استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

Published On April 10, 2025
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...

نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام

نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام

احمد الیاس نائین الیون کے بعد امریکہ نے کئی مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر 'ماڈریٹ اسلام' کے پروجیکٹس شروع کیے۔ برنارڈ لوئیس، جان ایسپسیٹو جیسے مستشرقین اور 'اسلام ایکسپرٹس' کی رہنمائی بھی اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کو حاصل تھی۔ پاکستان میں بھی مشرف رجیم کی معاونت...

اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی

اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اس”فتویٰ“ میں سورۃ الانفال کی آیت 72 سے کیا گیا استدلال بالکل ہی غلط ہے۔ پہلے یہ آیت پوری پڑھ لیجیے (اس آیت کا اور نیچے دی گئی تمام آیات کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے):۔إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ...

طاقت کا کھیل ہے : ایسے ہی ہوتا ہے

طاقت کا کھیل ہے : ایسے ہی ہوتا ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد یہ غامدی صاحب اور ان کے متاثرین کے مرغوب جملے ہیں اور یہ بالکل ہی غلط ہیں، ہر لحاظ سے غلط ہیں اور یکسر غلط ہیں۔یہ بات مان لی جائے، تو نہ شریعت اور قانون کے تمام احکام معطل ہوجاتے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ انسانوں کی صدیوں کی کوششیں...

خودکشی اور شہادت کا فرق

خودکشی اور شہادت کا فرق

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ایک تو فقہائے کرام اس لحاظ سے فرق کرتے ہیں کہ موت کس کے فعل سے واقع ہوئی ہے؟ اگر موت ایسے فعل سے واقع ہوئی ہے جس کی نسبت دشمن کی طرف ہوتی ہے (بفعل مضاف الی العدو)، تو یہ شہادت ہے؛ اور اگر یہ اسی شخص کے فعل سے واقع ہوئی ہے، تو اگر یہ فعل سہواً ہوا...

غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون "اسلام اور تصوف" میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں: " ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

 

وہی ہوا جس کی توقع تھی!
کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے:
آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا، تو بات ٹی ٹی پی تک پہنچی اور ملک میں دہشت گردی کا طوفان آیا۔ ارے نہیں، صدی قبل اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا، تو بات ترکِ موالات اور ہجرت تک گئی اور نتائج مسلمانوں کو بھگتنے پڑے۔ اور تو اور مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی ڈیڑھ سال قبل جذباتی بات کی تھی، لیکن دوسرے علماء نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ارے بھئی، ایک عرب عالم نے بھی تو ابھی پچھلے دنوں فتوی دیا تھا اور غلط کیا تھا۔
اچھا، اور یہ چیخ و پکار وہ بھی کررہے ہیں جو خود اس مسئلے کی اپنی تشخیص کو دین کی رہنمائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تو کیا جو وہ مسلسل لکھ رہے ہیں، وہ صرف اس وجہ سے فتوی نہیں ہے کہ اس پر کسی دار الافتاء کی مہر نہیں ہے؟ باقی، وہ بے شک دین کی رہنمائی کے نام پر لوگوں کے حوصلے پست کرنے کا کام کرتے رہیں، خود ہی غلط سوالات مرتب کرکے ان کے غلط جوابات دیتے رہیں، لیکن اسے فتویٰ کا عنوان نہ دیں، تو بس معاملہ ٹھیک رہے گا؟
اور وہ جو امریکا میں بیٹھے سسر اور داماد وڈیو پر وڈیو بنا رہے ہیں، اور ابھی مزید بھی بنائیں گے، انھیں کیا کہیں؟ کیا داماد استفتاء نہیں کررہے اور سسر فتویٰ نہیں دے رہے؟ یا وہ بس شغل میلہ کررہے ہیں؟
استفتاء کیا ہوتا ہے؟ کسی معاملے میں دین کا حکم معلوم کرنے کےلیے دین کے عالم سے رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوال۔ فتویٰ کیا ہوتا ہے؟ اس سوال پر اہلِ علم کا جواب کہ دین اس سلسلے میں یہ رہنمائی دے رہا ہے۔ آپ خود، آپ کے استاذِ گرامی اور ان کے داماد، اور آپ کے ارد گرد بہت سے دوست اور اعوان و انصار، مسلسل یہی تو کررہے ہیں۔ غلط کررہے ہیں یا صحیح کررہے ہیں، اس سے قطعِ نظر، کر یہی رہے ہیں۔ پھر آپ کیسے یہ اعتراض کرسکتے ہیں؟
ہاں، جو اس کے قائل ہیں کہ دین سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسان وحی کی روشنی کے بغیر اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماریں، تو زیادہ بہتر ہے؛ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دین اور شریعت فرسودہ ہوچکے (والعیاذ باللہ)؛ وہ اعتراض کریں، تو کوئی بات بھی ہے۔ ان سے بحث کا طریقہ بھی مختلف ہے؛
لیکن جو خود سارا دن پوسٹوں پر پوسٹیں مارتے رہیں، وڈیو پر وڈیو بناتے رہیں، دین کی صحیح یا غلط تعبیر پیش کرتے رہیں، وہ کیسے اعتراض کرسکتے ہیں؟ وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فتویٰ لینا غلط ہے؟
یا ان کا اعتراض یہ ہے کہ فتویٰ ان سے، یا ان کے استاذِ گرامی سے لینے کے بجاے ”روایتی علماء“ سے کیوں لیا جارہا ہے؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی علماء شریعت کو ”اتمامِ حجت“ کی ڈنڈی مارنے کے بجاے ”کلاسیکی فقہ“ کی رو سے جواب دیں گے؟
اب چلتے چلتے کچھ ’علمی‘ غلطیاں بھی نوٹ کیجیے۔
ٹی ٹی پی کسی فتویٰ سے وجود میں نہیں آئی، بلکہ آپ اور آپ کے ارد گرد کے بہت سارے لوگ، آپ کے استاذِ گرامی سمیت، ہمیں مسلسل یہ بتاتے رہے ہیں کہ اس کے وجود میں آنے کے پیچھے کئی عشروں کی ریاستی پالیسی تھی، ’افغان جہاد‘ تھا، ’جہادی تنظیموں کی سرپرستی‘ تھی، ’ریاست کے مفاد‘ کی وجہ سے شروع کی جانے والی ’دوغلی پالیسی‘ تھی، ’آمرانہ حکومت‘ تھی، ’غیر دانشمندانہ‘ فوجی آپریشن تھے، وغیرہ وغیرہ۔ میں اس میں دو اسباب کا مزید اضافہ کیے دیتا ہوں۔ شاید اس استفتاء میں اٹھائے گئے سوالات درست نہیں تھے؛ اور شاید ان کے جوابات بھی درست نہیں دیے گئے؛
لیکن
سوالات اٹھانے اور جوابات طلب کرنے کو کیسے غلط کہا جاسکتا ہے؟
اسی طرح ترکِ موالات اور ہجرت کے متعلق ’مطالعۂ پاکستان کاآموختہ‘ دہرانے کے بجاے ’متبادل بیانیہ‘ کیوں نہیں سوچا جارہا؟ کیا ترکِ موالات اور تحریکِ رویشمی رومال کا کچھ تعلق تھا؟ کیا ان کا تعلق 1857ء کے ’جہاد‘ سے تھا؟ کیا اس ’جہاد‘ کا تعلق ’تحریکِ جہاد‘ سے تھا؟ کیا اس ’تحریکِ جہاد‘ کا تعلق ہندوستان کو ’دار الحرب‘ قرار دینے سےتھا؟ مزید پیچھے نہ جانا چاہیں، تو یہاں سے واپس آکر دیکھیے کہ کیا ’تحریکِ جہاد‘ واقعی بالاکوٹ میں ختم ہوگئی یا اس کے بعد بھی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں اس کا سلسلہ جاری رہا؟ حاجی صاحب آف ترنگزئی کا جہاد کیسے تھا؟ قائدِ اعظم نے میرے دادا علامہ مفتی مدرار اللہ مدرار کے ذریعے قبائلی زعماء اور عمائدین کے پاس کیا پیغام بھیجا تھا؟ ہندو اخبارات کیوں چلا رہے تھے کہ قبائلی لشکر آرہا ہے؟ قبائلی زعماء نے خان عبد الغفار خان کو خالی ہاتھ کیوں لوٹایا؟ پاکستان کے قیام کے اعلان کے موقع پر حاجی صاحب آف ترنگزئی کے فرزند امیر المجاہدین کیوں موجود تھے؟ کیوں آگے پیچھے ساری باتیں چھوڑ کر درمیان میں بس ترکِ موالات کا یہ نقصان ہوا کہہ کر آدھی ادھوری باتیں لوگوں کو سنا رہے ہیں؟
اور رہی بات سوالات کی،
تو اس طرح کے ’سوالنامے‘ تب کیوں قابلِ اعتراض نہیں ٹھہرتے جب وہ کسی مقامی یا بین الاقوامی این جی او کی جانب سے آئیں؟ تب کیوں انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جب وہ کسی امریکی یا یورپی یونیورسٹی کی جانب سے ’مدارس کے ذہین طلبہ‘ کو ’انگیج کرنے‘ کےلیے پیش کیے جائیں؟
ایسے ہی سوالات تھے جب 2005ء میں ایک مقامی این جی او نے بین الاقوامی فنڈنگ کی بنا پر ملک بھر میں لوگوں کو بھیج کر، اور پھر کانفرنسیں منعقد کرکے، ’ڈیبیٹ‘ شروع کی، تو اس ناچیز نے اس موقع پر کچھ سوالات کی تصحیح کرکے اور کچھ کے جوابات دے کر ایک مقالہ لکھا جسے ’الحق‘ نے شائع کیا۔ پھر 2007ء میں اس ناچیز نے اپنی جانب سے تفصیلی سوالات وضع کرکے ایک مقالہ لکھا جسے ’الشریعہ‘ نے شائع کیا۔ پھر ان میں بعض سوالات کے جوابات لکھے، تو انھیں بھی ’الشریعہ‘ نے ہی شائع کیا؛ پھر جب ان سب سوالات پر تفصیلی تحقیق کتاب کی صورت میں لکھی، تو اسے ’الشریعہ اکادمی‘ نے تین دفعہ (2008ء، 2012ء اور 2016ء میں) میں شائع کیا۔ آگے بھی سوالات سوچنے اور ان کے جوابات ڈھونڈنے کا سلسلہ جاری رہا، جو تا حال جاری ہے۔ ان جوابات کے سلسلے میں کبھی ’روایتی بیانیے‘ سے اتفاق ہوا، تو کبھی ’متبادل بیانیے‘ کی ایک آدھ بات درست لگی، لیکن ان دو عشروں میں یہ سفر رکا نہیں۔ اب نہیں رکے گا اور جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔
ان سوالات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جو لوگ دین سے رہنمائی چاہتے ہیں، وہ ’جذباتی تقریریں‘ کرنے یا ’کھوکھلے نعرے‘ بلند کرنے کے بجاے اصل مسائل پر قانونی انداز میں بحث کریں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے جو کہا تھا، وہ جذباتی بات نہیں تھی، بلکہ نپی تلی قانونی با ت تھی۔ ہاں، جہاں بات قانون کے بجاے پالیسی کی ہو، جہاں شریعہ کے بجاے سیاسہ کی ہو، تو ضرور نشاندہی کریں کہ یہاں تک مسئلہ قانونی ہے، اس کے بعد کا اختیار حکومت کے پاس ہے؛ بس یہ دھیان رہے کہ اس کے بعد بھی ہم اتنا ضرور پوچھیں گے کہ یہ سیاسہ ظالمہ ہے یا سیاسہ عادلہ، کیونکہ سیاسہ عادلہ صرف وہ ہے جو سیاسہ شرعیہ ہو۔
آپ خود بھی ان سوالات پر طبع آزمائی کرسکتے ہیں؛ یہ بھی بتاسکتے ہیں کہ یہ سوالات کیوں غلط ہیں اور درست سوالات کیا ہونے چاہئیں۔
یہی دعوت غامدی صاحب اور ان کے داماد کےلیے بھی ہے۔ ان کےلیے نئی وڈیو سیریز بنانے کا ایک بہترین موقع ہے اور میں گارنٹی دیتا ہوں کہ اگر وہ ان سوالات کے جوابات دینے کےلیے وڈیوز بنائیں گے تو انھیں بہت بڑی تعداد میں ‘ویوز‘ ملیں گے؛ اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان کی وہ وڈیوز ضرور دیکھوں گا، ان شاء اللہ، بشرطے کہ وہ انھی سوالات پر، اسی ترتیب میں، ایک ایک مسئلے پر اپنی راے دیں۔
اب جس کے جی میں آئے، وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا!

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…