ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط پنجم )

Published On September 24, 2024
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

سید خالد جامعی

عصر حاضر کا مسئلہ یہ ہے کہ فقہا، متکلمین واعظین علماء نے لا ادری کہنا ترک کردیاہے لہٰذا وہ ہر مسئلے کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کی درست رہنمائی سے قاصر رہتے ہیں۔ نائیک صاحب نہایت اخلاص کے ساتھ ادھورے علم کے ذریعے امت کی اصلاح کے لیے نکلے ہیں کاش وہ کہہ سکتے کہ لا ادری تو اس بڑی ذمہ داری سے بچ جاتے جسے انھوں نے رضا کارانہ طور پر خود قبول کرلیا ہے ایک ایسی ذمہ داری جو امت کے لیے مصائب کے نئے دریچے کھول رہی ہے۔
اعتراضات کرنے والے قسم قسم کے اعتراض کرسکتے ہیں مثلاً سورۂ نحل کی آیت:
وَ اللہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللہ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ [۱۶:۷۲ میں اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور پوتوں کا ذکر کیوں کیا ہے؟ بیٹی اور نواسوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟اور نواسوں کا ذکر بھی کیوں نواسیوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ یہ تو صریحاً صنفی امتیاز محسوس ہوتا ہے [نعوذ باللہ]، جب آپ عہد حاضر کے غالب تعقل کی روشنی میں چیزوں کو ایک خاص زاویے، خاص نقطۂ نظراور خاص ما بعد الطبیعیات کے ذریعے پرکھتے ہیں تو اسی قسم کے کمالات، تحقیقات ،ایجادات اور اکتشافات کادریچہ وا ہوتا ہے اور سائنسی، منطقی، تجربی، حسی اور طبعی ذہن قرآنی دلیل کو سمجھنے سے قاصر رہتاہے۔ معترض یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں کہا ہے کہ یہ پہاڑ میخیں ہیں جو زمین کو ڈھلکنے سے روکے ہوئے ہے:
 ضَرَبَ اللہ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْئٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَھُوَ یُنْفِقُ مِنْہُ سِرًّا وَّ جَھْرًا ھَلْ یَسْتَونَ اَلْحَمْدُ لِلہ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ ضَرَبَ اللہ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُھُمَآ اَبْکَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْئٍ وَّ ھُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوْلٰہُ اَیْنَمَا یُوَجِّھْہُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ ھَلْ یَسْتَوِیْ ھُوَ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ ھُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ [۱۶:۷۵،۷۶ لیکن دیکھیے دنیا میں ہزاروں پہاڑ کاٹ دیے گئے اگر پہاڑوں کو کاٹا نہ جائے تو اس میں سے معدنیات کے ذخائر یعنی پتھروں کی انواع و اقسام سے کیسے فیض اٹھایا جائے ؟ظاہر ہے نائیک صاحب یہاں کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔وہ یہ اعتراض بھی اٹھا سکتا ہے کہ سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے گھوڑے اور خچر پیداکیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمھاری زندگی کی رونق بنیں [۱۶:۸]لیکن عہد حاضر میں تو جدید تہذیب و تمدن کے ظہور کے بعد گھوڑے اور خچر تو زینت حیات دنیا ہی نہیں رہے، دنیا کے اکثر حصوں میں علمائے دین بھی گدھے اور گھوڑے پر سواری کو قابل عزت شے نہیں سمجھتے کیا آپ ’’شیخ الاسلام ‘‘کا اکرام اس طرح کریں گے کہ انھیں گھوڑے یا گدھے پر بٹھا کر لے جائیں ؟