جاوید احمد غامدی کے منطقی مغالطے

Published On November 30, 2023
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

عمران شاہد بھنڈر

کوئی بھی خیال جب ایک قاعدے کے تحت اصول بن جاتا ہے تو پھر صرف اس سے انکار یا اس کا استرداد اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ جن حقائق پر اس اصول کی تشکیل ہوئی ہے، انہیں باطل ثابت کر دیا جائے۔ بصورتِ دیگر منطقی اصول کی صلابت کو کچھ فرق نہیں پڑتا، البتہ معترض کی عدم تفہیم آشکار ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک اصول ہے جسے عظیم ارسطو نے تشکیل دیا تھا اور جس نے چوبیس سو برس انسانی ذہن پر حکومت کی اور بقول کانٹ اس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکی، قطع نظر اس سے کہ اس کو کبھی رسمی منطق کے تحت زیرِ بحث لایا گیا اور کبھی جدلیاتی منطق کے تحت صرف خیال کے ترتیب کردہ تصورات کی ایک مختلف تعبیر کی گئی ہے۔ ارسطو کے اس عظیم اصول کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ارسطو کے نزدیک کوئی بھی کلیہ جزئیہ سے الگ وجود نہیں رکھتا۔اس سے قبل کہ میں جزئی اور کُلی کے درمیان تعلق کی نوعیت کا تفصیلی تجزیہ پیش کروں، میں چاہوں گا کہ جاوید احمد غامدی صاحب کے نکالے گئے ایک نتیجہ کو بیان کر دیا جائے جو کہ اس تحریر کا حقیقی محرک ہے۔ جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں

”ہونا چاہیے کا مطلب وجوب عقلی ہے جبکہ ہے کا مطلب بیان واقعہ ہے، کوئی شے فی الواقع تب قرار پاتی ہے جب حسی مشاہدہ اس کی شہادت دے۔“

غامدی صاحب اپنے مقدمے کی حمایت میں یہ مثال پیش کرتے ہیں
۔ سب انسان فانی ہیں
۔ زید ایک انسان ہے
مزید کہتے ہیں کہ ”اس سے درست طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ”زید فانی ہونا چاہیے“ نہ یہ کہ وہ فی الواقع فانی ہے۔“

واضح رہے کہ استخراجی منطق میں عقلی وہ نہیں جو ”ہونا چاہیے“ بلکہ عقلی وہ ہے جو اپنے لزوم میں ہو چکا ہے اور عقل کے نتیجہ نکالنے کا سبب بن چکا ہے۔ عقل کے نتیجے کی بنیاد “ہونا چاہیے” پر نہیں، بلکہ “ہے” پر ہوتی ہے۔ اور لزوم اس ”موجود“ یا ”ہے“ سے ماخوذ ہے، جو واقع ہو چکا ہے۔ استخراجی منطق میں عقل حسی ”ہے“ سے کُلی لزوم کی شناخت کرتی ہے، نہ کہ ”ہونا چاہیے“ کو بطورِ لزوم دریافت کرتی ہے۔ موجود ’ہے‘ کا تعلق حس کے ساتھ ہے۔ یعنی حس یہ بتاتی ہے کہ جزئی فنا ہو چکا ”ہے۔“ عقل یہ کُلی نتیجہ نکالتی ہے کہ اگر ایک انسان فنا ہو چکا ہے تو ہر انسان فانی ہے۔ اس طرح عقل حسی جزئیات سے کُلی لزوم تک پہنچتی ہے۔”چاہیے“ کا قضیہ بھی لزوم سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر انسان فنا نہیں ہوا تو پھر ”چاہیے“ کا تقاضا کیوں؟ اور اگر انسان فنا ہو چکا ہے تو پھر وہ فانی ”ہے“ نہ کہ ”ہونا چاہیے۔“ اس قضیے کی زیادہ تفصیل سے بحث اگلی سطور میں کی جائے گی۔
ارسطو نے اس حوالے سے جو قانون تشکیل دیا ہے اور جس کی تفہیم میں اکثر غیر منطقی لوگ غلطی کا ارتکاب کرتے وہ کچھ یوں ہے
۔ تمام انسان فانی ہیں۔
۔ سقراط ایک انسان ہے۔
۔ سقراط فانی ہے۔
