فکرِ غامدی ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول : ایک نقد (قسط اول)

Published On July 18, 2024
فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم میزان کے باب کلام کی دلالت پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ " دنیا کی ہر زندہ...

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول (قسط پنجم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں جمع و تدوین قرآن سے متعلق غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ لیا گیا ہے ، غامدی صاحب نے ، اِنَّ...

فکرِ غامدی : مبادیء تدبرِ قرآن ، قرآن قطعی الدلالہ یا ظنی الدلالہ (قسط ششم)

فکرِ غامدی : قرآن فہمی کے بنیادی اصول ( قسط چہارم)

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر تلخیص : وقار احمد اس ویڈیو میں ہم غامدی صاحب کے اصول تدبر قرآن میں میزان و فرقان میں قرات کے اختلاف پر گفتگو کریں گے غامدی...

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

اس سیریز میں ہمارا اصل فوکس غامدی صاحب کی کتاب میزان ہے یہ کتاب ان کے ربع صدی کے مطالعہ کا نتیجہ ہے اور نظر آتا ہے کہ اس کو لکھنے میں انہوں نے جان ماری ہے۔
میزان کے باب “مبادی تدبر قرآن” میں انہوں نے قرآن فہمی کے دس اصول بیان کیے ہیں اس میں پہلے اصول کا عنوان ہے ” عربی معلی “۔
غلام احمد پرویز صاحب نے بھی قرآن فہمی میں عربی زبان کو بڑی اہمیت دی ہے لیکن غامدی صاحب کا حلقہ ان کو پسند نہیں کرتا اس لیے کہ ان کے نزدیک انہوں نے عربی زبان کو “لغات” کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
غامدی صاحب کے نزدیک “عربی معلی” دور جاہلیت کی عربی زبان ہے کہ جس کو سمجھنے کے لیے اس دور کے لٹریچر کا مطالعہ ناگزیر ہے، مثلاً اس دور کے شعراء اور خطباء کا کلام ۔
یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے تو لامحالہ اس کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کا صحیح فہم حاصل کرنا نا گزیر ہے، اس میں تو کوئی اختلاف بھی نہیں کہ عربی معلی قرآن فہمی کا ایک سورس ہے مداس میں” حماسہ” اور”سبع معلقات” وغیرہ کتابیں اسی لیے شامل نصاب ہیں۔
مفسرین نے بھی اصول تفسیر میں عربی فہمی کو لازمی قرار دیا یے
۔روایات میں حضرت عمر رضہ سے منسوب ایک قول ہے کہ انہوں نے بھی شعر فہمی کی طرف توجہ دلائی ہے
۔ لیکن غامدی صاحب ہاں یہ مقدمات کچھ باتوں کے انکار کی وجہ بن گئے ہیں
غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ ” قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے وہ ام القری کی عربی معلی ہے جو اس دور جاہلیت میں قبیلہ قریش کے لوگ اس میں بولتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے” فانما یسرنہ بلسانک “( سورۃ مریم آیت 97) سے استدلال بھی کیا ہے ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکوہ آیت تو صرف یہ بتا رہی ہے کہ قرآن کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ان کی زبان میں آسان بنا دیا گیا یے ، دوسری طرف یہ امر واقعہ ہے کہ قرآن میں قبیلہ قریش کے علاوہ دوسرے قبائل کی زبان بھی ہے،اور قرآن میں ایسی کوئی نص نہیں ہے کہ جس میں کہا گیا ہو کہ یہ قبیلہ قریش کی زبان میں نازل ہوا ، قرآن کی زبان سے متعلق یہی نقطہ نظر المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام کے مصنف ڈاکٹر جواد علی کا بھی ہے۔
تاریخی طور پر بھی دیکھیں تو عرب کی تین اقسام ہیں ایک عرب بائدہ ، دوسرے عاربہ یہی پیور عرب ہیں ان کو ہی قحطانی عرب بھی کہتے ہیں ، تیسرے عرب مستعربہ یعنی حجازی و عدنانی عرب ، ان کو مستعربہ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ انہوں نے پیور عرب سے عربی زبان مستعار لی تھی 
اب اگر قرآن عربی میں نازل ہو یہ تو کیسے ممکن ہے کہ قرآن عرب بائدہ نہیں بلکہ مستعربہ کی زبان میں نازل ہو کیونکہ قبیلہ قریش کا تعلق تو عرب مستعربہ سے ہے۔
غامدی صاحب جاہلی شاعری کو عربی زبان کا سب سے بڑا ماخذ مانتے ہیں اور جاہلی شاعری کا سب سے بڑا مصدر سبع معلقات ہے اور اس میں ایک بھی معلقہ کسی قریشی شاعر کا نہیں ہے،
حد تو یہ ہے دور جاہلیت کے بڑے شاعر مثلاً امراؤ القیس ، زہیر، اعشی، نابغہ وغیرہ میں سے کسی ایک تعلق بھی قبیلہ قریش سے نہیں۔
اور جو قریشی شاعر ہیں مثلاً ابو طالب اور زبیر وغیرہ تو ان کی شہرت بطور شاعر ہے ہی نہیں۔
المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام کے مصنف ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہی تین عرب قبائل فصیح ترین تھے،
بنو تمیم
بنو قیس
اور بنو اسد
انہیں قبائل کی زبان سے علمائے لغت نے لغت مرتب کرتے ہیں اور قریش کی زبان تو پیور رہی ہی نہیں اس لیے کہ قریشیوں کا ان کا اختلاط عجمیوں سے بہت زیادہ تھا اس لیے ان کی زبان تو فصیح رہی ہی نہیں ،
بقول ڈاکٹر جواد علی قریش کی زبان کو فصیح ترین وہی کہے گا کہ جس کو دور جاہلیت کی کچھ پتہ نا ہو
غامدی صاحب جاہلی شاعری کو عربی زبان کا سب سے بڑا ماخذ مانتے ہیں اور جاہلی شاعری کا سب سے بڑا مصدر سبع معلقات ہے اور اس میں ایک بھی معلقہ کسی قریشی شاعر کا نہیں ہے،
حد تو یہ ہے دور جاہلیت کے بڑے شاعر مثلاً امراؤ القیس ، زہیر، اعشی، نابغہ وغیرہ میں سے کسی ایک تعلق بھی قبیلہ قریش سے نہیں۔
اور جو قریشی شاعر ہیں مثلاً ابو طالب اور زبیر وغیرہ تو ان کی شہرت بطور شاعر ہے ہی نہیں۔
المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام کے مصنف ڈاکٹر جواد علی لکھتے ہی تین عرب قبائل فصیح ترین تھے،
بنو تمیم
بنو قیس
اور بنو اسد
انہیں قبائل کی زبان سے علمائے لغت نے لغت مرتب کرتے ہیں اور قریش کی زبان تو پیور رہی ہی نہیں اس لیے کہ قریشیوں کا ان کا اختلاط عجمیوں سے بہت زیادہ تھا اس لیے ان کی زبان تو فصیح رہی ہی نہیں ،
بقول ڈاکٹر جواد علی قریش کی زبان کو فصیح ترین وہی کہے گا کہ جس کو دور جاہلیت کی کچھ پتہ نا ہو
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضہ نے فرمایا کہ اگر قرآن میں کوئی اختلاف ہو تو فیصلہ لغت قریش کے مطابق ہوگا۔ لیکن غامدی صاحب اس سے استدلال نہیں کرسکتے اس لیے کہ اس روایت سے ہی قرآت کا اختلاف اور جمع و تدوین قرآن کا دور عثمانی میں ہونا ثابت ہوتا ہے ، اور غامدی صاحب ان دونوں چیزوں کو نہیں مانتے ،
ہم اس روایت کو یوں سمجھتے ہیں کہ قرآن کا غالب حصک قبیلہ قریش کی زبان میں ہی نازل ہوا ہے ، اسمعیل بن عمر نے اپنی کتاب “لغات فی القرآن” میں مفردات پر بحث کرتے ہوئے بتایا ہے قرآن میں زیادہ الفاظ قبیلہ قریش کے ہی ہیں لیکن اس کے علاوہ باقی قبائل کے الفاظ بھی ہیں حتی کہ حبشی الاصل الفاظ بھی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب یہ بات کرتے کیوں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقدمہ کی بنیاد پر وہ جو قرآت کا اختلاف ہے اس کا انکار کرنا چاہتے ہیں ،
ہمارا نقطہ نظر یہ کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے نا کہ کسی خاص قبیلے کی زبان میں، ساری عربی کی فصیح ہے نا کہ کسی ایک قبیلہ کہ زبان فصیح ہے جیسا کہ غامدی صاحب مانتے ہیں
اب غامدی صاحب کے نزدیک عربی معلی کا سب سے بڑا سورس قرآن ہے یہ بات تو درست ہوگئی ، دوسرا سورس وہ احادیث اور آثار صحابہ کو بتاتے ہیں لیکن یہاں وہ کہتے ہیں ” روایت بالمعنی کی وجہ سے ان ذخائر کا بہت تھوڑا حصہ ہی ہے جسے اب زبان کی تحقیق میں سند و حجت کی حیثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے”غامدی صاحب حدیث کے روایت بالمعنی کا مطلب شاید یہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ ساتویں درجہ کے کسی راوی کے الفاظ ہیں حالانکہ یہ اصلاً قول صحابی ہے تو اس لحاظ سے یہ سب سے بڑا سورس ہوا نا۔
اس لیے صحابہ کی زبان وہی تھی کو قرآن کی زبان ہے، اصحاب رسول سے منسوب جو تفسیر کتب میں نقل ہوئی وہ تفسیر لغوی ہی ہے۔ جو کچھ غامدی صاحب ادب جاہلی میں تلاش کر رہے وہ یہاں موجود ہے، ایک اور بات غور کرنے کی ہے ادب جاہلی محفوظ بھی بہت کم ہے اور بہت کچھ من گھڑت بھی ہے جیسا کہ ڈاکٹر طہ حسین کا نقطہ نظر ہے ، اس کے علاوہ خود فراہی صاحب بہت محنت کر کے ادب جاہلی کی مدد صرف 121 الفاظ قرآنی کا معنی ہی متعین کر سکے اس وجہ ہم مجبور ہوئے کہ آثار صحابہ کو ہی حتمی سورس قرار دیں۔
اس دور کی تہذیب و تمدن کو سمجھنے کے لیے ادب جاہلی سے زیادہ شان نزول ہی روایات معاون ہیں۔
اس متکبہ فکر کا اصل مسئلہ روایات سے چڑ ہے کہ جو بات روایات میں آگئی وہ غلط ہے یا اس کو غلط ثابت کرنا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے قرآن بے شک فصیح عربی میں نازل ہوا ہے لیکن یہ اس فصاحت کو قبیلہ قریش تک محدود کرنا درست نہیں ہے۔

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…