علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

Published On February 10, 2025
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

ڈاکٹر زاہد مغل

ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔

– پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی اور تخیل کے زور پر وجودی افکار وضع کئے گئے جن کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ خدا کی ذات و صفات کی کلامی بحثیں اسی فکر کی بازگشت ہیں

– دوسرا دور علمیات کی بالادستی کا آیا اور یہاں وہ جدیدیت اور نام لئے بغیر کانٹ وغیرہ کی جانب اشارہ کرتے ہیں، اس فکر کی کوکھ سے سائنس و تجرباتی علم نے جنم لیا جس کی ایک مضبوط بنیاد حسی علم کی صورت موجود ہوتی ہے جبکہ پہلے قدم کا فلسفہ نرا تخیل ہے

– تیسرا دور وہ ہے جب انسان کی آزادی کو بنیادی محور بنا لیا گیا، یہاں وہ پس جدیدی افکار کی جانب اشارہ کرتے ہیں

علم کلام کو پہلے دور سے متعلق تخیلاتی علم قرار دیتے ہوئے انہوں نے اسے بالکل بے معنی و غیر ضروری قرار دیا، ان کا کہنا ہے کہ یونان سے آئے اس فلسفے کا جواب دینے اور اس کے تحت دینی عقائد کو بیان کرنے کے بجائے اسے اٹھا کر باہر بھینک دینا چاہئے تھا اور قرآن کے افکار پیش کرنا چاہئے تھے جو سادہ و فطری وغیرہ ہیں۔

ہماری رائے میں علم کلام پر یہ تبصرہ افسوس ناک بھی ہے اور اس علم کی روایت کی زیادہ شناسائی کو بھی ظاہر نہیں کرتا۔ فلسفیانہ افکار کی کلاسیفیکشن وغیرہ سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، ہمیں یہاں اس بات پر بھی تبصرہ نہیں کرنا کہ وجودی فکر پر جو تبصرہ انہوں نے کیا وہ درست ہے یا غلط، حیرانی تو اس بات پر ہے کہ آخر متکلمین کے منہج کو یونانی و نیوافلاطونی وجودی فکر سے خلط ملط کرکے کیسے اس پر ایسا حکم لگایا جاسکتا ہے؟ یہ بات تو حقائق کے خلاف (فیکچوئیل ایرر) ہے۔ آخر اشاعرہ و ماتریدیہ نے نیوافلاطونیت کو کب قبول کیا؟ واقفین اسلامی فلسفہ و کلام جانتے ہیں کہ ان گروہوں نے اسے رد کیا اور اہل سنت کی عقیدے کی روایت کے مین سٹریم کلامی گروہ یہی ہیں۔ ان گروہوں نے افلاطون (م 347 ق م) کے عالم مثال کو ماننے کی ضرورت سے انکار کیا، اسی طرح “وجود کی وحدت” کے کلی نظام فکر کو بھی قبول نہیں کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے ارسطو (م 322 ق م) کے کلیات خمسہ اور وجود ذہنی کی روایت کو بھی پوری طرح قبول نہیں کیا۔ جدید اصطلاحات میں کہا جائے تو اشاعرہ و ماتریدیہ کا فریم ورک براہ راست حقیقت پسندی  اور اسمیت پسندی (نامینل ازم ) سے قریب ہے۔ بعض مفکرین نے جن خیالات کا سہرا ولیم آف اوکھم (م 1347 ء) کے سر باندھ کر اسے جدیدیت و تجرباتی سائنسی علوم کی بنیاد رکھنے والا قرار دیا ہے، وہ افکار اس سے بہت قبل تفصیل سے متکلمین اسلام کے یہاں زیر بحث آچکے تھے، افکار کے تاریخی ارتقا سے متعلق یہ تجزئیے کچھ زیادہ بامعنی نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے بعض دیگر مفکرین کی طرح غامدی صاحب بھی نیو افلاطونیت ہی کو مسلمانوں کی علم کلام کی روایت سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں عام طور پر نیوافلاطونی افکار سے نسبتاً قریب علامہ ابن سینا (م 1037 ء) اور شیخ اکبر (م 1238 ء) و ملاصدرہ (م 1640 ء) وغیرہ کی روایات مشہور رہی ہیں، حضرت مجدد الف ثانی (م 1624 ء) اور شاہ ولی الله (م 1762 ء) کا خانوادہ اسی فکر کا نمائندہ تھا۔ لیکن اسے ہی مسلمانوں کی عقیدے کی مین سٹریم علمی روایت فرض کرلینا اور علم کلام کے مواقف کو اس کے کھاتے میں ڈال دینا ناقابل فہم ہے اور اس بنیاد پر علم کلام کو فضول و لایعنی قرار دینا بنائے فاسد علی الفاسد ہے۔ مسند ارشاد پر بیٹھے حضرات کو اسلامی علوم سے متعلق لوگوں میں ایسی غلط فہمی پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…