ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے متعلق شریعت نے بس چند احکام ہی دیے ہیں۔ بسا اوقات سورۃ الحج کی آیت 41 کا حوالہ دے کر ان چند احکام کو ’بس چار احکام‘ تک محدود کردیتے ہیں: نماز قائم کرنا ، زکوۃ دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے...
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط اول
قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت
جہانگیر حنیف قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی...
قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت
ڈاکٹر خضر یسین قانون اتمام حجت ایک ایسا مابعد الطبیعی نظریہ ہے جو ناسخ قرآن و سنت ہے۔اس "عظیم" مابعد الطبیعی مفروضے نے سب سے پہلے جس ایمانی محتوی پر ضرب لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اب قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تصدیق روئے زمین پر افضل ترین ایمانی اور...
عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور جناب محمد حسن الیاس کی وڈیو کلپ پر میں نے تبصرہ کیا تھا اور ان کے موقف کی غلطیاں واضح کی تھیں۔ (حسب معمول) غامدی صاحب نے تو جواب دینے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے، لیکن حسن صاحب کی عذر خواہی آگئی ہے۔...
عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے،...
حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف
مولانا محبوب احمد سرگودھا اسلامی عقائد انتہائی محکم ، واضح اور مدلل و مبرہن ہیں ، ان میں تشکیک و تو ہم کی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے عقائد کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے، عقائد کی حفاظت سے اسلامی قلعہ محفوظ رہتا ہے۔ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے کئی افراد اور جماعتوں...
ڈاکٹر محمد مشتاق
۔22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ نے’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے جناب غامدی کا ایک کالم شائع کیا۔ اس’جوابی بیانیے‘ کے ذریعے غامدی صاحب نے نہ صرف ’دہشت گردی‘کو مذہبی تصورات کے ساتھ جوڑا، بلکہ دہشت گردی پر تنقید میں آگے بڑھ کر اسلامی قانون کے مسلّمہ اصولوں اور مسلمانوں کی علمی روایت کے اساسی تصورات ہی کی نفی کردی۔ بعض علماے کرام نے ان کے جواب میں مختصر تحریریں لکھیں، لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ غامدی صاحب کے اس جوابی بیانیے کا پس منظر پیش کیا جائے کیونکہ راقم کی ناقص راے میں اس پس منظر کی وضاحت کے بغیر اس کی درست تفہیم ممکن نہیں ہے۔اس باب میں اس جوابی بیانیے کاپس منظر اسی مقصد سے پیش کیا جارہا ہے۔
آزادی سے قبل اسلامی سیاسی نظام کی بحث
۔1930ء کی دہائی میں جب برصغیر میں آزادی کی تحریک ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگئی تھی، مولانا مودودی نے ماہنامہ ترجمان القرآن میں مضامین کا ایک اہم سلسلہ شروع کیا جو بعد میں کتابی صورت میں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش کے عنوان سے شائع کیے گئے۔ اس سلسلۂ مضامین میں نہ صرف مسلمانانِ ہند کے عملی سیاسی مسائل پر بحث تھی، بلکہ سیاست و ریاست کے اہم موضوعات پر اسلامی اصولی مباحث بھی شامل تھے۔ یہ نظری بحث جلد ہی عملی جدوجہد میں تبدیل ہوگئی جب 26 اگست 1941ء کو جماعتِ اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جماعت اسلامی میں آنے سے قبل مولانا اصلاحی کا موقف متحدہ قومیت کے نظریے سے قریب تھا، جس پر مولانا مودودی نے تنقید کی، لیکن جب جماعتِ اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا، تو مولانا اصلاحی ابتدا سے ہی اس کا حصہ بن گئے تھے۔اگلے تقریباً ڈیڑھ عشرے تک وہ جماعتِ اسلامی کا حصہ رہے اور اس کے نظم کا حصہ بن کر عملی سیاسی جدوجہد میں بھی شریک رہے اور سیاست، ریاست اور قانون کے بعض اہم موضوعات پر مضامین اور کتب بھی لکھیں۔ نیز آپ نے مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی کے دفاع میں کتابیں بھی لکھیں۔ مولانا اصلاحی کا درج ذیل اقتباس اسلام اور ریاست کے تعلق پر ان کے موقف کی توضیح کےلیے کافی ہے
