(کیا کسی کو کافر کہنا جائز نہیں؟ غامدی صاحب کے نظریہ کفر کے داخلی ابہامات (اول

Published On September 8, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر زاہد مغل

غامدی صاحب کے شاگرد جناب حسن الیاس صاحب نے ”دلیل“ پر اپنی ایک حالیہ تحریر میں شکوہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کے نکتہ نظر پر درست تنقید کہیں موجود ہی نہیں تو جواب کیا دیا جائے؟ لوگ یا تو ان کی بات سمجھتے ہی نہیں اور یا ان کی طرف غیر متعلق دعوے منسوب کرکے اس پر نقد کرتے ہیں۔ جس سلسلہ مضمون (غامدی صاحب کا نظریہ تکفیر) پر انہوں نے یہ تحریر لکھی، اس پر ایک عرصہ قبل بندے نے اپنے تئیں ایک تحریر لکھی تھی مگر ان کے گروہ کی طرف سے اسے کوئی لفٹ نہ کروائی گئی۔ ممکن ہے ہماری ہی تنقید میں سقم ہو۔ بہرحال، بحث سے متعلق سمجھتے ہوئے اسے ایک مرتبہ پھر قارئین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، ممکن ہے کسی کو اس کا متعلق ہونا سمجھ آجائے۔
غامدی صاحب اور ان کے گروہ کا اصرار ہے کہ انقطاع وحی کے بعد اب کسی کو کافر کہنا جائز نہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ان کے خیال میں کفر سمجھ بوجھ کر حق کا انکار کرنے سے عبارت ہے، لہذا اب بوجوہ کسی کو کافر کہنا جائز نہیں:
1. جب بےشمار خلق خدا کے سامنے حق (اسلام) مکمل طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا تو ان کا انکار حق متحقق نہیں ہوا لہذا یہ کافر نہیں۔
2. اور اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کے سامنے حق پیش کر بھی دیا گیا ہے تب بھی یہ طے کرنا ممکن نہیں کہ اس نے حق کو سمجھ کر جانتے بوجھتے اس کا انکار کیا یا محض ناسمجھی وغیرہ کی وجہ سے اور چونکہ یہ قلبی معاملہ ہے جس تک رسائی اللہ اور اس کے بتانے سے اس کے رسول کے سواء کسی کو نہیں ہوسکتی لہذا ہم انہیں بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔
3. قرآن میں انھی لوگوں کو کافر کہا گیا جن پر خدا کا پیغام بالکل واضح ہوکر ان پر اتمام حجت ہوچکی تھی، ان لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر حق کا انکار کیا تھا۔ خدا نے اپنے لامحدود علم کی بنا پر انہیں کافر قرار دیا، اس مخصوص گروہ کے سواء کسی کو کافر کہنا جائز نہیں۔
نتیجہ یہ کہ چاہے کسی کے سامنے اسلام پیش کر دیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، کسی صورت اسے کافر نہیں کہا جا سکتا کہ ہوسکتا ہے اسے بات سمجھ ہی نہ آئی ہو یا وہ اپنے کفر کی اپنے تئیں کوئی علمی توجیہہ رکھتا ہو یا وہ کسی ذہنی خلجان کا شکار ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان کے خیال میں جو ایمان کا اقرار نہیں کر رہے انہیں کافر نہیں بلکہ ”غیر مسلم“ (اسلام سے باہر ) کہا جائے گا، یعنی یہ تمام لوگ ”نہ مسلم نہ کافر“ کی تیسری کیٹیگری میں گنے جائیں گے۔
