اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

Published On October 31, 2024
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

ڈاکٹر محمد مشتاق

ردِّ عمل کی نفسیات

نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل پڑا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات اور دیر میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے۔ جنرل مشرف اور حکومت کا ساتھ دینے کی پاداش میں غامدی صاحب اور ان کے ساتھیوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئیں اور ان کے شاگرد رشید جناب سید منظور الحسن قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق صاحب کو، جو فوجی آپریشن کے دوران میں بھی مسلسل سوات جا کر یونیورسٹی کے پروجیکٹ پر کام کرتے رہے،2 اکتوبر 2010ء کو ان کے کلینک واقع مردان میں شہید کیا گیا۔ غامدی صاحب کو بھی ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ چنانچہ پہلے وہ کچھ عرصہ ملیشیا میں مقیم رہے اور پھر امریکا میں مستقل اقامت اختیار کرلی۔
پاکستان میں تشدد اور دہشت گردی کی لہر اس وقت اپنی انتہا کو پہنچی جب 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے بچوں اور اساتذہ کا قتلِ عام کیا۔ اس کے بعد ایک جانب ریاست نے پوری قوت استعمال کرنے کا ارادہ کیا اور نہ صرف فوجی آپریشن میں تیزی لائی گئی، بلکہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کےلیے 7 جنوری 2015ء کو آئین میں اکیسویں ترمیم بھی کرلی۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں غامدی صاحب نے ’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو 22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ میں شائع کیا گیا۔

ریاستی پالیسی کا اظہاریہ

اس پس منظر سے معلوم ہوا کہ جسے جناب غامدی جوابی بیانیہ کہہ رہے ہیں، وہ دراصل ریاستی پالیسی کا اظہاریہ ہے اور اس حیثیت سے اس میں اور بعض نامی گرامی علماے کرام کے دستخطوں سے جاری کے گئے اعلامیہ ’پیغامِ پاکستان‘ میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں کے ذریعے ریاست نے مذہب کے نام پر جاری تشدد اور دہشت گردی کا نظریاتی سطح پر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ ہو یا علماے کرام کا پیغامِ پاکستان، کوئی بھی از دل خیزد نہیں تھا اور اس وجہ سے کسی کو بھی بر دل ریزد نہیں کہا جاسکتا۔ سرکاری پروپیگنڈا مشین کا شور و غوغا ہے اور بس۔
’کافر‘ اور ’غیر مسلم‘ کے فرق کا مسئلہ ہی لے لیجیے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور کی درج ذیل تحریر میں غامدی صاحب اتمامِ حجت کے تصور کو ماننے کے باوجود بلاغت کا پورا زور لگا کر یہ بتاتے ہیں کہ جن غیر مسلموں تک رسول اللہ ﷺ کی دعوت پہنچی اور انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا، ان کا ٹھکانہ جہنم ہے

۔”ہر وہ غیر مسلم جسے نبی ﷺ کی دعوت پہنچی اور اس نے اس سے بے پروائی کی یا جان بوجھ کر اسے رد کردیا، اس نے یقیناً کفر کیا اور کفر کی سزا، قرآن مجید کی رو سے، جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی نعمت اس لیے عطا نہیں فرمائی کہ وہ دنیوی معاملات میں تو اس سے پوری طرح کام لے اور خود اس کی ہدایت کے معاملے میں اسے معطل کردے۔کسی شخص کو اگر یہ بتایا جاتا ہے کہ عرب کے ایک امی ﷺ نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس عالم کے پروردگار کی طرف سے پیغامِ ہدایت لے کر آیا ہے اور یہ پیغامِ ہدایت آج بھی قرآن مجید کی صورت میں ا س زمین پر موجود ہے، تو عقل کا تقاضایہی ہے کہ وہ سب کام چھوڑ کر اس پر غور کرے۔ یہ کوئی معمولی خبر نہیں ہے کہ اس نےسنا اور نظر انداز کردیا۔ یہ اس زمین پر انسان کےلیے سب سے بڑی خبر ہے۔اسے چاہیے کہ وہ اس خبر کو پوری توجہ کے ساتھ سنے اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس کے بارے میں ردّ و قبول کا فیصلہ کرے۔ وہ اگر اس خبر سے بے پروائی برتتا ہے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ وہ درحقیقت عالم کے پادشاہ سے بے پروائی برت رہا ہے۔ اس کے بعد اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ قیامت کے دن اس پادشاہ کو اس کی کچھ بھی پروا ہوگی۔ وہ اگر اس دن کمال بے نیازی کے ساتھ اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم دے گا، تو اس پر وہ یقیناً شکایت کا حق نہیں رکھتا۔ یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا جہنم ہی ہونی چاہیے۔ عقل کا قطعی فیصلہ یہی ہے اور کوئی انصاف پسند آدمی اسے ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔”۔

اگلے مرحلے میں جب ریاستی پالیسی تبدیل ہوگئی اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا دور آگیا، تو غامدی صاحب اس کے قائل ہوگئے کہ کسی کو غیر مسلم تو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن کافر نہیں، کیونکہ صرف کافر انھی کو کہا جاسکتا ہے جن پر رسول نے خود اتمامِ حجت کیا ہو

۔”اسلامی شریعت کے مطابق کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، حتی کہ کوئی اسلامی ریاست بھی کسی کی تکفیر کا حق نہیں رکھتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہے کہ اسلام سے واضح انحراف کی صورت میں کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے۔”۔

اس کے بعد جب نائن الیون ہوا اور ریاست اپنے مذہبی بیانیے سے یکسر منحرف ہوگئی، تو غامدی صاحب نے یہ موقف اختیار کیاکہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ کہ جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہو، اسے غیرمسلم بھی نہیں قرار دیا جاسکتا، خواہ اس کے عقائد قطعی طور پر اسلام کے مسلّمہ عقائد سے کے منافی ہوں

۔”اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔”۔

ان تینوں مرحلوں میں ان کا استدلال اتمام حجت کے نظریے سے ہی تھا اور تینوں مرحلوں میں وہ اپنی بات کو پوری قعطعیت کے ساتھ (’ہر شخص جانتا ہے‘) دین کے واحد صحیح حکم کے طور پر پیش کرتے تھے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ غامدی صاحب کے فکری ارتقا کی منزلیں ہیں کیونکہ اس بات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ ان تینوں مرحلوں میں ہر مرحلے پر ان کے فکری ارتقا کا سفر عین اسی سمت میں کیوں ہوا جو سمت ریاست نے اپنی پالیسی کےلیے چنی تھی؟
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ کوئی دینی موقف نہیں، بلکہ اسلام اور سیاست کے متعلق ریاست کی رائج الوقت پالیسی کا اظہاریہ ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…