید “الکتاب” بمعنی قانون اور “الحکمة” بمعنی ایمانیات و اخلاقیات کا جامع شہ پارہ ادب ہے اور صحیفہ انذار و بشارت ہے۔

ہماری معروضات؛ بحیثیت مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کے نتیجے میں جن کتابوں کو میں کتب سماوی مانتا ہوں، ان کا راست مطالعہ صرف اسی صورت میں کر سکتا ہوں، جب قرآن مجید کو ماقبل کتب سماوی کا “مھیمن” اور “معیار” بناتا ہوں۔ صرف اس وجہ سے میں توریت اور انجیل کو الہامی لٹریچر میں شامل نہیں کر سکتا کہ انسانوں کی ایک جماعت، انہیں الہامی لٹریچر کہتی ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ الہامی لٹریچر کا معیار قرآن مجید کے سواء کسی اور شے کو نہ بنائے۔ آپ اگر الہامی لٹریچر کا عنوان اپنے ایک عمومی مطالعہ کا بنا لیتے ہیں تو اور بات ہے۔ آپ کے پاس اس کا حق ہے۔ لیکن یہ دینی فکر نہیں ہے، یہ ایک سیکولر مطالعہ ہے اور دینی فکر کی اساس بالکل نہیں ہو سکتا۔

“الکتاب ” سے مراد غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید نہیں ہے بلکہ قانون ہے اور یہ ایسی شے جو تمدنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ متغیر ہوتا چلا آیا ہے۔ لہذا شریعت یا قانون کا انحصار تمدن کے خارجی حالات پر ہے۔ قانون یا شریعت کو دائمی شے سمجھنا ان کے نزدیک درست نہیں ہے۔

جہاں تک کتاب و سنت کا تعلق ہے تو قرآن مجید اخبار اور احکام پر مشتمل ہے۔ اخبار عقائد ہیں اور احکام “حکم اللہ” ہیں۔ الکتاب کے اخبار یعنی عقائد میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی اور نہ احکام میں تغیر و تبدل ممکن ہے۔ اخبار جن کی حیثیت عقائد کی ہے، ان میں انذار و تبشیر بھی ہے، لیکن حقیقت میں وہ عقائد ہی ہیں۔ قرآن مجید کے بیان کردہ ماضی، حال اور مستقبل کے اخبار کو عقائد کی حیثیت نہ دی جائے تو ان سے انذار و بشارت کا مفاد ممکن نہیں رہتا۔ پہلے وہ عقائد ہیں اور ان کی اعتقادی سچائی ان سے انذار و بشارت کا مفاد ممکن بناتی ہے۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے تو وہ دین کا مطالبہ نہیں ہے، وہ خود میرے انسان ہونے کا مطالبہ ہے، جسے مجھے ہر حال میں پورا کرنا ہے، میں مذہب پر ایمان رکھتا ہوں چاہے نہیں رکھتا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…