جاوید احمد غامدی کے فلسفیانہ افکار کا جائزہ قسط اول

Published On February 13, 2024
غامدی صاحب اور شرعی پردہ

غامدی صاحب اور شرعی پردہ

عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں...

غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے،  كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ،  ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف...

قرآن اور غامدی صاحب

قرآن اور غامدی صاحب

ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش کرچکے مزید ایک تشریح ملاحظہ فرمائیں۔غامدى صاحب 'اسلام كے حدود و تعزيرات' پر خامہ سرائى كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "موت كى سزا قرآن كى رو سے قتل اور فساد فى الارض كے سوا كسى جرم ميں نہيں دى جاسكتى- اللہ...

رجم کی حد اور غامدی صاحب

رجم کی حد اور غامدی صاحب

اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے  اس پر دس سے زائد صحیح احادیث موجود ہیں  جن سے  واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ ۔ غامدی صاحب اسکے انکاری ہیں ۔ وہ...

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔ جمعے کی نماز کی عدمِ فرضیت پر جناب کا استدلال ہے کہ مسلم ریاست میں خطبہ سربراہِ ریاست یا اسکے حکم سے اسکے نمائندے کا حق...

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں ہے کہ عورت امام نہیں بن سکتی ۔ لیکن ایسا استدلال درست نہیں ہے ۔ ہم انہیں اجماعِ امت سے منع کریں گے کہ صحابہ میں ایسا کبھی...

عمران شاہد بھنڈر

چند ہفتے قبل جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ ایک بار پھر قرآن کے تصورِ تخلیق کو بروئے کار لاتے ہوئے’’ وجود‘‘ کے مسئلے کی وضاحت کررہے تھے ۔ غامدی صاحب اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ ’’قرآن سے پہلے سقراط و افلاطون کی جو تاریخ شروع ہوئی وہ ایک ہی چیز پر ارتکازِ توجہ کیے ہوئے تھی اور وہ وجود کا مسئلہ تھا ۔ ‘‘ یہ سُن کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ غامدی صاحب فلسفے کی تاریخ سے نابلد ہیں ۔ یونانی فلسفے میں ’’وجود‘‘ کے مسئلے کا باقاعدہ آغاز تو سقراط اور افلاطون سے قبل پارمیناءڈز سے شروع ہوتا ہے ۔ پارمیناءڈز ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنی نظم’’ فطرت‘‘ میں وجود کے مسئلے کو منطقی شکل میں پیش کیا، اور اسی وجہ سے پارمیناءڈز کو ’منطق‘ کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پارمیناءڈز سے قبل تقریباََ سارا ہی یونانی فلسفہ کائنات کی ماہیت دریافت کرنے پر لگا ہوا تھا، اور سقراط وہ پہلا فلسفی ہے جس نے کائنات یا وجود کی بجائے ’’انسان‘‘ اور اس سے منسلک اخلاقیات کو موضوع بنایا ۔ انہی معنوں میں سقراط کو فلسفے کا بانی خیال کیا جاتا ہے ۔ ارسطو نے اپنی کتاب بعنوان’’ مابعد الطبیعات‘‘ میں فلسفے کی تاریخ کا تفصیلی احاطہ کیا ہے ۔ سقراط کے بارے میں عظیم فلسفی ارسطو کے یہ الفاظ سقراط کی فکری ترجیحات کا بخوبی تعین کرتے ہیں :

’’سقراط اخلاقی معاملات میں مصروف تھا ، اس لیے اس نے کائنات کو نظر انداز کر دیا ۔ (مابعد الطبیعات، ص،16 ) ۔

افلاطون چونکہ سقراط کا شاگرد تھا، اس لیے اس کی توجہ کا مرکز بھی انسان سے جڑے ہوئے معاملات ہی رہے ۔ لہذا یہ دعویٰ قطعی طور پر باطل ہے کہ’’ سقراط و افلاطون سے جو تاریخ شروع ہوئی وہ ایک ہی چیز پر توجہ کیے ہوئے تھی اور وہ وجود کا مسئلہ تھا ۔ ‘‘مجھے فلسفے کے طالب علموں کو اس سنگین تاریخی غلطی سے بچانے کے لیے غامدی صاحب کے اٹھائے گئے اس باطل نکتے کی تصحیح کرنی پڑی ۔

غامدی صاحب ایک غلطی کرنے کے بعد ایک اور بڑی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سقراط و افلاطون سے جو تاریخ شروع ہوتی ہے جس سے ان کے بقول ’’وجود‘‘ کی بحث شروع ہوتی ہے اس کے لیے، بقول غامدی ’’یہ عالم اور اس عالم سے ماورا اگر کوئی قوت کارفرما ہے تو اس کو ایک حقیقت مان کر اس کی توجیح کرنا، یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا ۔ ‘‘ یہاں وہ جس نکتے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اس کا تعلق ’’ایک حقیقت‘‘ سے ہے یعنی وجود اور ماورائے وجود کو ’’ایک حقیقت‘‘ ماننا ۔ مجھے افسوس ہے کہ غامدی صاحب نے یونانی فلسفے کی ابتدائی نوعیت کی کتابیں بھی نہیں پڑھیں ، ورنہ وہ کم ازکم یہ غلطی نہ کرتے کہ سقراط اور افلاطون سے شروع ہونے والا یونانی فلسفہ کائنات اور ماورائے کائنات کو ’’ایک حقیقت‘‘ سمجھتا ہے ۔ فلسفے کے طالبِ علم اس فلسفیانہ قضیے سے اچھی طرح سے آگاہ ہوں گے کہ افلاطون کے فلسفے میں حقیقت کے ایک ہونے کے تصور کی نفی ہوتی ہے اور ’’دوئی‘‘ کا فلسفہ اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔ اور یہی دوئی کا تصور تھا جسے ارسطو نے افلاطون کے فلسفے کا تنقیدی محاکمہ کرنے کی جانب راغب کیا ۔ ارسطو نے افلاطون کے برعکس یہ دعویٰ کیا کہ پارٹیکولر کے بغیر یونیورسل کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جبکہ افلاطون یونیورسل کو پارٹیکولر سے الگ یعنی یونیورسل کو اس کی خود مختار حیثیت سے تسلیم کرتا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو ۔ کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…