بہ ظاہر یہ اعتراض درست لگتا ہے کیونکہ عصر حاضر کے تعقل نے عیش و عشرت اور سہولت کی جو سواریاں پیدا کی ہیں ان کے سامنے گھوڑے اور گدھے واقعی حیات دنیاکی زینت نظر نہیں آتے اور کسی عالم کو خچریا گدھے پر سواری کی دعوت دینا جدید حسی ذہن کو فی الواقع توہین نظر آئے گا، کیونکہ یہ طرز عمل عہد حاضر کے غالب طرز تعقل کے خلاف ہے، مگر یہ نظر کا قصور ہے، برطانیہ کی ملکہ سعودی عرب کے شاہ کے خصوصی استقبال کے لیے شاہی بگھی میں لے کر انھیں بکنگھم پیلس جاتی ہے تو پوری دنیا اور خود شہنشاہ اسے خصوصی اکرام و اعزاز سمجھتے ہیں کیونکہ یہ تعظیم عہد حاضر کے تعقل سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے، قرآن بتاتا ہے کہ جانوروں میں تمھارے لیے جمال ہے جب کہ تم صبح انھیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جب کہ شام انھیں واپس لاتے ہو [۱۶:۶] لیکن عہد حاضر کے فلسفۂ جمال میں جانور وں کے اس حسن، کمال اور جمال کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے فلیٹ شہر اور جانور ایک ساتھ نہیں رہ سکتے جدید طرز زندگی فطری حقیقی اصل طرز زندگی کو باقی ہی نہیں رہنے دیتا نہ شہروں میں باغات میں نہ کھیت نہ چراگاہیں تو جانور کیسے رہیں گے اور اس کا حسن و جمال کون دیکھے گا؟ لہٰذا جمالیات کے نئے نظریات میں اس فطری حسن و جمال کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لیکن عید قربان کے موقعے پر پوری امت اور اس کے امراء عالیشان محلوں میں رہنے والے متکبرین کے بچے جانوروں کے جمال سے جس طرح لطف اٹھاتے ہیں اور ان کے ساتھ جس طرح وقت گزارتے ہیں وہ اس آیت کی سچائی کی محکم دلیل ہے مگر سائنسی ذہن اس دلیل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ صرف عقل کی بنیاد پر کسی کو دین و ایمان کی توفیق نہیں ملتی یہ توفیق انھیں ملتی ہے جو عقل کے ذریعے کسی حقیقت کو پالینے کے بعد قلب میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں تو انھیں ایمان کی توفیق نصیب ہو جاتی ہے، عقل صرف سوچنے کا ذریعہ ہے وہ حقیقت کو پانے والے ، ڈھونڈنے والے آلات میں سے ایک آلہ ہے یہ آلہ خود مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ کفار مکہ نے علم،عقل اور فطرت کے آلات کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصل بیت اللہ کو پہچان لیا تھا قرآن کے الفاظ میں مشرکین مکہ اور اہل کتاب ذات رسالت مآبؐ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے اسی طرح وہ بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کی اصلیت سے بھی واقف تھے لیکن ان کے قلب نے انکا رکردیا ان کے نفس نے تعقل قلبی سے استفادہ نہیں کیا وہ خواہش نفس کے اِلہٰ کی پرستش میں مبتلا رہے۔ قلب اس تفکر کو گہرائیوں کے ساتھ ایمان کے قالب میں ڈھالنے کا وسیلہ ہے، اس لیے پیغمبر جب بھی آتے ہیں لوگوں کے قلوب کو بدلتے ہیں ،ان کے فواد کو مخاطب کرتے ہیں، ان کے دروازۂ دل پر دستک دیتے ہیں، ان کے دل کی دنیا بدلنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ قرآن کے الفاظ میں ’’ایک شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے‘‘ لہٰذا اس ایک دل کو خالق حقیقی کے لیے خالِص کردینا پیغمبروں کی کوشش ہوتی ہے۔ منافقین بہ ظاہرایمان لے آئے تھے مگر ان کے ایمان کو اللہ نے تسلیم نہیں کیا انھوں نے رسالت مآبؐ کا انکار نہیں کیا لیکن دل سے آپ کی تصدیق نہیں کی، اسی لیے قرآن نے ارشاد کیا کہ یہ منہ سے کہتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں لاتے:
یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَ یُمَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہ یَقُولُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْ تَوْہُ فَاحْذَرُوْا وَمَنْ یُّرِدِ اللہ فِتْنَتَہ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہ مِنَ اللہ شَیْئًا اُولٰئکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللہ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ [۵:۴۱اگر ایمان عقلی دلائل پر منحصر ہوتا تو اہل کتاب ایمان لے آتے، قرآن کے الفاظ میںوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جس طر ح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں وہ عقلی طور پر آپ کی بعثت سے متفق تھے لیکن ان کا دل اسے تسلیم نہیں کرتا تھا ،ان کی خواہش نفس اور تکبر ضد اور اپنی قوم کی عظمت اس عقلی دلیل کو قلبی دلیل میں تبدیل کرنے پر آمادہ نہ تھی، لہٰذا عقلی یقین کے باوجود وہ آخر تک قلبی یقین سے محروم رہے اور دنیا وآخرت دونوں برباد کرلی۔ اسی لیے قرآن نے واضح کردیا کہ جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پر اللہ کا غضب ہے:
مَنْ کَفَرَ بِاللہ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہ وَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ [۱۶:۱۰۶]۔ ابو جہل کعبہ کے پردوںمیں چھپ کر قرآن سنتا تھا اس کا دل پگھل جاتا تھا لیکن اس کا تکبر آڑے آتاتھا کہ یہ قرآن اس شہر کے دو بڑے آدمیوں پر کیوں نہیں اترا؟سورۃ انبیاء میں حضرت ابراہیم اور اس عبادت گاہ کے مقتدیوں کا مکالمہ آیت ۵۹ تا ۶۷ میں تفصیل سے آیا ہے، جب حضرت ابراہیمؑ نے تمام بتوں کو ریزہ ریزہ کردیااور کفار مندر میں عبادت کے لیے گئے تو بڑے ناراض ہو ئے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا، انھیںبتایا گیاکہ ایک نوجوان ابراہیم ہے جو بتوں کو برا بھلا کہتا ہے انھیں لوگوں کی موجودگی میں طلب کیا گیا اور سوال حضرت ابراہیمؑ سے یہ پوچھا گیا کہ:قَالُوْا ئَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰاِبْرٰھِیْمُ [سورۂ الانبیاء:۶۲] ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام تم نے کیا؟
قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ [سورۂ الانبیاء:۶۳] آپ نے فرمایا ’’ان کے بڑے بت سے معلوم کرو اگر یہ بولتے ہوں‘‘۔
کفار اس عقلی دلیل پر ششدر ہوگئے:
فَرَجَعوْا اِلٰی اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ[الانبیاء:۶۴] اور آپس میں کہنے لگے بیشک ہم ہی ظالم ہیں
 ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئوْسِھِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ھٰولَآء یَنْطِقُوْنَ [الانبیاء:۶۵] پھر شرمندہ ہو کر سر نیچا کرلیا او رکہنے لگے تم جانتے تو ہو کہ یہ بولتے نہیں اس پرحضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ پھر تم اللہ کو چھوڑ کر کیوں ایسے بتوں کو پوجتے ہو جونہ تمھیں کوئی فائدہ دے سکیں نہ نقصان پہنچا سکیں ؟کفار عقلی طور پر مطمئن تھے لیکن قلبی طور پرمطمئن نہ تھے۔قلب اور فواد جب تک عقل کا ساتھ نہ دیں ایمان کی توفیق نہیں ملتی اس لیے انبیاء لوگوں کے قلوب کو تسخیر کرتے ہیں۔ دلوں کو فتح کرنا ہی اصل فتح ہے عقل تو آسانی سے مغلوب ہوجاتی ہے لیکن عقل سے قلب تک کا فاصلہ جو بہت مختصر ہے دنیا کا طویل ترین راستہ ہے، مشرکین مکہ کو نبوت اور رسالت سے انکار نہیں تھا وہ تو پیغمبر کے منتظر تھے لیکن ان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ نبوت بنی ہاشم کو کیوںعطا کی گئی؟ ان کا اعتراض صرف یہ تھا کہ ’’کہتے ہیں یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ اترا کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں‘‘[الزخرف آیت ۳۱] وہ قرآن اور نبوت کا نزول طائف اور مکہ کے کسی رجل رشید پر چاہتے تھے لیکن رحمت الٰہی کفار مشرکین کی خواہش سے تقسیم نہیں ہوتی۔ انبیاء اور ان کے صحابہ کی اپنی امتوں سے ٹوٹ کر محبت اس راستے کو طے کرتی ہے یہ محبت ہی کفار کے قلوب بدلنے کا ذریعہ بنتی ہے یہ محبت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسالت مآبؐ اور صحابہ کرام کو ہدایت فرماتے ہیں کہ :
ھانتم اولاء تُحبونھُم ولا یحبونکم مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ [سورۂ ال عمران:۱۱۹] تم ان سے محبت رکھتے ہو لیکن وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، رسالت مآبؐ یعنی رحمت اللعالمین کو اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اے نبی کفار اور منافقین کے ساتھ سختی سے پیش آئیے یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ [سورۂ التوبہ: ۷۳ (ظفر اقبال،باب ۱۱، عقلی موشگافیاں اور دینی مزاج،ص۳۴۹ تا ۳۷

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…