غامدی صاحب کی انتہاپسندی

Published On July 26, 2024
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

 محمد عبدالاکرم سہیل

محترم جاوید احمد غامدی علم دین کے اعتبار سے دنیا کی ایک قابل قدر شخصیت ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں فرقہ بندی کو مٹانے کیلئے آپ نے جس کار تجدید کا کام انجام دیا ہے اور دین پر بات کرنے کاجو ڈھنگ آپ نے سکھایا ہے وہ نہایت ہی قابل تعریف ہے اور شاید پورے پاک و ہندمیں آپکا کوئی ثانی نہیں لہذا آپ پر تنقید گویا مجھ جیسے طالب علم کو زیب نہیں دیتا لیکن میرے کچھ اشکالات ہیں جو میں نذر قارئین کرتا ہوں۔
ایک طرف توداعش،القاعدہ اور طالبان وغیرہ جیسی تنظیمیں ہیں جو اسلامی حکومت کے نام پر ظلم و فساد کرکے انتہاپسندی پر ہیں تو دوسری طرف غامدی صاحب ہیں جو دین کا مخاطب صرف فرد کو بتلاکر،دین کا مقصد آخرت میں نجات اور اسے موت کا مسئلہ بتاکر انتہاپسندی کے دوسرے سرے کو تھامے ہوئے ہے اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ غامدی صاحب جیسے اہل علم ان تنظیموں کی انتہاپسندی کا سبب اسلامی حکومت اور اقامت دین کے نظریے کو بتاتے ہیں۔ لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے غلط طریقے کو اپناتا ہے تو اس کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ یہی انتہاپسندی کا سبب ہے یہ کہاں کا انصاف ہے اسکی مثال تو بالکل ایسی ہی ہے جیسے اگر کوئی شخص چوری کرکے صدقہ وخیرات کرتا ہے تو اسے دیکھ کر یہ کہہ دینا کہ خیرات و صدقات کے نظریہ نے ہی چوری کو جنم دیا ہے تو یہ بالکل غیر مناسب بات ہوگی۔
اب جہاں تک دین کا مخاطب فرد کی بات ہے ،تو دین کے احکامات خود اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ فرد سے بڑھ کر اجتماع سے متعلق بھی ہوں۔حرمت سود، چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو کوڑے مارنے اور قاتل سے قصاص لینے کے احکام خود یہ بتا رہے ہیں کہ دین صرف افراد سے نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت سے بھی متعلق ہوتا ہے۔ پھر دین کے بارے میں یہ تصور کہ وہ صرف جہنم کی آگ سے بچاتا ہے بالکل ایک ادھورا تصور ہے اور انسان کی یہ بہت بڑی غلطی ہوگی اگروہ دین کو صرف آخرت کی زندگی میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہو کیونکہ انسان روح اور جسم دونوں کا مجموعہ ہے اور اس کی زندگی دنیا و آخرت دونوں میں پھیلی ہوئی ہے لہذا اگر اسے کوئی ایسا مذہب دیا جاتا جو اسکی روح اور آخرت کی زندگی کے لئے تو کامیابی کا باعث بنتا مگر اس کے جسم اور اسکی دنیاوی زندگی کو کوئی فائدہ نہ پہنچاتا تو وہ دین اس کے لئے ایک نامکمل چیز رہ جاتی اور بقول مولانا مودودی یہ سینٹ پال کے ‘دین بلا شریعت’ والے نظریہ کی بات ہوجاتی۔
جب غامدی صاحب سے دین کے سیاسی اقتدار کی بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہے کہ ہم لوگ معاشرے سے زیادہ ریاست کو دین دار بنانا چاہتے ہیںپھر وہ بتلاتے ہیں کہ معاشرہ میں جتنا دین ہوگا تو اسکا ظہور آپ سے آپ ریاست میں بھی ہوجائے گا اسکے لئے کوئی ہدف بناکر کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات تو صد فیصد درست ہے کہ معاشرہ جتنا اسلامی ہوگا اتنے ہی معاشی اور سیاسی اقتدار کی جڑیں مضبوط رہیں گی لیکن یہ کہنا کہ اقتدار میں آپ سے آپ اسلام کا ظہور ہوگا یہ بات تو بالکل ہی ناممکن ہے ۔اسلئے کہ اقتدار ایک طاقت کا نام ہے اور طاقت آپ سے آپ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اسے جدوجہد اور ہدف بناکر حاصل کرناپڑتا ہے اگر وہ آپ سے آپ حاصل ہوجائے پھر تو وہ اپنے معنی میں کوئی طاقت ہی نہیں رہی اور جہاں تک دین کے احکامات کا تعلق ہے تو وہ بغیر سیاسی اقتدار حاصل کئے ممکن ہی نہیں اور دین میں احکامات کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی ایمان و عقیدہ کی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے جہاں ایمان و عقیدہ کی خرابی کو جہنم کا راستہ بتلایا ہے تو وہیں احکامات و قوانین کو توڑنے پر دنیا و آخرت کی تباہی کی وعیدیں سنائی ہے ۔ قرآن مجید کی اس آیت نے پرغور کرنے کی ضرورت ہے، ” پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اْس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے”سورہ المائدہ (5:50 )

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…