بینکوں کا سود اور جاوید احمد غامدی صاحب

Published On November 7, 2024
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

سلمان احمد شیخ

جناب جاوید صاحب نے اپنے حالیہ عوامی لیکچرز میں اس بات کی تائید کی ہے کہ روایتی بینکوں سے اثاثہ کی خریداری کے لیے کسی بھی قسم کا قرض لینا اسلام میں جائز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فائنانس لیز اور مارٹگیج فائنانسنگ سب اسلام میں جائز ہیں۔ وہ یہ بھی اصرار کرتے ہیں کہ ان معاہدوں میں کوئی ناانصافی شامل نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اثاثوں کی ملکیت حاصل کرنے کو آسان بنانے کے لیے بینکوں کی جانب سے یہ ایک خیر خواہانہ عمل ہے۔
اس نقطہ نظر کے جواب میں کچھ گذارشات پیش کی جاتی ہیں۔ روایتی بینک صرف قرض فراہم کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ قرض کی رقم اثاثوں کی خریداری کے لیے استعمال ہوتی ہے یا نہیں۔ روایتی فائنانس لیز یا مارٹگیج فائنانسنگ میں سود قرض کی منظوری کی پہلی تاریخ سے آخری تاریخ تک واجب الادا ہوتا ہے۔ اس بات کی کوئی رعایت نہیں ہوتی کہ اثاثہ قابل استعمال حالت میں کس وقت صارف کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر اثاثہ روایتی فائنانس لیز کے دوران ناقابل استعمال رہتا ہے تو سود اور اصل رقم کی ادائیگی سمیت قسطیں بغیر کسی وقفہ کے جاری رہتی ہیں۔ اگر سود کی رقم وقت پر ادا نہیں کی جاسکتی ہو تو ایک دن کی تاخیر پر بھی مالی جرمانے کے ساتھ واجب الادا سود پر مزید سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ مالیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ کس طرح مرکب سود تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔
روایتی بینک خود اپنے سود کے وصول کرنے یا مارک اپ کو کرایہ نہیں گردانتے۔ بلا وجہ ان کی طرف سے وکالت ایک عجیب بات ہے جب وہ خود اپنے آپ کو سود سے پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہے ہیں۔ تمام مالیاتی شعبہ سے منسلک ماہرین اور پیشہ ور حضرات جانتے ہیں کہ فائنانس لیز اور مارٹگیجز کی قسطیں مرکب سود کا فارمولہ استعمال کرکے نکالی جاتی ہیں۔ روایتی بینکوں کو اثاثہ کی قیمت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ بینک ایک مالیاتی بروکر کے طور پر محض اپنے قرض کو سود کے ساتھ واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی بینک بھی زیادہ تر بالکل سادہ اور عام کرایہ داری کا معاہدہ نہیں کرتے ہیں جس میں کلائنٹ اثاثہ استعمال کرکے لیز کی مدت کے بعد اسے واپس کر سکے۔ اسلامی بینک بھی لیز کاایسا معاہدہ کرتا ہے کہ کلائنٹ اثاثہ خرید کر اپنی ملکیت میں لے سکے۔ تاہم، اسلامی بینک اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اجارہ کی مدت کے دوران ملکیت بینک کے پاس رہے۔ وہ اثاثہ کی ملکیت سے متعلق اخراجات بھی براہ راست خود ادا کرتا ہے اور پھر کلائنٹ سے کرایہ طے کرتے وقت ان اخراجات کو شمار کرتا ہے کہ بعد میں کرایہ سے ان اخراجات میں اپنی سرمایہ کاری کو پورا کیا جاسکے۔ معاشی پائیداری اور مسابقت کے لیے اسلامی بینک اپنی لاگت اور متوقع منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے کرایہ وصول کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ڈپازٹرز (سرمایہ کاری کرنے والے) کو مارکیٹ کے موافق منافع فراہم کر سکے۔