“انسانی قانون کے قانون ہونے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس کو شیخِ قبیلہ یا بزرگ ِ خاندان کی منظوری حاصل ہے ، یا کسی عدالت نے اس پر عمل کیا ہے ، یاکسی حکومت نے اس کوتسلیم کیا ہے ۔ ۔۔ برعکس اس کے اسلامی قانون کی قانونیت ان چیزوں میں سے کسی چیز کی بھی محتاج نہیں ہے ۔ وہ بہرحال قانون ہے کوئی عدالت اسے مانے یا نہ مانے ، اور کوئی حکومت اسے تسلیم کرے یا نہ کرے ۔ وہ اس کائنات کے حقیقی مالک اور حکمران کا قانون ہے ۔ اگر کوئی عدالت یا حکومت اس کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے تسلیم نہ کرنے سے اس کی قانونیت متاثر نہیں ہوتی ،بلکہ خود وہ عدالت یا حکومت نافرمانی اور بغاوت کی مجرم ٹھہرتی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا ہے : وَمَن لَّمۡ يَحۡكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ( اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ نافرمان ہیں )۔”
مولانا اصلاحی کی جماعتِ اسلامی سے علیحدگی کا سبب یہ نہیں تھا کہ اسلام اور سیاست کے متعلق آپ کا اصولی موقف تبدیل ہوگیا ہو، بلکہ اختلاف کا تعلق جماعت کے امیر کے اختیارات اور مناسب تیاری سے قبل انتخابی سیاست میں شرکت کے فیصلےسے تھا۔
اقامتِ دین اور غلبۂ دین کے متعلق مولانا اصلاحی کا موقف
جماعتِ اسلامی سے الگ ہونے کے بعد بھی مولانا اصلاحی نے نظری طور پر اسلام اور سیاست کے تعلق پر مولانا مودودی کے موقف کے ساتھ کسی جوہری اختلاف کا اظہار نہیں کیا اور عملی طور پر بھی کچھ عرصے تک مولانا اصلاحی نے پاکستانی ریاستی قوانین کی ’اسلام کاری‘ اسلامائزیشن کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ انھوں نے اس مقصد کےلیے کام نہ صرف انفرادی سطح پر، بلکہ ریاستی ادارے کا حصہ بن کر بھی کیا۔ پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956ء کو نافذ کیا گیا۔ اس آئین میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان میں اسلامی احکام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا، نیز رائج الوقت تمام قوانین کو اسلامی احکام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے گا۔ اس مقصد کےلیے پارلیمان کی رہنمائی اور معاونت کےلیے 22مارچ 1957ء کو ایک کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور مولانا اصلاحی کو اس کا رکن بنایا گیا۔ کمیشن نے کچھ عرصہ کام کیا لیکن اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرکے آئین کو معطل کردیا ، تو یہ کمیشن بھی ختم ہوگیا۔
مولانا مودودی کے تصورِ دین پر تنقید
اسلام اور سیاست کے موضوع پر مولانا مودودی کے زاویۂ نظر سے مولانا اصلاحی نے تو نہیں، لیکن بعض دیگر اہلِ علم نے اختلاف کیا مگر یہ اختلاف زیادہ تر اسلوب پر گرفت یا ترجیحات کے تعین کے بارے میں تھا۔ البتہ مولانا وحید الدین خاں (م:2021ء) کی تنقید کی نوعیت مختلف تھی۔انھوں نے مولانا مودودی کے ’سیاسی اسلام‘ کو ’تعبیر کی غلطی‘ قرار دے کر ان کے تصورِ دین کو ہی ہدف بنایا۔ جناب غامدی خود کچھ عرصہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ رہے۔ پھر کچھ گفتہ اور کچھ ناگفتہ وجوہات کی بنا پر ان کا جماعتِ اسلامی کے ساتھ تعلق ختم ہوگیا۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے...
عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور...
عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے...