محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...
امریکی جہاد اور غامدی صاحب کے بدلتے بیانیے
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...
تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...
شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...
۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...
پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
دو ہزار ایک (2001ء) میں غامدی صاحب نے فرمایا تھا کہ افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں تھا۔ ارتقا کے منازل طے کرنے کے بعد 2019ء میں غامدی صاحب نے اسے ظلم و عدوان کےخلاف جہاد کی مثال قرار دیا! مزید دو سال بعد امریکا کو بے آبرو ہو کر نکلنا پڑا، تو آپ اسے سپرپاو کا ایڈونچر کہنے لگے
سردست ہم یہ نہیں پوچھیں گے کہ کیا اسلامی شریعت کی رو سے جہاد ایک عبادت ہے یا نہیں؟ ہم اس وقت اس موضوع کے مذہبی، عقائدی، اصولی یا فکری مباحث میں بھی جانا نہیں چاہتے؛ بلکہ صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ غامدی صاحب بین الاقوامی قانون کے متعلق بنیادی باتوں سے بھی قطعی طور پر لاعلم ہیں اور محض اپنی سادہ لوحی کی بنا پر ایسے مفروضات قائم کیے ہوئے ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پہلے بین الاقوامی قانون میں جنگ کے جواز کے متعلق بنیادی باتیں نوٹ کرلیں۔
اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2 (4 )نے طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی پر پابندی عائد کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین اور ریاستوں میں ایک راے یہ ہے کہ یہ جامع پابندی ہے اب صرف ان صورتوں میں جنگ کی اجازت ہے جن کی صریح اجازت منشور نے بابِ ہفتم میں دی ہے؛ دوسری راے یہ ہے کہ منشور سے قبل بین الاقوامی عرف میں جن متعدد صورتوں میں جنگ کی اجازت تھی، وہ اب بھی باقی ہے۔ بعض کی راے یہ ہے کہ منشور کے بعد کے مختلف عوامل (سرد جنگ، سلامتی کونسل کی ناکامی وغیرہ) کی وجہ سے نیا عرف ایسا بنا کہ ریاستوں نے کئی صورتوں میں جنگ کو جائز ماننا شروع کردیا ہے۔
اس متنازعہ مسئلے کو چھوڑ کر اس بات پر آئیے کہ اقوامِ متحدہ کے منشور نے صراحتاً دو صورتوں میں طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کی صراحتاً اجازت دی ہے ۔ ایک، کسی ریاست کے خلاف “مسلح حملہ” ہو، تو اسے دفاع میں طاقت کے استعمال کا حق حاصل ہے (دفعہ 51)؛ اور دوسری ، کسی ریاست نے دوسری ریاست کے خلاف جارحیت کے عمل کا ارتکاب کیا ، یا امن کی خلاف ورزی کی ، یا اس سے امن کو خطرہ ہو (دفعہ 39) ، تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اس ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال کرسکتی ہے تاکہ (پہلی دو صورتوں میں ) بین الاقوامی امن واپس بحال کیا جائے یا (تیسری صورت میں) بین الاقوامی امن کو برقرار رکھا جاسکے (دیکھیے دفعہ 42)۔ سلامتی کونسل کے فیصلے پر عمل درامد یقینی بنانا تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے(دفعہ 25 و دفعہ 43)۔جن صورتوں میں جنگ کی اجازت کا صراحتاً منشور میں ذکر نہیں ہے، وہ ان کے علاوہ ہیں۔
پھر غامدی صاحب کیسے اتنا بڑا دعوی کرسکتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے منشور کے تحت جنگ کی ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے؟
دوسرا سوال اس سے زیادہ اہم ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے جنگ کو غامدی صاحب ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کیسے قرار دیتے ہیں؟ کیا خود سلامتی کونسل نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کررہی ہے؟ یہ تاویل پیش کرنے سے قبل کہ بین الاقوامی امن کی بحالی یا اسے برقرار رکھنے کی جنگ کو ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے، نوٹ کیجیے کہ سلامتی کونسل ایک سیاسی ادارہ ہےاور بین الاقوامی قانون کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ سلامتی کونسل قانون اور حق و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کےلیے نہیں سیاسی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے اور اسی وجہ سے سلامتی کونسل کے فیصلوں کو بین الاقوامی قانون کے مآخذ میں شمار نہیں کیا جاتا۔
سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان کو یہ حق کیوں دیا گیا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی “نہ” کہہ دے تو سلامتی کونسل کوئی کارروائی نہیں کرسکے گی (جسے عرفِ عام میں “ویٹو” کہا جاتا ہے)؟ بین الاقوامی قانون کی نصابی کتب میں اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ چونکہ “مجلسِ اقوام” کے میثاق 1919ء میں بڑی طاقتوں کےلیے ایسا کوئی اختیار نہیں مانا گیا تھا، اس لیے بڑی طاقتوں کی مرضی کے خلاف فیصلوں کا امکان تھا۔ پھر جب بعض ایسے فیصلے سامنے بھی آئے، تو بڑی طاقتوں نے مجلسِ اقوام سے باہر ہی اپنے فیصلے کرنے شروع کیے ، بلکہ مجلسِ اقوام کے فیصلوں کے خلاف فیصلے کرنے لگے اور یوں نہ صرف مجلسِ اقوام عضوِ معطل کی حیثیت اختیار کرگئی بلکہ بین الاقوامی امن بھی برقرار نہیں رہ سکا اور جلد ہی دوسری بڑی جنگ شروع ہوگئی۔ اس تجربے کی بنیاد پر دوسری بڑی جنگ جیتنے والی طاقتوں نے ضروری سمجھا کہ جنگ کے بعد نئے عالمی نظام کی تشکیل کرتے ہوئے اس طرح کی بڑی جنگ سے بچنے کےلیے نئی تنظیم میں ان بڑی طاقتوں کو “نہ” کہنے کا حق دیا جائے اور ان میں ایک بھی اگر “نہ” کہہ دے تو وہ تنظیم پھر اس معاملے میں آگے نہ بڑھ سکے۔
اس سارے فلسفے کا خلاصہ ایک جملے میں یہ ہے کہ سلامتی کونسل کا یہ اختیار امن یقینی بنانے کے لیے ہے، نہ کہ عدل قائم کرنے کےلیے! (اگرچہ ظلم کے ساتھ امن کے قیام کی توقع رکھنا محض دیوانگی ہے۔)
چنانچہ اگر کہیں ظلم کے پہاڑ بھی توڑے جارہے ہوں اور انسانیت تباہی کے دہانے پر بھی پہنچ گئی ہو، تب بھی سلامتی کونسل اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کرسکتی جب تک ان پانچ طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کےلیے وہاں کارروائی ضروری نہ ہوگئی ہو۔ اس کی مثالیں دیکھنی ہوں تو صرف فلسطین و کشمیر ہی طرف نہ دیکھیے، روانڈا میں دیکھ لیجیے کہ کیسے نوے کی دہائی کی ابتدا میں وہاں دو قبائل کی جنگ میں تقریباً دس لاکھ انسان مارے گئے اور تقریباً پانچ لاکھ عورتوں کی عصمت پامال کی گئی لیکن سلامتی کونسل تب تک کارراوئی نہیں کرسکتی جب تک بڑی طاقتوں کو وہاں سے لوٹ کے مال میں وافر حصے کا یقین نہیں دلایا جاسکا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے القاعدہ یا طالبان کے متعلق جو بھی قرارداد منظور کی ہے، کسی ایک قرارداد میں بھی اس نے امریکا کو افغانستان پر حملے کی اجازت نہیں دی، نہ ہی امریکا نے افغانستان پر حملے کےلیے سلامتی کونسل سے اجازت طلب کی کیونکہ وہ حقِ دفاع کا دعوی کررہا تھا اور حقِ دفاع میں جنگ کےلیے سلامتی کونسل کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (کیا نائن الیون کے بعد حقِ دفاع کے تحت امریکا کو افغانستان پر حملے کی اجازت تھی یا نہیں ؟ یہ ایک الگ مستقل موضوع ہے اور اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔)
غامدی صاحب نے افغانستان پر جن انیس ممالک کے حملے کو ظلم و عدوان کے خلاف جہاد سے تعبیر کیا تھا، وہ معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے ارکان تھے اور خود نیٹو نے اس حملے کو “اجتماعی حقِ دفاع” کی شکل کہا تھا، نہ کہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ، یعنی جو دعوی کرنے کی توفیق خود حملہ آوروں کو نہیں ہوسکی، وہ دعوی ان کی جانب سے غامدی صاحب کربیٹھے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامی جہاد اور عام اخلاقی دائرہ:۔...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )
مولانا صفی اللہ مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا...