فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

Published On August 23, 2024

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

اس ویڈیو میں ہم میزان کے باب کلام کی دلالت پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ” دنیا کی ہر زندہ زبان کے الفاظ و اسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب متواترات پر مبنی اور ہر لحاظ سے بالکل قطعی ہوتے ہیں ۔ لغت و نحو اور اِس طرح کے دوسرے علوم اِسی تواتر کو بیان کرتے ہیں ۔ اِس میں نقل کرنے والوں کا صدق و کذب اور اُن کی تعداد سرے سے زیر بحث ہی نہیں ہوتی۔” اس سے نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ قرآن کا ایک ایک لفظ قطعی الدلالہ ہے ، ہمارا مؤقف یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ کی دلالت اپنے معنی پر کہیں قطعی ہے اور کہیں ظنی۔ اسی پر ماہرین فن کا اجماع ہے ، سب اس بات کو مانتے ہیں سوائے مکتب فراہی کے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے لا یحتمل الا تاویل واحد کا دعویٰ کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ الفاظ کی دلالت اپنے معنی پر ظنی کیوں ہوتی ہے تو اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً لظف بعض اوقات مشترک ہوتا ہے ، بعض اوقات بیان اجمالی ہوتا ہے ، اسی سے لفظ ظنی ہو جاتا ہے جیسا کہ لفظ قُرُوۡٓءٍ ہے اس سے طہر بھی مراد ہو سکتا ہے اور حیض بھی ۔ ہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ متکلم کے ہاں کلام قطعی ہی ہوتا ہے لیکن مخاطب کے لیے ظنی ہو سکتا ہے اور قرآن کے معاملے ایسا امتحان کی غرض سے رکھا گیا ہے ۔ کہ انسان محنت کرے ، قطعی معنی تک پہنچنے کی ، اس کو پا لے گا تو دوہرا اجر ملے گا ورنہ محنت تلاش جستجو کا اپنا اجر ہے۔ قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل حدیث کی صورت میں موجود ہے اور حدیث زیادہ تر قطعی ہے ظنی بہت کم ہے، اس سے الفاظ کے معنی سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ۔ مکتب فراہی کا یہ نظریہ اصل میں مہذب انداز میں یہ کہنا ہے کہ قرآن ہمارے سوا کوئی سمجھا ہی نہیں ، اس لیے کہ ہمارے اصول تدبر قرآن کا اگر اطلاق کیا جائے تو قطعی معنی تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن خود مکتب فراہی کے مفسرین کے ہاں تفسیر یے اختلافات موجود ہیں ، یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی اصول کا اطلاق اور نتائج مختلف ، تو کہاں گئی قطعیت ، مثال کے طور پر مولانا امین احسن اصلاحی سورۃ احزاب سے پردے کے احکام برآمد کرتے ہیں اور وہ بھی وہاں نظم کلام کو ہی بطور دلیل پیش کرتے ہیں لیکن غامدی صاحب اپنی تفسیر میں اس کو ایک وقتی تدبیر بتاتے ہیں، فیا للعجب۔ یہ اختلاف دور کیوں نا ہو سکا۔
ایک بات اور کہتے ہیں کہ لفظ کے معنی سے متعلق فرد کو تو غلطی لگ سکتی ہے پر اجتماعی شعور غلطی نہیں کرتا۔ سُورۃ فیل ہی تفسیر میں خود ہی اس اصول کی نفی کردی، مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کنکر پرندوں نے پھینکے، لیکن مکتب فراہی کی بات ہی نرالی ہے ، یہاں مفسرین ، آئمہ لغت ، ادب جاہلی ،اجتماعی شعور سب کی نفی کر کے ایک نئی راہ اپنا لی کہ کنکر قریش مکی کے پہاڑ کی اوٹ سے پھینکے اور پرندے ان کی لاشیں کھانے کے لیے آئے تھے، نظم کلام کو بھی اگر دیکھیں تو پہلے پرندوں کے آنے کا ذکر ہے پھر کنکر پھینکے کا لیکن یہاں اس کو بھی نظر انداز کردیا گیا، دیکھیں اگر یہ کہا جاتا کہ یہ بھی ایک تفسیری نقطہ ہے تو بات کسی حد تک قابل قبول ہوتی لیکن جب اس کو تاویل واحد بنا کر پیش کیا گیا تو اس سے مسئلہ پیدا ہوا اور بہت کمزور اور ہلکی بات ہے۔

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…