سقراط کی جگہ سامنے بیٹھے کسی انسان (زید) کا نام لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ’انسان فانی ہے“ اس لیے زید ہو یا سقراط، پہلے مر چکا ہو، یا بعد میں مرنا ہو، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ منطقی اصول ”ہے“ سے اخذ کیا جاتا ہے ”ہونا چاہیے“ سے نہیں۔ ارسطو نے جب منطقی استخراج کا اصول تشکیل دیا تھا تو اس سے پہلے لاکھوں کروڑوں انسان مر چکے تھے اور ارسطو نے انہی کی موت سے یہ منطقی اصول تشکیل دیا تھا کہ ”سقراط فانی ہے۔“ یہ نکتہ اٹھانا کہ جب تک ’زید‘ مرتا نہیں ہے، اس وقت تک منطقی بنتر اور ”حقیقت” کے درمیان فرق قائم رہے گا، ایک گہرا منطقی مغالطہ ہے۔ منطقی اصولوں میں ماضی اور مستقبل کی تخصیص نہیں ہوتی۔جب یہ تشکیل پا جائیں تو ہر وقت کے لیے ان کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔ انسان فانی ہے تو بس فانی ہے۔ غامدی صاحب کو اپنی “منطق” کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بس انسان کو غیر فانی ثابت کرنا ہے۔ سامنے بیٹھے ہوئے انسان (زید) کو بنیاد بناکر ایک ’عقلی‘ قضیہ تراش لیا جائے تو یہ محض سوفسطائیت ہے جسے بآسانی مزید سوفسطائیت سے یوں رَد کیا جا سکتا ہے کہ ارسطو نے تو اپنی کتاب Prior Analytics میں سقراط کا نام لیا تھا اور سقراط مر چکا تھا۔ اس سے معترض کو تو جواب مل جاتا ہے کہ سقراط کا مرنا تو حسی مشاہدہ ہے تو کیا اب ایک عمومی منطقی اصول تشکیل دیا جا سکتا ہے یا مزید لوگوں کے مرنے کا انتظار کیا جائے؟ یہاں مقصد کسی کو غلط ثابت کرنا نہیں ہے، بلکہ غلطی کی تصحیح کرنا ہے اور منطقی تصحیح اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جب اصول کو اس کی درست شکل میں پیش کر دیا جائے۔ غامدی صاحب کے مطابق “منطقی اصول“ کو یوں لکھنا چاہیے
۔انسان کی ماں ہوتی ہے
۔زید ایک انسان ہے
۔زید کی ماں ہونی ”چاہیے“
یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ انسان کی ماں نہیں ہوتی، اس لیے انسان کی ماں ”ہونی چاہیے“۔ اور اگر ماں ہے، تو “ہونی چاہیے” کا سوال ہی باطل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پانی ایک سو ڈگری پر ابلتا ہے، تو غامدی صاحب کے مطابق کیونکہ ابھی پانی کو آگ کے اوپر نہیں رکھا، اس لیے وہ اپنی منطق کی رو سے یوں فرمائیں گے کہ ”پانی کو ایک سو ڈگری پر ابلنا چاہیے۔“ لیکن یہ تو سائنس کا ایک قانون بن چکا ہے اور قانون خواہ سائنسی ہو یا منطقی وہ ”موجود“ سے تشکیل پاتا ہے۔ ”ہونا چاہیے“ کبھی سائنسی یا منطقی قانون نہیں ہوتا۔
غامدی صاحب کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے حسی اور عقلی کو دو دنیاؤں میں تقسیم کر دیا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔کلیہ (عقلی) اور جزئیہ (حسی) دو الگ دنیائیں نہیں ہیں کہ جن میں ایک دوسرے کا گزر نہ ہو سکے۔ بلکہ کلیہ (عقلی) وہ مشترک صفت ہے جو بہت سے جزئیات (حسی) میں پائی جاتی ہے۔منطقی استخراج میں جزئی اور کُلی کا تعلق ماورائے زمان و مکان نہیں ہے، یعنی کائنات سے ماورا نہیں ہے، بلکہ اسی کائنات کے اندر ہے۔ جزئی اور کُلی کے درمیان تعلق خیال کا وظیفہ ہے، لیکن جیسا کہ کہا گیا ہے کہ یہ خیال زمان و مکاں (کائنات) سے ماورا نہیں ہے۔ لہذا خیال کے تمام وظائف کا اطلاق اسی دنیا میں ان تمام اشیا پر ہوتا ہے جن کا کہ خیال قائم کیا جا سکتا ہے۔ کلیہ کا استخراج جزئیات کے حقائق کے بغیر ناممکن ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ فلسفے میں جو تصورات قائم کیے جاتے ہیں وہ عمومی تصورات ہوتے ہیں۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دنیا کا ہر انسان ان قائم کیے گئے تصورات کو مشاہدے میں لائے تب وہ متحقق ہوں گے۔ یہ انسانی مشاہدہ ہے جس کی بنیاد پر منطقی و سائنسی قوانین کی تشکیل کی جاتی ہے۔استخراجی منطق کلیہ سے آغاز کرتی ہے، جبکہ استقرائی میں جزئی سے شروع کیا جاتا ہے۔ لیکن سائنسی اور منطقی اصول عمومی ہی ہوتے ہیں جن کی تصدیق کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ لیک ہمہ وقت تصدیق یا مشاہدے کا تقاضا کرنا معقول امر نہیں ہوتا۔ اصول و قوانین کی تشکیل آغاز میں نہیں آخر میں اس وقت ہوتی ہے جب واقعہ پیش آ چکا ہے۔ ہر شخص یہ تقاضا نہیں کر سکتا کہ وہ ابلتے ہوئے پانی کو دیکھ کر یہ تسلیم کرے گا کہ پانی سو ڈگری پر ابلتا ہے۔ اور پھر ہر روز یہ تقاضا کرتا رہے کہ سو ڈگری پر پانی کو ابلتے ہوئے دیکھوں گا تو یقین کروں گا، نہ ہی کوئی انسان یہ تقاضا کر سکتا ہے کہ ہر روز ایک نیا انسان مرتے ہوئے دیکھے گا تو یقین کرے گا کہ انسان فانی ہے۔
حسی مشاہدہ ایک عمل ہے، جبکہ حسی مشاہدے سے ایک قاعدے کے تحت اخذ کیا گیا اصول ایک مختلف عمل ہے۔ یہاں ہمیں حسی مشاہدے سے بحث نہیں ہے، کیونکہ حسی مشاہدہ یہ ثابت کر چکا ہے کہ ”انسان فانی ہے“ اور سقراط ایک انسان ہے۔ اگر تمام جزئی جیسا کہ سقراط، زید، بکر وغیرہ کو حذف کر دیا جائے تو انسان باقی نہیں رہتا۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہر انسان کے خاتمے کے بعد انسان باقی رہ سکتا ہے۔ انسان اپنی جزئیت میں ہی باقی رہتا ہے اور اپنی جزئیت میں ہی فانی ہوتا ہے۔ ”تمام انسان فانی ہیں“ جو کہ ایک عمومی اصول ہے، اس اصول کو صرف ایک ہی صورت میں غلط قرار دیا جا سکتا ہے کہ حسی شہادت سے یہ ثابت کر دیا جائے کہ انسان فانی نہیں ہے۔ اور جب تک یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان فانی نہیں ہے، اس وقت تک یہ اصول ایک منطقی، سائنسی اصول کا درجہ رکھتا ہے کہ انسان فانی ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں اس اصول کو یہ کہہ کر رَد نہیں کر سکتے کہ ہم اس وقت یہ بات تسلیم کریں گے کہ انسان فانی ہے جب زید یا بکر فانی ہوں گے۔ زید یا بکر سامنے بیٹھا ہوا کوئی شخص نہیں ہے، بلکہ انسان(کُلی) کی تجرید سے ممیز کیا ہوا ایک فرد (جزئی) ہے جو اربوں کی تعداد میں فانی ثابت ہو چکا ہے۔ لہذا غامدی صاحب کا ”ہونا چاہیے” کا تصور خود ہی منہدم ہو جاتا ہے۔
جب ہمارا واسطہ کسی سائنسی اصول سے پڑتا ہے تو ہم کوئی سوال اٹھائے بغیر اسے قبول کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگ کششِ ثقل کے اس قانون کو بغیر کوئی شہادت طلب کیے قبول کر لیں گے کہ اگر ایک سیب کو اوپر پھینکا جائے تو وہ نیچے گرتا ہے۔ وہ ایسا کبھی نہیں کہتے کہ ایک سیب کو اوپر پھینکیں تو اسے نیچے گرنا ”چاہیے۔“ کیونکہ سیب کا نیچے گرنا حسی مشاہدے میں بالکل ویسے ہی آ چکا ہے جیسے سقراط یا زید کا مرنا۔ سیب کا نیچے گرنا، پانی کا ایک سو ڈگری پر ابلنا اور انسان کا فانی ہونا ایک ہی جیسے مشاہداتی اور مستحکم قوانین ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی آج تک غلط ثابت نہیں ہوا۔ ان تینوں میں سے ”زید فانی ہے“ کی تصدیق ہر بار مشاہدے میں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر بار کسی شے کو اوپر پھینک کر تصدیق کی جائے کہ وہ نیچے گرتی ہے یا نہیں، یا ہر بار پانی کو آگ پر رکھ کر سو ڈگری تک لے جایا جائے کہ وہ ابلتا ہے یا نہیں! اگر ایک انسان حادثے میں مرتا ہے تو موت حادثہ کہلائے گی، لیکن اس انسان کا مرنا حادثہ نہیں، بلکہ وہ اس لیے مر چکا کہ وہ فانی تھا۔ انسان کا فانی ہونا کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ ایک عمومی حقیقت ہے، جس میں سے منطقی اصول کو اخذ کیا گیا ہے، نہ کہ انسان پر کوئی عقلی اصول لاگو کر دیا گیا ہے۔ ایک تربیت یافتہ منطقی ذہن سے اس قسم کے سطحی اعتراضات کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔
غامدی صاحب کی دوسری غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی غلطی سے غلط نتائج اخذ کرکے انہی سے ایک اور غلط مقدمہ قائم کرتے ہوئے اس سے بھی ایک غلط نتیجہ اخذ کر لیا۔ فرماتے ہیں

۔ سب انسان والدین سے پیدا ہوتے ہیں
۔ حضرت عیسیٰ انسان تھے

غامدی صاحب یہ دعویٰ کُلی اور جزئی میں حتمی تفریق قائم کرنے کے لیے قائم کرتے ہیں۔ وہ ایک عام سے منطقی نکتے کو نہیں سمجھ پائے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کوئی عقلی و منطقی قضیہ نہیں ہے، بلکہ خلافِ عقل و منطق ایک معجزہ ہے جس کا تعلق عقیدے سے ہے۔ استخراجی منطق معجزات کی وضاحت کے لیے تشکیل نہیں دی گئی تھی، بلکہ یہ دنیا کے حقیقی واقعات کی تعبیر و توضیح کرتی ہے۔ معجزہ نہ حسی ہے نہ عقلی، یہ ماورائے عقل یا غیر عقلی یا خلافِ عقل ایک عمل ہے جس کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہے۔ معجزہ اگر ثابت ہو جائے تو پھر وہ معجزہ نہیں رہتا، بلکہ ایک حسی حقیقت بن جاتا ہے، جس کا عقلی تصور قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہر الٹی سیدھی بات کو عقلی نہیں کہا جا سکتا۔ عقلی (کلی) وہ ہے جو جزئی (حسی) میں ثابت ہو۔ بصورت دیگر ایک تصور ہے۔ عقیدے پر مبنی واقعات میں سے منطق برآمد کرنا نہ صرف یہ کہ غیر منطقی ہے بلکہ عقیدے کی روح کے بھی منافی ہے۔ کیا کوئی معجزہ کسی منطقی اصول کی تشکیل کر سکتا ہے؟یہ کوئی منطقی رویہ بھی نہیں ہے کہ کسی منطقی قضیے سے معجزے کا جواز پیدا کیا جائے۔ منطق سے معجزہ نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ منطق بھی منطقی نہیں رہی۔ اگر غامدی صاحب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ زید کو فانی’ہونا چاہیے‘ اور جب تک نہیں ہوتا اس وقت تک منطقی اصول متحقق نہیں ہے، تو کیا حضرت عیسیٰ یا کسی بھی انسان کا انہی کی مانند دوبارہ پیدا ہونا خود عقل کے اس نتیجے کے درست ثابت ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے جس کا غامدی صاحب استعمال کر رہے ہیں؟ اگر حضرت عیسیٰ سے متعلق معجزہ دوبارہ رونما نہیں ہوتا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس معجزے کو عقلی تسلیم کر لیا جائے؟ اگر زید کا مرنا انسان کے فانی ہونے کے لیے ضروری ہے تو غامدی صاحب کے عقلی نتیجے (معجزے) کا دوبارہ رونما ہونا بھی ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر وہ ایک عقیدہ ہے نہ کہ کوئی منطقی اصول
آخری اہم بات یہ ہے کہ ایک ایسا تصور قائم کر لیا جائے جو کہ زید کی مانند ایک حقیقی وجود نہیں رکھتا اور پھر زید کے حقیقی تصور سے اس تصور کی مماثلت دکھائی جائے وہ محض ایک منطقی امکان ہے نہ کہ وہ کسی حقیقی وجود کے تصور کا حقیقی امکان ہے۔ یہ قطعی طور پر ایک غیر منطقی رویہ ہے۔ کائنات کے اندر ہر شے کا تصور ایک حقیقی تصور ہوتا ہے۔ ماورائے کائنات یا ایک خالص عقلی کلیہ جو کائنات کے اندر موجود نہ ہو وہ محض ایک منطقی امکان تو ہوتا ہے مگر ایک حقیقی تصور نہیں ہوتا کہ اس کی تصدیق کی جا سکے جیسا کہ اس منطقی قضیے کی تصدیق کی جاتی ہے کہ زید فانی ہے۔ زید ایک انسان ہے اور اس مخصوص انسان کی غیر موجودگی میں بھی اس کا تصور حقیقی تصور کہلاتا ہے۔ زید کے برعکس خدا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے، بلکہ ایک منطقی امکان ہے۔ یعنی ہم خدا کے بارے یہ تصور قائم نہیں کر سکتے کہ وہ زید ہی کی مانند وجود کا حامل ہے، کیونکہ خدا کبھی مشاہدے میں نہیں آیا۔ جبکہ انسان کا فانی ہونا ایک مشاہداتی قضیہ ہے۔ خدا کی اسی صورت انسان سے مطابقت کا قیاس (Analogy) کیا جا سکتا ہے جب خدا انسان ہی کی طرح ایک وجود ہو۔ جب اس بات کا سرے سے ہی کوئی علم نہیں ہے کہ خدا کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں تو اس کی انسان سے مطابقت کا جواز کیا ہے؟ یا یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان سے وابستہ یا انسان سے ماخوذ تصورات کو خدا پر منطبق کر دیا جائے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ خدا مشاہدے میں نہیں آسکتا اور ہم صرف خدا کا ایک تصور رکھتے ہیں اور جب تک کوئی تصور اپنا معروض نہ رکھتا ہو، اس تصور کی شناخت ممکن ہی نہیں ہے، چہ جائیکہ اس تصور کی انسان سے مطابقت قائم کر دی جائے اور بعد ازاں انسانی
صفات کو خدا کے تصور پر منطبق کر دیا جائے، یہ جانتے ہوئے کہ خدا کے بارے انسان کا تصور ’وجود‘ سے ماورا ہے اور انسان حقیقی وجود (انسان) کا تصور قائم کر سکتا ہے، لیکن خدا کو وجود تصور کرکے اس سے صفات منسوب نہیں کر سکتا۔ کیونکہ خدا ایک منطقی امکان ہے نہ کہ وجود کا حامل حقیقی تصور! انسان صرف اسی وجود سے صفات منسوب کر سکتا ہے جو مشاہدے میں آچکا ہو۔ پانی کا ابلنا، سیب کا زمین پر گرنا اور انسانی کا فانی ہونا مشاہدے سے بالا قضایا نہیں ہیں اور امکانی تصور سے کہیں زیادہ حقیقی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور بہت سی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…