اس پوزیشن پر وارد ہونے والے عقلی اشکالات ایک الگ موضوع ہے کہ اس سے ایک پلندہ کھل جاتا ہے (مثلا یہ کہ اگر کسی کافر کو کافر کہنا جائز نہیں تو کسی مسلمان کا کافر ہونا تو بالکل ہی ناممکن الوقوع شے ہوا، چاہے وہ ختم نبوت کا انکار کرے، سرے عام رسول اللہ (ص) کو گالیاں نکالتا پھرے، کیا پتہ غلط فہمی ہی کی بنا پر ایسا کر رہا ہو، ہم کوئی دلوں کے حال تھوڑی جانتے ہیں) یہاں ان کے اس دعوے کی قرآنی اساسات پر چند جہات سے گفتگو کی جائے گی۔ مضمون دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں ان کے دعوے کے خلاف دلائل دیے گئے ہیں جبکہ دوسرے میں ان کی تاویلات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
غامدی صاحب کے نظریہ کفر کے خلاف دلائل
1) قرآنی دلیل کیا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ بتایا جائے کہ اس دعوے کی براہ راست اور واضح قرآنی دلیل کیا ہے؟ اس ضمن میں جو دلائل یہ قائم کرتے ہیں ان کا تجزیہ حصہ دوئم میں آ رہا ہے جس سے ان شاللہ یہ واضح ہوجائے گا کہ ان کا یہ نتیجہ کمزور دلائل پر مبنی ہے۔ دھیان رہے، غامدی صاحب کے نزدیک حدیث سے اصلا کوئی عقیدہ یا دینی حکم ثابت نہیں ہوتا، لہذا دلیل کا مرجع صرف قرآن ہونا چاہیے۔
2) نصوص قرآنی کی مخالفت: ان کا یہ مئوقف قرآن کی درج ذیل نصوص کے خلاف ہے:
i. قرآن میں آرشاد ہوا: ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن (تغابن: 2) یعنی ”وہی (خدا) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن۔“ دیکھیے یہاں کسی تیسری کیٹیگری کا ذکر موجود نہیں، چنانچہ یہ آیت اپنے نفس مدعا میں بالکل واضح ہے کہ خدا کے پیدا کردہ انسانوں کی دو ہی اقسام ہیں، ایک کافر دوسری مئومن، اس کے علاوہ ”نہ مسلم نہ کافر“ (جسے یہ غیر مسلم کہتے ہیں) نامی تیسری کوئی قسم نہیں۔
ii. قرآن نے جہاں کہیں ذکر کیا دو گروہوں کا ذکر کیا، ایک جنہیں ”والذین کفروا“ (وہ جنہوں نے کفر کیا) اور دوسرا وہ جنہیں ”والذین امنوا“ (وہ جو ایمان لائے) کہا گیا۔ اس تیسرے گروہ (نہ کافر نہ مومن) کا ذکر کہاں ہے؟ (منافقین کے معاملے پر یہاں کوئی شبہ پیدا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ منافق بلحاظ فرق احوال قانونا ان دو میں سے کسی ایک گروہ کا حصہ ہی ہوتا ہے)
الغرض ان قرآنی نصوص کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ”نہ مسلم نہ کافر“ نامی کوئی کیٹیگری موجودہ نہیں۔
3) اتمام حجت کے اطلاق کے کفر کی شرط ہونے اور اسی میں محصور ہونے کی دلیل کیا ہے؟: اگر غلط طور پر مان بھی لیا جائے کہ قرآن نے ان کے بیان کردہ قانون اتمام حجت (جس میں بذات خود ابہامات ہیں) کے تحت لوگوں کو کافر کہا تو اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلا کہ قانون اتمام حجت کافر قرار دینے کی ”شرط لازم“ بھی ہے؟ جب تک براہ راست کسی نص قرآنی میں کوئی ایسی بات موجود نہ ہو جو اس امر کا فائدہ دے (مثلا جس میں ایسی کسی بات کا ذکر ہو کہ ”فلاں کو باوجود کفر کافر کہنے سے منع کردیا گیا ہو“، یا ”خدا کے فیصلے سے قبل کافر مت کہو“ وغیرھم) اس وقت تک یہ دعوی بلا دلیل ہے۔ جب ایسی کوئی بات قرآن میں موجود ہی نہیں جو اس شرط کا فائدہ دے تو اتمام حجت کو کفر کی شرط لازم کہنا زیادہ سے زیادہ ایک استنباط ہے۔ کسی امر کو شرط قرار دینے کے لیے اہل علم (اصولیین) کے ہاں جتنی قوی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ محض کسی دعوے کے لیے لفظ ”قوی یا قطعی“ استعمال کردینے سے حاصل نہیں ہوجاتی۔
اسی طرح اگر مان بھی لیا جائے کہ اتمام حجت کے تحت لوگوں کو کافر کہا گیا تو اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ کفر کا اطلاق اس ہی ایک شکل میں محصور ہے؟ اس حصر کے لیے بذات خود ایک قوی دلیل یا قرینے کی ضرورت ہے جو ان حضرات نے آج تک پیش نہیں کیا۔ اہل علم منطق کے اس قاعدے سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک تجزیے سے برآمد ہونے والے نتیجے سے منطقی طور پر حصر کا فائدہ حاصل نہیں ہو جاتا، جب تک کسی اضافی قطعی مثبت دلیل یا قرینے سے یہ ثابت نہ کردیا جائے کہ نتیجے کا حکم اسی ایک شکل میں محصور ہے۔ پس قانون اتمام حجت کے تحت کسی کو کافر قرار دیے جانے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس کے علاوہ کسی کو کافر کہنا جائز نہیں۔ (جب تک کہ کوئی اضافی دلیل واضح طور پر اس ممانعت کا تقاضا نہ کرے)۔
نہ صرف یہ کہ غامدی صاحب کے پاس اسے شرط قرار دینے اور اسی میں محصور ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ قرآن میں اس کے برعکس نظائر بھی موجود ہیں۔ مثلا ارشاد ہوا
وقالت الیہود عزیرن ابن اللہ وقالت النصری المسیح ابن اللہ ذالک قولہم بافواھھم یضاھئون قول الذین کفروا من قبل یعنی ”اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں، یہ بس نقل (پیروی) کررہے ہیں ان لوگوں کی باتوں کی جنہوں نے کفر کیا تھا ان سے پہلے.“ (توبہ 30)
دیکھیے یہاں ماضی کے ان عیسائیوں پر بھی کفر کا اطلاق کیا گیا جن پر کسی نبی کے ذریعے اتمام حجت نہ ہوا تھا، یعنی عقیدہ تثلیث وغیرہ تو حضرت عیسی(ع) کے بعد ایجاد کیا گیا اور ان کے بعد رسول اللہ ﷺ تک کوئی نبی مبعوث نہ ہوا مگر اس کے باوجود جن عیسائیوں نے یہ عقیدہ گھڑا ان کے اس عقیدے کو بھی قرآن نے واضح الفاظ میں ”کفر“ کہا۔ پس اس سے پتہ چلا کہ بذات خود اتمام حجت اطلاق کفر کے لیے شرط نہیں اور نہ ہی یہ اس میں محصور ہے۔ اسی طرح بعثت نبوی کے بالکل ابتدائی دور میں جو سورتیں نازل ہوئیں (مثلا سورہ کافرون، سورہ مدثر) ان میں بھی ”کافرون“ نیز ”کافرین“ جیسی اصطلاحات عام استعمال کی گئی ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اتمام حجت (فکر غامدی میں یہ بات بھی بذات خود مبہم ہے کہ آخر یہ اتمام حجت کب مکمل ہوا) سے قبل بھی اس کا استعمال کیا گیا۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ کیا قرآن مجید کی بالکل ابتدائی نازل ہونے والی سورتوں میں کہیں اس بات کا ذکر کیا گیا کہ یہ مشرکین محض ہٹ دھرمی کی بنا پر رسالت کا انکار کر رہے ہیں؟ یعنی جس طرح اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ الذین اتینھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم (جنہیں کتاب عطا کی گئی وہ اس رسول کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بچوں کو). کیا ابتدائی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں ایسی کوئی بات مشرکین مکہ کے بارے میں کہی گئی؟

بشکریہ دلیل

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…