فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول (قسط پنجم)

Published On August 23, 2024
فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم میزان کے باب کلام کی دلالت پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ " دنیا کی ہر زندہ...

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول (قسط پنجم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں جمع و تدوین قرآن سے متعلق غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ لیا گیا ہے ، غامدی صاحب نے ، اِنَّ...

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : قرآن فہمی کے بنیادی اصول ( قسط چہارم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم غامدی صاحب کے اصول تدبر قرآن میں میزان و فرقان میں قرات کے اختلاف پر گفتگو کریں گے غامدی...

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

اس ویڈیو میں جمع و تدوین قرآن سے متعلق غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ لیا گیا ہے ، غامدی صاحب نے ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰنَہٗ ، فَاِذَا قَرَاْنٰہٗ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ.(القیامہ ۷۵: ۱۶۔۱۹) سے استدلال فرمایا ہے کہ قرآن نبی پاک صلعم کے دور میں ہی جمع ہو گیا تھا۔ یہ بات تاریخی طور پر ہی غلط ہے ۔ قرآن رسول اللہ علیہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے دور میں متفرق طور پر موجود تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضہ کے زمانے میں اس کو ایک جگہ جمع کیا گیا جبکہ قرآت کے اختلاف وجود میں آنے کے بعد حضرت عثمان رضہ کے دور میں اس کو مابین الدفتین جمع کیا گیا اور اس کی سات کاپیاں بنا کر مختلف علاقوں میں بھیجی گئیں۔
غامدی صاحب ان آیات سے جو نتائج نکالتے ہیں صحابہ اس سے مختلف نتائج نکالتے تھے ملاحظہ ہو صحیح بخاری کی روایت ” ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» الایۃ یعنی ”آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں“ کے متعلق بتلایا کہ جب جبرائیل آپ پر وحی نازل کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹ ہلایا کرتے تھے اور آپ پر یہ بہت سخت گزرتا، یہ آپ کے چہرے سے بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۃ «لا أقسم بيوم القيامة‏» میں ہے یعنی «لا تحرك به لسانك» الایۃ یعنی ”آپ اس کو جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں۔ یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوانا، پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے پیچھے یاد کرتے جایا کریں۔ یعنی جب ہم وحی نازل کریں تو آپ غور سے سنیں۔ پھر اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔“ یعنی یہ بھی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اسے آپ کی زبانی لوگوں کے سامنے بیان کرا دیں۔ بیان کیا کہ چنانچہ اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو جاتے اور جب چلے جاتے تو پڑھتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ آیت «أولى لك فأولى‏» میں «تهديد» یعنی ڈرانا دھمکانا مراد ہے۔ ( بخاری 4929 )۔
دیکھیں ہر دور کا میں علم محفوظ کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے جیسا کہ آج ہم کتابی شکل یا سوفٹ کاپی میں محفوظ کرتے ہیں تو اس دور میں حافظہ علم کو محفوظ کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، اور اس آیت میں بیانہ سے مراد حدیث و سنت ہے مطلب یہ حدیث و سنت ہی قرآن کا بیان اور جسکی حفاظت کا زمہ اللہ پاک نے لے رکھا ہے۔
دوسر طرف صحیح بخاری کی روایت میں جمع قرآن کی ساری بات بیان ہوگئ ہے ۔ روایت ملاحظہ ” جب ( 11 ھ ) میں یمامہ کی لڑائی میں ( جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی ) بہت سے صحابہ مارے گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا، ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ ( کفار کے ساتھ ) لڑائیوں میں یونہی قرآن کے علماء اور قاری شہید ہوں گے اور اس طرح بہت سا قرآن ضائع ہو جائے گا۔ اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرا دیں اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرا دیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو محض ایک نیک کام ہے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جوان اور سمجھدار ہو ہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا بھی کرتے تھے، اس لیے تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کر دو۔ اللہ کی قسم! کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھا کے لے جانے کے لیے کہتے تو یہ میرے لیے اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک نیک کام ہے۔ پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا۔ جس طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے ( جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا، اس دور کے رواج کے مطابق ) قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے ( جو قرآن کے حافظ تھے ) حافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ التوبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے ملیں۔ ان کے علاوہ کسی کے پاس مجھے نہیں ملی تھی۔ ( وہ آیتیں یہ تھیں ) «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم‏» آخر تک۔ پھر مصحف جس میں قرآن مجید جمع کیا گیا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، آپ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، پھر آپ کی وفات کے بعد آپ کی صاحبزادی ( ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا )۔ (بخاری 4679)۔
اس روایت وہ وجوہات وہ واقعات نقل ہوگئے ہیں جو جمع قرآن سے متعلق ہے اس کے بعد امید ہے کوئی ابہام باقی نہیں رہے گا کہ قرآن بین الدفتین حضرت عثمان رضہ کے دور میں جمع ہوا تھا.
اس کے بعد عرضۂ اخیرہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں وہ روایت یہ ہے کہ “حضرت ابوھریرہ رضہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر سال ایک مرتبہ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا تھا، لیکن آپ کی وفات کے سال یہ دو مرتبہ آپ کو سنایا گیا۔‘‘
اس سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس کے بعد قرآن کی ایک قرآت فائنل ہوگئی تھی اور وہ روایت حفص ہے، لیکن ہمارا جواب یہ ہے اس قرآت میں آج جو سبعہ احرف پڑھے جاتے ہیں سب شامل ہیں کیونکہ تاریخ میں روایت حفص کا دسویں صدی سے قبل کچھ پتہ نہیں چلتا۔

ایک زرکشی کا حوالہ بھی دیا ہے ملاحظہ ہو
’’ابو بکر و عمر ، عثمان ،زید بن ثابت اور تمام مہاجرین و انصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء ت عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریل امین کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اخیرہ کی اِس قراء ت میں زیدبن ثابت بھی موجود تھے ۔دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اِسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے ۔‘‘(البرہان،الزرکشی ۱/ ۳۳۱)۔
اس کو بھی سیاق سباق سے ملا کر پڑھیں تو سمجھ اتا ہے کہ یہاں تو بات ہی ترتیب قرآن کی ہورہی ہے نا قرآت کی، تو یہاں غامدی صاحب نے ڈنڈی ماری ہے
چنانچہ صحابۂ کرام کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمانوں کا قولی تواتر صرف اِسی قراء ت کو حاصل ہے۔ یہ صرف ان کا عقیدہ ہے ورنہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔
سبعۃ أحرف والی روایت سے متعلق فرماتے ہیں یہ ایک معمہ ہے جسکا کوئی حل کسی کے پاس نہیں اس پر جلال الدین سیوطی کا حوالہ نقل کرتے ہیں حالانکہ ان کو بھی اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا ۔ سبعہ احرف کے معنی و مفہوم کے تعین میں علماء کے دو ہی اقوال ہیں ایک یہ کہ اس سے مراد سات وجوہ ہیں جو قرات کے تمام اختلافات کو محیط ہے دوسرا کہ مختلف عرب قبائل کی سات لغات ہیں ۔ اب یہ کیا روایت حل نہیں ہوئی.

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…