اسلامی طریقہ تمویل پر کوئی معاشی نقطہ نظر سے تنقید کرسکتا ہے اس بنیاد پر کہ اس کے نتائج اور اثرات یکساں ہیں۔ مگر، اسلامی بینکاری پر تنقید کرتے ہوۓ روایتی بینکاری کی وکالت کرنا ناقابل تطبیق اور فہم ہے 1) جب کہ وہ نہ اثاثوں کی ملکیت لیتے ہوں, 2) نہ اس کا خطر مول لیتے ہوں, 3) نہ اثاثہ کو اپنے قبضہ میں لے کر اس کے مالیاتی اخراجات اٹھاتے ہوں اور 4) نہ ہی کرایہ کی وصولی میں اس بات کا لحاظ کرتے ہوں کہ اثاثہ موجود ہے یا نہیں, 5) قابل استعمال حالت میں کلائنٹ کو مہیا کردیا گیا ہے یا نہیں اور 6) مہیا کرنے کے بعد بھی لیز کے دوران قابل استعمال حالت میں رہتا ہے یا نہیں۔ یہ چھ نکات پھر پڑھ لیں۔
اسلامی بینکاری کے وسیع لٹریچر میں معاشی اور مالیاتی اثرات کے لحاظ سے تنقیدات پائی جاتی ہیں۔ مگر اسلامی بینکاری کے شریعہ کے مطابق ہونے کا انحصار شریعت کے اصولوں پر ہوتا ہے جیسا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ‘غیر سودی بینکاری’ میں اعتراضات کا جواب دیتے ہوۓ واضح کیا۔ کوئی بھی قابل فروخت چیز یا خدمت ہر ایک کی دسترس اور کم قیمت پر ہو, یہ ایک جائز خواہش ہوسکتی ہے۔ مگر اس بات کا نہ پایا جانا اس پروڈکٹ کو شریعت سے متصادم نہیں بنادیتا کہ وہ مہنگی ہے یا ہر ایک کی دسترس اور خریداری کی قوت سے باہر ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ‘غیر سودی بینکاری’ میں واضح کیا ہے کہ اگر اسلامی بینک اپنی موجودہ مالی خدمات میں منصفانہ تقسیم دولت کے وسیع البنیاد مقاصد حاصل نہیں کر پارہے ہیں، تو اس کا خود بخود یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودہ مالی خدمات شریعت کے مطابق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کی تعمیل ہر معاہدے میں شریعت کے قابل اطلاق قوانین کی عملداری پر منحصر ہے۔
اسلامی بینکاری کے بارے میں رائے قائم کرنے میں ان تمام باتوں کا لحاظ رکھنے کی ضرورت ہے جن میں اسلامی طریقہ تمویل روایتی بینکوں کے قرضوں سے مختلف ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اسلامی بینکاری کو تنقید کا ہدف بناتے ہوۓ کوئی بیک وقت روایتی بینکوں سے کسی بھی قسم کے اثاثوں کو خریدنے کے لیے قرض حاصل کرنے کو جائز قرار دے۔
جناب جاوید احمد غامدی صاحب اپنی کتاب ‘مقامات’ میں لکھتے ہیں: “اگر چیزیں قسطوں پر فروخت ہو رہی ہوں تو جب تک یہ قسطیں پوری نہ ہو جائیں، بینک بیچی ہوئی چیز کی ملکیت میں شریک رہے، ملکیت کے حقوق پورے کرے اور اس پر کرایہ وصول کرے”۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف اسلامی بینک ہی ان شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ناقابل فہم بات ہے کہ روایتی بینکنگ کو جن شرائط اور دلائل پر قابل قبول تصور کیا جارہا ہے, ان شرائط کو وہ پورا نہیں کرتے اور صرف اسلامی بینک ہی پورا کرتے ہیں۔ یہ باعث تعجب بات ہے کہ مصنف نے اسلامی بینکنگ پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، لیکن وہ روایتی بینکوں سے غیر مشروط طور پر فائنانس لیز اور مارٹگیج فائنانس لینے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس کو کم معلومات پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی بینکاری کا لٹریچر یا اس کے لیے جو دلائل مقبول ہیں، ان کا سہارا لے کر اور وہ دلائل لے کر اسلامی بینکاری پر نقد کرنا اور سودی بینکاری کے لیے جواز پیدا کرنا تعجب کی بات ہے۔
جہاں بینک اثاثہ کی ملکیت، قبضہ اور رسک نہیں لیتا ہے، وہاں دو مختلف اوقات میں صرف رقم کا تبادلہ قرض کے دائرے میں آئے گا اور ایسی صورتوں میں، تبادلے کی قدروں میں فرق ربا پر محمول ہوگا۔ ایسے لین دین میں سود چھوٹا ہو یا بڑا اور قرض کی رقم کو کس مصرف میں استعمال کیا جاۓ, اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

غامدی صاحب کی تقریر درج ذیل ویڈیو سے دیکھیں 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…