من سب نبیا فاقتلوہ

Published On July 15, 2024
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

سوال : حدیث “من سب نبیا فاقتلوہ” کی تحقیق مطلوب ہے، آیا یہ حدیث صحیح اور قابل اعتبار ہے یا کہ نہیں؟غامدی چینل والے اس کو ناقابل اعتبار قرار دےرہے ہیں۔اس کا کیا جواب ہے؟

جواب

اگرچہ بظاہربعض تجدد پسند لوگ حدیث کی قبولیت کے لیے قرآنی موافقت کو شرط قرار دیتے ہیں اور اسناد کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، لیکن یہاں قرآن مجید ویگر صحیح احادیث  وغیرہ(ادلہ شرعیہ) کی موافقت وتایید کے باوجود ایسے لوگ اپنی مطلب برآری کے لیے سندکی کمزوری کا سہارا لے کر اس حدیث کومطلقا ناقابل اعتبار قرار دینے کی نا کام کوشش کرتے ہیں۔

اصول روایت حدیث کے مطابق اگرچہ اصولی طور پر احادیث کی جانچ پڑتال کا مدار سند پر ہوتا ہے ،لیکن بعض دفعہ سند صحیح ہونے کے باوجود حدیث کسی علت کی بنیاد پر حجت نہیں بنتی، اسی طرح  بعض دفعہ حدیث سند کے لحاظ سےتو کمزور ہوتی ہے ،لیکن دیگر قرائن وشواہد وتوابع کی وجہ سے وہ صحیح اور قابل استدلال قرار پاتی ہے،یہ حدیث بھی اگرچہ سند کے لحاظ سے کمزور ہے،لیکن چونکہ معنوی طور پر قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث سے اس کے معنی ومضمون کی تایید اور توثیق ہوتی ہے،جیساکہ تنبیہ الولاۃ والحکام میں علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی کی ذکردہ آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ ،بلکہ اجماع امت  اورقیاس صحیح سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہےکہ مسلمان شاتم رسول کی سزا قتل ہے،لہذا اس کے  معنوی طور پر صحیح اور قابل استدلال ہونے میں کوئی شک نہیں،یہی وجہ ہے کہ شروع سےہی محدثین کرام اسے کتب حدیث میں بطور فرمان نبوی کےاورتمام فقہاء کرام حکم ساب کے بارے میں بناء استدلال کے طور پر ذکر فرماتےآ رہے ہیں،اور باوجود ضعف سند کے کسی نے بھی اس کے ناقابل اعتبارواستدلال ہونے کی بات نہیں کی،البتہ اس حدیث میں قتل کا حکم حکام اور ریاست کو ہے ،عوام کو نہیں اورحکومت وریاست بھی قطعی ثبوت کے بعدہی اس سزا کو جاری کرنے کی مجاز ہے۔

حوالہ جات
{إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا (57) وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (58) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (59) لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا (60) مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا } [الأحزاب: 57 – 61]
تفسير الألوسي = روح المعاني (11/ 263)
والآية قيل نزلت في منافقين كانوا يؤذون عليا كرّم الله تعالى وجهه ويسمعونه ما لا خير فيه
وأخرج ابن جويبر عن الضحّاك عن ابن عباس قال: أنزلت في عبد الله بن أبي وناس معه قذفوا عائشة رضي الله تعالى عنها فخطب النبي صلّى الله عليه وسلم وقال: «من يعذرني من رجل يؤذيني ويجمع في بيته من يؤذيني فنزلت»
تنبیہ الولاۃو الاحکام لابن عابدین (ص:۴)
قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی بعد نقل بعض ھذہ الآیات: “فھذہ الآیات تدل علی کفرہ وقتلہ والاذی ھو الشر الخفیف فان زاد کان ضررا کذا قال الخطابی وغیرہ”
ثم قال رحمہ اللہ تعالی بعد نقل قصۃ الافک من الصحیحین : “فقول سعد بن معاذ ھذا دلیل علی ان قتل مؤذیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ن معلوما عندھم واقرہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولم ینکرہ ولاقال لہ انہ لایجوز قتلہ “،ثم استدل رحمہ اللہ تعالی بحدیث عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح فی قصۃ یوم فتح مکۃ وقال “وھو بلاشک دلیل علی قتل الساب قبل التوبۃ۔”
ثم قال:” واما الاجماع فقد تقدم “(وفیہ اشارۃ الی اقوال العلماء العظام فیما سبق فی کلامہ کالقاضی عیاض  حیث قال :ان اجمعت الامۃ علی قتل منتقصہ من المسلمین وسابہ  وکابی سلیمان الخطابی حیث قال: لا اعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ اذا کان مسلما “) وغیرذالک
ثم قال :”واما القیاس  فلان المرتد ثبت قتلہ بالاجماع والنصوص المتظاھرۃ ومنھا قولہ صلی اللہ علیہ وسلم من بدل دینا فاقتلوہ والساب مرتد مبدل لدینہ وتمام الادلۃ فی السیف المسلول وغیرہ ۔”

 

مجیب : نواب الدین 

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

74845

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…