عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

Published On January 14, 2025
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے، تو مجھے اس پر تبصرے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی لیکن چونکہ انھوں نے فقہائے کرام، بالخصوص احناف، کی طرف کئی باتوں کی غلط نسبت کی ہے، اس لیے چند مختصر نکات پیشِ خدمت ہیں:۔
اولا ً: یہ کہ غامدی صاحب نے کہا کہ احناف ایسے نکاح کو باطل جبکہ دیگر فقہاء اسے فاسد کہتے ہیں۔ یہ دعوی اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ غامدی صاحب کو معلوم ہی نہیں ہے کہ عقود میں باطل اور فاسد کا فرق تو صرف احناف ہی کرتے ہیں، جبکہ دیگر فقہاء نکاح کیا، بیوع میں بھی باطل اور فاسد میں فرق نہیں کرتے۔ غامدی صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ دیگر فقہاء کی بہ نسبت احناف کے ہاں اس معاملے میں سختی زیادہ پائی جاتی ہے، جبکہ حقیقت میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
ثانیاً: یہ کہ احناف جب اسے باطل کہتے ہیں، تو دراصل وہ “قبل الدخول” کے مرحلے پر ایسا کہتے ہیں۔ اگر دخول ہو، تو پھر وہ اس پر نکاحِ فاسد کے احکام کا اطلاق کرتے ہیں۔ اس لیے قبل الدخول کے مرحلے پر احناف بھی دیگر فقہاء کے ساتھ متفق ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نکاح میں باطل اور فاسد یکساں ہیں۔ البتہ دخول کے بعد عقد باطل اور عقد فاسد میں احناف فرق کرتے ہیں، جو دیگر فقہاء نہیں کرتے۔
ثالثاًً: یہ کہ احناف اس عقد پر بعد الدخول عقد فاسد کے احکام کا اطلاق اس لیے کرتے ہیں کہ وہ شبہۃ العقد کے قائل ہیں، یعنی بظاہر چونکہ عقد ہوا ہے اس لیے اسے وہ شبہہ قرار دے کر اسے زنا کے احکام کے اطلاق کی راہ میں رکاوٹ مان لیتے ہیں۔ پھر چونکہ زنا کے احکام لاگو نہیں ہوتے، لیکن دخول ہوا ہے، اس لیے وہ مہر کے وجوب کے قائل ہوتے ہیں لیکن واضح رہے کہ یہ مہر عقد کی وجہ سے نہیں بلکہ دخول کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ اس لیے اگر عقد میں مہر مثل سے زیادہ مقرر کیا گیا ہو، تو مہر مثل ہی ادا کیا جائے گا اور اگر عقد میں مہر مثل سے کم مقرر کیا گیا ہو، تو مقررہ مہر ہی ادا کیا جائے گا کیونکہ یہ مہر مجبوری کی وجہ سے (کہ عقدِ صحیح کے بغیر دخول تو ہوگیا، لیکن زنا کے احکام کا اطلاق نہیں ہوسکتا) لازم کیا گیا ہے۔ پھر چونکہ دخول کے بعد حمل کا امکان ہے، اس لیے استبراء رحم کےلیے عدت بھی واجب ہوجاتی ہے۔ پھر یاد رہے کہ یہ عدت عقد کی وجہ سے نہیں بلکہ دخول کی وجہ سے واجب ہوتی ہے اور اس لیے یہ عدت عقدِ صحیح کے بعد کی عدت سے مختلف ہوتی ہے۔ پھر عدت کے دوران نفقہ بھی اسی مرد پر واجب ہوتا ہے کیونکہ عورت اس کے حق کےلیے محبوس کی جاتی ہے۔ پھر اگر حمل واقع ہوا ہو، تو بچے کا نسب بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس تعلق پر زنا کے احکام کا اطلاق نہیں ہوتا۔
رابعاً: یہ کہ چونکہ قانوناً یہ عقد غلط ہوا ہے، اس لیے مرد اور عورت کو باقاعدہ میاں بیوی نہیں قرار دیا جاسکتا اور ان میں تفریق لازم ہے، لیکن اس تفریق کو “فسخ” نہیں کہیں گے۔ غامدی صاحب کے داماد نے اسے فسخ کہا اور غامدی صاحب بھی اس پر تبصرہ کیے بغیر آگے بڑھ گئے۔ یہ فسخ نہیں، بلکہ تفریق ہے۔ واضح رہے کہ عورت بغیراس مردکی جانب سے “طلاق” دینے کے، اور بغیر عدالت کی جانب سے “تفریق” کیے، از خود بھی اس تعلق سے نکل سکتی ہے کیونکہ قانوناً تو اس تعلق کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ ایک نلیٹی (معدومیت) ہے۔ اگر یہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو ان پر لازم ہے کہ یہ نیا نکاح کریں (اور نیا مہر مقرر کریں)۔
خامساً: یہ کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ ان کا معاملہ لوگوں پر واضح نہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ قانون کی نظر میں تو یہ عقد ہوا ہی نہیں ہے۔ عقد باطل اور عقد فاسد میں فرق یہ ہے کہ عقد فاسد کا فساد دور کیا جائے، تو وہ صحیح ہوجاتا ہے اور نیا عقد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ عقد باطل تو سرے سے عقد ہی نہیں ہوتا، اس لیے نیا عقد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی نے 100 روپے دے کر 110 روپے لینے کا عقد کیا، تو 10 روپے کا اضافہ ربا ہے اور یہ عقد فاسد ہے۔ اس اضافے کی شرط دور کردی جائے، تو نیا عقد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ عقد صحیح ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اگر کسی نے خنزیر کا گوشت فروخت کیا، تو یہ عقد باطل ہے کیونکہ خنزیر کا گوشت مال ہی نہیں ہے جسے بیچا جاسکے۔ اسی طرح عدت کے دوران میں نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتا کیونکہ شریعت نے اس سے روکا ہے اور اس وجہ سے عدت گزرنے کے بعد نیا نکاح کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے گواہوں کی عدم موجودگی میں نکاح باطل ہے۔ بعد میں اگر گواہ لائے جائیں، تو وہ نئے ایجاب و قبول پر گواہ ہوں گے،جو نیا عقد ہوگا۔ ماضی میں کیے گئے ایجاب و قبول پر وہ کیسے گواہ ہوسکتے ہیں؟ (الا یہ کہ ایسی ٹائم مشین بنا لی جائے جس میں بیٹھ کر وہ ماضی میں جائیں اور ماضی کے ایجاب و قبول پر گواہ بن جائیں!)
سادساً: یہ کہ غامدی صاحب کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ عدت کے دوران میں نکاح کی ممانعت کے متعلق کوئی خاص شرعی حکم نہیں ہے۔ بھئی عدت کا مطلب ہی کیا ہے؟ یتربصن بانفسھن کامفہوم کیا ہے؟ کیا غامدی صاحب اور ان کے داماد نے اس پر غور کیا ہے کہ اگر عدت کے دوران میں خاتون کو کسی اور مرد سے نکاح کی اجازت دی جائے تو کتنی نصوص بالکل بے معنی ہوجاتی ہیں؟
سابعاً: یہ کہ عدت کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوئی، اس کا انحصار اس امر پر ہے کہ کیا خاتون کو حیض آتا ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو پھر تین حیض گزرنے پر، اور اگر نہیں، تو پھر تین (قمری) مہینے گزرنے پر عدت ختم ہوجاتی ہے۔ پہلی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ آج خاتون کو طلاق دی جائے، کل اس کا حیض شروع ہوجائے اور تین دن بعد حیض ختم ہوجائے، پھر پندرہ دن بعد حیض شروع ہو کر تین بعد ختم ہوجائے، پھر پندرہ دن بعد شروع ہو کر تین دن بعد ختم ہوجائے، اور خاتون کی عدت انتالیس دنوں میں ہی ختم ہوجائے۔
ثامناً: یہ کہ عورت کی عدت کب ختم ہوئی، اس کے متعلق اسی کی بات پر اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ اگر وہ انتالیسویں دن ہی کہہ دے کہ اس کی عدت پوری ہوگئی، تو خواہ اسے طلاق دینے والا شوہر اس کا انکاری ہو، اس کے انکار کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور عورت کی بات کا ہی اعتبار کیا جائے گا۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…