بیس رکعت تراویح اور غامدی صاحب کا موقف

Published On July 15, 2024
کیا اللہ حقوق العباد معاف کر سکتا ہے ؟

کیا اللہ حقوق العباد معاف کر سکتا ہے ؟

ناقد : شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی تلخیص : زید حسن غامدی  صاحب کا عموم پر رکھتے ہوئے یہ کہنا کہ " حقوق العباد" معاف ہی نہیں ہوتے ، درست نہیں ہے ۔ اللہ اگر چاہے تو حقوق العباد بھی معاف کر سکتا ہے ۔" ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا " میں عموم ہے ۔ البتہ" ان اللہ لا یغفر  ان یشرک...

موسیقی کی بابت غامدی صاحب کی رائے پر رد

موسیقی کی بابت غامدی صاحب کی رائے پر رد

ناقد : شیخ عبد الجبار بلال تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے موسیقی، میوزک ، انٹرٹینمنٹ  کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ جائز ہے یا ناجائز ؟ ارشاد فرمایا :  یہ سب حلال ہیں ۔ اور اپنے بیانیے کا مقدمہ اس طرح باندھا کہ "مختلف چیزوں کو حرام کہنا اور اسکے ذریعے سے استبداد پادریوں...

جمعہ کی نماز اور غامدی صاحب

جمعہ کی نماز اور غامدی صاحب

ناقد : شیخ عبد الجبار بلال تلخیص : زید حسن ایک سوال کیا گیا کہ بیرون ملک مقیم افراد کے لئے جمعہ کا کیا حکم ہے ؟ غامدی صاحب نے جو جواب عنایت فرمایا اس پر ہمارے کچھ ملاحظات ہیں ۔ غامدی صاحب نے تین باتیں کیں جو درج ذیل ہیں ۔ اول ۔ " جمعہ ریاست پر فرض ہے "۔ اگر اس سے انکی...

بینکوں کا سود اور جاوید احمد غامدی صاحب

بینکوں کا سود اور جاوید احمد غامدی صاحب

سلمان احمد شیخ جناب جاوید صاحب نے اپنے حالیہ عوامی لیکچرز میں اس بات کی تائید کی ہے کہ روایتی بینکوں سے اثاثہ کی خریداری کے لیے کسی بھی قسم کا قرض لینا اسلام میں جائز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فائنانس لیز اور مارٹگیج فائنانسنگ سب اسلام میں جائز ہیں۔ وہ یہ بھی اصرار کرتے...

نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت

نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت

حسن بن علی نزول عیسی کی بابت قرآن میں تصریح بھی ہے (وإنه لعلم للساعة فلا تمترن بها واتبعون، سورة الزخرف - 61) اور ایماء بھی (وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ،سورة النساء - 159؛ ويكلم الناس في المهد وكهلا، سورة آل عمران - 46؛ أفمن كان على بينة من ربه ويتلوه...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

ڈاکٹر محمد مشتاق ردِّ عمل کی نفسیات نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل پڑا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات اور دیر میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے۔ جنرل مشرف اور حکومت کا ساتھ...

سوال : جاوید احمد غامدی کے نزدیک تراویح کی نماز سرے سے ہے ہی نہیں, برائے کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں؟

جواب

بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا، البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن صحابہ کے شوق اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو!  اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ) جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة و الوتر‘‘. ( كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، ٢ ٤٩٦، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘. (كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیڈمی )

(المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: ٧٨٩، (١/ ٢٣٣) و رقم الحديث: ٥٤٤٠، (٤/ ١٢٦) ط: دار الفكر)

بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں کروایا تو ان پر نہ کسی نے نکیر فرمائی اور نہ ہی کسی نے مخالفت کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اجماع کیا، اور اس وقت سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے اور تمام فقہاء کے نزدیک بھی بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ  ہے ، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرم کی مخالفت اور گم راہی ہے۔

مرقاةاالمفاتیحمیں ہے

’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً‘‘. (كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ٣/ ٣٨٢، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے: ’’التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين‘‘. (كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٣، ط: سعيد) فقط واللہ اعلم

 

فتوی نمبر : 143909200213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…