ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون "اسلام اور تصوف" میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں: " ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا...
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط سوم
غلامی : پہلے، اب اور آئندہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر عموماًً مذہبی مسائل پر بحث چلتی ہے۔ بعض لوگ ایسے موقع کو مذہب پر اعتراض کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ایک مرغوب موضوع غلامی ہے اور یہ عموماً مسلمانوں کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کےلیے یا تو ماضی کی...
قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)
ڈاکٹر زاہد مغل یہ مکالمہ چند امور کو واضح کرنے کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔ "م ف" سے مراد مکتب فراہی کے منتسب ہیں اور "ف ر" سے مراد فقہی روایت کے منتسب۔ م ف: مدارس میں براہ راست قرآن مجید کی تعلیم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں کلام، اصول فقہ، فقہ، حدیث، لغات وغیرہ...
غامدی صاحب اور سائنس
محمد حسنین اشرف "حقائق کی وضاحت حقیقت نہیں ہوتی" یہ بات نہایت اہم ہے کہ آپ کسی علم کے بارے میں عمومی رائے کیا قائم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی عمومی رائے آپ کو پھر اس کی تھیوریز وغیرہ سے متعلق رائے قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس لیے سائنس پر میٹا لیول گفتگو کو پہلے کرنا...
علمِ کلام کی ضرورت و معنویت اور جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ
مشرف بیگ اشرف جس طرح مسلمانوں کی تاریخ میں، قانون کے لیے فقہ، اور قانون کي نظری بنیادوں اور مسلمانوں کے ہاں رائج لسانی نظریات کے لیے اصول فقہ میدان رہا ہے، اسی طرح علمیات، وجودیات، الہیات، قضیہ عقل ونقل اور نظریہ اخلاق کی بحث کے لیے علم کلام میدان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے...
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب
محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...
ڈاکٹر محمد مشتاق
بادشاہ کے بجائے بادشاہ گر
یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے کی ناکامی کے بعد بھی غامدی صاحب اور آپ کے ساتھی عملی سیاست سے یکسر الگ تھلگ نہیں ہوئے اور اگلے تجربے کےلیے انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کی طرف رخ کیا۔ ڈاکٹر فاروق صاحب کو یہ خوش فہمی لاحق تھی کہ وہ عمران خان کے مربی کا کردار ادا کرسکیں گے، لیکن انھیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ عمران خان کو اپنے طریقے پر چلانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ چنانچہ ایک جانب انھوں نے قومی سطح پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور صوبائی سطح پر عوامی نیشنل پارٹی کو منتخب کرکے ان کے ساتھ راہ و رسم بڑھائے، تو دوسری جانب ان کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم نے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے ’کاتبِ تقریر‘ کا مرتبہ حاصل کرلیا۔ اس کے بعد 1999ء میں ندیم صاحب کو حکومتِ پاکستان کے قائم کردہ ’کمیشن براے اسلام کاریِ تعلیم‘
(Commission for Islamization of Educaiton)
کا سیکرٹری بھی بنایا گیا۔ یہ امکان بھی پیدا ہوگیا تھا کہ ڈاکٹر فاروق صاحب کو نون لیگ کی جانب سے سینیٹ کےلیے ٹکٹ مل جائے گا، لیکن اس دوران میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا، تو ڈاکٹر صاحب نے ایک دن خود مجھے کہا کہ کسی اور پارٹی کا بیڑا غرق کرنا مقصود ہو، تو مجھے بتائیں کہ میں اس میں شمولیت اختیار کروں۔
فوجی آمریت کے زیرِ سایہ
جنوری 2000ء میں جب ڈاکٹر فاروق صاحب پہلی دفعہ مجھے غامدی صاحب سے ملوانے لاہور لے گئے، تو راستے میں انھوں نے بتایاکہ جب جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا، تو غامدی صاحب نے مجھے کہا کہ اب یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا۔کسے معلوم تھا کہ کچھ ہی عرصے میں غامدی صاحب انھی پرویز مشرف کی حکومت کے فکری رہنما کی حیثیت اختیار کرلیں گے۔ خیر، اس دوران میں ڈاکٹر فاروق صاحب نے غامدی صاحب اور صوبہ سرحد کے سیاست دانوں، بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے درمیان رابطے کےلیے پل کا کردار بھی ادا کیا اور ان کی ملاقاتیں بھی کروائیں۔
اسی دور میں غامدی صاحب نے کراچی میں ایک خطبہ بہ عنوان ’اسلامی علوم کے اساسی مسائل‘ دیا اور اس میں ان تین مسائل کا ذکر کیا جو ان کے نزدیک اساسی تھے: نبی اور رسول میں فرق؛ سنت اور حدیث میں فرق اور شریعت اور فقہ میں فرق۔ اس کے ساتھ ہی یوں کہیں کہ غامدی صاحب کے فکری سانچے کا خاکہ مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس خاکے میں تفصیلات کا ہی اضافہ کیا ہے، یا کہیں کہیں جزوی ترامیم کی ہیں۔
۔2001ء میں جنرل مشرف کا ایک پسندیدہ موضوع’جہاد اور دہشت گردی میں فرق‘ تھا۔ انھوں نے کئی بار اس موضوع پر گفتگو کی، یہاں تک کہ بھارت میں جا کر بھی انھوں نے کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد قرار دینے سے انکار کیا۔ اس دور میں متعدد جہادی تنظیمیں بھی سرگرم تھیں۔ ڈاکٹر فاروق صاحب نے ان دنوں جہاد اور دہشت گردی کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا، لیکن بہ وجوہ اس پر اپنے نام کے بجاے فرضی نام ’نذیر صادق‘لکھا۔ بعد میں جب پرویز مشرف کی حکومت اور غامدی صاحب کے ساتھی ایک پیج پر آگئے، تو یہ کتابچہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے نام سے بھی شائع کیا گیا۔
قبلے کی تبدیلی
یہ سلسلہ یونہی چل رہا تھا کہ نائن الیون ہوگیا، اور اچانک غامدی صاحب کو بریک تھرو مل گیا۔چنانچہ اکتوبر 2001ء میں غامدی صاحب کا تفصیلی انٹرویو روزنامہ پاکستان کے میگزین میں شائع ہوا جس کے سرورق پر غامدی صاحب کی بڑی تصویر کے ساتھ یہ سرخی لگائی گئی کہ ’افغانستان پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں ہے‘۔ اس انٹرویو میں غامدی صاحب نے نہ صرف یہ کہ امریکی حملے کو دہشت گردی قرار دینے سے انکار کیا، بلکہ دنیا بھر میں فساد اور تشدد کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کردی۔ ان کے شاگرد رشید، جناب خورشید ندیم نے بھی ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے عنوان سے کالم لکھا، جو جنرل پرویز مشرف کا نعرہ تھا، اور یوں انھوں نے نہ صرف مقتدر حلقوں کی توجہ حاصل کرلی، بلکہ غامدی صاحب کےلیے بھی راستہ مزید ہموار کردیا۔ غامدی صاحب کی اتباع میں ڈاکٹر فاروق صاحب نے بھی ’امت مسلمہ کے اہم مسائل اور ان کا حل‘ کے عنوان سے مضمون لکھ کر یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کشمیر و فلسطین سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، تو اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔
آمریت کی اسلام کاری
چنانچہ جلد ہی ریاست کے مذہبی مسائل کے حل کےلیے غامدی صاحب کو مقتدا کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ انھیں اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنایا گیا، جبکہ کونسل میں ایک مجلّے ’اجتہاد‘ کا اجرا کرکے خورشید ندیم صاحب کو اس کا ’مہمان مدیر‘ بنایا گیا۔ جنرل مشرف کی حکومت اور میڈیا، بالخصوص جنگ اور جیو گروپ کے اخبارات اور چینلوں، نے نے 2006ء میں حدود قوانین کے خلاف بھرپور مہم بھی چلائی اور اس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی خصوصی رپورٹ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بعد میں جب پرویز مشرف کی حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے کو کسی حد تک نظرانداز کرکے علماے کرام کی ایک کمیٹی کی بعض سفارشات قبول کرکے حدود قوانین میں بعض مجوزہ ترامیم نافذ کرنے سے گریز کیا، تو غامدی صاحب حکومت سے ناراض ہوگئے، لیکن باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ 2009ء میں سوات میں فوجی آپریشن کے بعد جب حکومت نے وہاں یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، تو ڈاکٹر فاروق صاحب کو سوات میں یونیورسٹی کے قیام کےلیے پروجیکٹ کا ڈائریکٹر بنادیا۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غلامی : پہلے، اب اور آئندہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد رمضان کے مہینے میں سوشل میڈیا پر عموماًً مذہبی...
قرآن کی تعلیم: فقہی روایت اور مکتب فراہی ( ایک مکالمہ)
ڈاکٹر زاہد مغل یہ مکالمہ چند امور کو واضح کرنے کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔...
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے...