ریاست و فرد اور فکرِ غامدی کا تضاد

Published On November 22, 2023
قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

ڈاکٹر خضر یسین قانون اتمام حجت ایک ایسا مابعد الطبیعی نظریہ ہے جو ناسخ قرآن و سنت ہے۔اس "عظیم" مابعد الطبیعی مفروضے نے سب سے پہلے جس ایمانی محتوی پر ضرب لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اب قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تصدیق روئے زمین پر افضل ترین ایمانی اور...

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور جناب محمد حسن الیاس کی وڈیو کلپ پر میں نے تبصرہ کیا تھا اور ان کے موقف کی غلطیاں واضح کی تھیں۔ (حسب معمول) غامدی صاحب نے تو جواب دینے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے، لیکن حسن صاحب کی عذر خواہی آگئی ہے۔...

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے،...

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

مولانا محبوب احمد سرگودھا اسلامی عقائد انتہائی محکم ، واضح اور مدلل و مبرہن ہیں ، ان میں تشکیک و تو ہم کی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے عقائد کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے، عقائد کی حفاظت سے اسلامی قلعہ محفوظ رہتا ہے۔ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے کئی افراد اور جماعتوں...

مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن

مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن

بنیاد پرست غامدی صاحب لکھتے ہیں :۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقعِ بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں...

مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

بنیاد پرست قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا...

ڈاکٹر زاہد مغل

غامدی صاحب نہایت دلچسپ مفکر ہیں، انکے نزدیک ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ مذہب کی بنیاد پر (سواۓ دو معاملات، اقامتِ صلاۃ اور زکوۃ) افراد پر جبر کرے، مثلا انکے نزدیک ریاست افراد سے پردہ کرنے کا تقاضا نہیں کرسکتی۔ مگر دوسری طرف یہ ریاست کا حق اس قدر وسیع مانتے ہیں کہ اپنے مملکت کے تمام باشندوں کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ سب ایک ہی قسم کا بارہ سالہ تعلیمی نظام اختیار کریں اور اس ایک علاوہ جتنے تعلیمی نظام ہیں ریاست کو حق ہے کہ انہیں بذریعہ جبر و قانون ختم کردے۔ ہے نا مزے کا تضاد، یعنی جہاں ”مذہب کی بنیاد” پر جبر کرنے کی بات ہو وہاں ازروۓ قرآن ریاست کو اسکا حق حاصل نہیں (یعنی اس معاملے میں غامدی صاحب انارکسٹ مفکر بن جاتے ہیں جو ریاست سے فرد کی زندگی میں مداخلت کا ہر قسم کا حق چھین لینا چاہتے ہیں) مگر جونہی حاضر و موجود (سرمایہ دارانہ) نظام کی اطاعت کی بات آتی ہے غامدی صاحب کمیونیٹیرین مفکرین کی طرح ریاست کے اس حق کو فرد کی زندگی کے ہر شعبے پر پھیلا دینے کی شدید خواھش رکھتے ہیں۔

آخر اس دلچسپ تضاد کا راز کیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب حاضر و موجود ادارتی صف بندی کو غیر اقداری (نیوٹرل) سمجھے بیٹھے ہیں، انکے نزدیک تنویری  فکر انسانی عقل کے فطری ارتقاء کا اعلی اور غیر اقداری اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مجوزہ بارہ سالہ تعلیمی نظام (جو درحقیقت تنویری علوم کا مجموعہ ہے) کے جبر کو تو فطری اور جائز سمجھتے ہیں البتہ مذہبی نظام تعلیم کے جبر کو غیر فطری۔ اسی لئے وہ مذہب کی بنیاد پر جبر کو ریاست کا جانبدارانہ رویہ قرار دیکر غلط سمجھتے ہیں مگر حاضر و موجود علمیت کی بنیاد پر کئے جانے والے جبر کو غیرجانبدارانہ (گویا یہ فرد کی فطری صلاحیتوں کو اسکی حالت اصلی پر نمو دینے کا طریقہ ہے)۔ یہ اسی فکری خلجان کا نتیجہ پے کہ غامدی صاحب کے یہاں (قدیم معتزلہ کی طرح) مسلم اور کافر کے درمیان ایک عجیب وغریب کیٹیگری پائی جاتی ہے جو انکے نزدیک مسلم بھی نہیں ہوتی اور اسے کافر کہنا بھی جائز نہیں (گویا یہ کسی غیرجانبدار پوزیشن پر برجمان انفرادیت ہے)۔

غامدی صاحب (اور انکے فکری ہمنوا وحید الدین خان صاحب) کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ حضرات تنویری مفکرین کے اس پروپیگنڈے سے سخت متاثر و خائف ہیں کہ مذھبی ریاست چونکہ خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتی ہے لہذا یہ دیگر تصورات خیر کی بیخ کنی کرتی ہے جبکہ سیکولر ریاست غیر جانبدار، لہذا ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے۔ یہ حضرات سیکولر لوگوں کے اس جھوٹے پراپیگنڈے کا شکار ہوکر مذہبی ریاست کو بھی سیکولر ریاست کی طرح خیر کے معاملے میں غیرجانبدار ثابت کرنے کے جوش میں ریاست سے مذہب کی بنیاد پر جبر کرنے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سادہ لوح لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس کا نتیجہ ریاست کو غیر جانبدار بنانا نہیں بلکہ تنویری ڈسکورس کا پابند بنانا ہوتا ہے جو بذات خود جاہلیت کی طرف ایک جدید جانبدارانہ رویہ ہے۔ حضرت عمر (رض) کا آبِ زر سے لکھا جانے لائق قول ہے: ”جوشخص جاھلیت سے واقف نہیں وہ اسلام کی کڑیاں بکھیر کر رکھ دے گا”۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…