نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ

Published On January 6, 2025
غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

صفتین خان جاوید احمد غامدی صاحب کا بنیادی استدلال ہے کہ ریاست کی بقا اور استحکام کا انحصار قومی سلامتی کے محکموں پر ہے، لیکن یہ بنیادی مقدمہ ہی ناقص اور غیر حقیقی ہے۔ کسی بھی ملک کے دفاعی محکمے اگر اپنے اصل دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت شروع کر...

نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ

نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ

جہانگیر حنیف فصل اوّل: تعارف مدرسۂ فراہی کا موقف ہے کہ نظم شرطِ کلام ہے۔ کلام نظم کے ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے اور نظم کے تحت ہی فہم کی تحویل میں آتا ہے۔ اُن کےنزدیک نظم کی نفی کلام کی فطری ساخت کا انکار اور کلام کے درست فہم میں رکاوٹ ہے۔ لہذا امام فراہی، مولانا اصلاحی...

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹  قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

جہانگیر حنیف

فصل اوّل: تعارف

مدرسۂ فراہی کا موقف ہے کہ نظم شرطِ کلام ہے۔ کلام نظم کے ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے اور نظم کے تحت ہی فہم کی تحویل میں آتا ہے۔ اُن کےنزدیک نظم کی نفی کلام کی فطری ساخت کا انکار اور کلام کے درست فہم میں رکاوٹ ہے۔ لہذا امام فراہی، مولانا اصلاحی اور علامہ غامدی نظم کو تشکیلِ کلام کے ساتھ ساتھ فہمِ کلام میں بنیادی عُنصر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ صاحبِ تفسیر بھی ہیں۔ اُن کی تفاسیر کو تصورِ نظم کے حق میں بطور حجت پیش کیا جاتا ہے۔ نظم کے اصول پر ہم متعدد پہلوؤں سے نقد کر چکے ہیں۔ اِس پر غامدی مکتبِ فکر کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ منظور الحسن صاحب المورد کی جانب سے ہماری تنقید کا جواب دینے کے لیے سامنے آئے اور محض اس موقف پر جم گئے کہ جب تک تم “البیان” پر کلام نہیں کرو گے، تمہاری تنقید لائقِ اعتناء نہیں ہوگی۔ یہ عجیب بات ہے۔ اصول پر تنقید اصولی پیرائے میں نہیں ہوگی، تو کیسے ہوگی۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کی خاموشی کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک معنی لاجواب ہونا ہے۔ بہرحال منظور الحسن صاحب کی فرمائش پر ہم نے اس تحریر میں “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔

فصل دوم: مقصودِ کلام اور طریقۂ کار

اس تقابلی مطالعہ سے مقصود یہ ہے کہ ہم دکھائیں کہ نظم کا تصور اپنے اطلاق میں اسی قدر لایعنی ہے، جس قدر اصول میں۔ یہ تشکیلِ کلام کی کوئی ناگزیر شرط ہے اور نہ فہم کلام کی۔ یہ بلا وجہ کی دھونس ہے۔ کلام کی فطری ساخت سے جڑ کر کلام کو سمجھیں، تو کلام خود بخود فہم کا موضوع بنتا ہے۔ نظم کا تصور ایک مصنوعی کنسٹرکٹ ہے۔ اس کا کلام کی فطری بناوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسے کلام پر خارج سے نافذ کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کا اظہار محض نظریاتی سطح پر دکھائی دیتا ہے۔ عملی جہات اِس کےاظہار سے بالکل خالی ہیں۔ اس نظریہ نے عملی جہات میں جو اظہار حاصل کیا ہے، وہ بالعموم روایت سے بیزاری، حدیث سے آزادی اور جدید دور کی کشمکش سے پیدا ہونے والے سوالات و جوابات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

اس تقابلی مطالعہ میں ہم نے علامہ غامدی صاحب کی فکر کے ایک بہت بنیادی نکتہ کو منتخب کیا ہے۔ وہ قانونِ رسالت ہے۔ اتمامِ حجت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اس دنیا میں غلبہ حاصل کریں۔ علامہ غامدی صاحب “دین حق” میں رقم طراز ہیں:” ’’رسالت‘‘ یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر فائز کوئی شخص اپنی قوم کے لیے اِس طرح خدا کی عدالت بن کر آئے کہ اُس کی قوم اگر اُسے جھٹلا دے تو اُس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اِسی دنیا میں اُس پر نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملاً اُس پر قائم کر دے.” علامہ صاحب آگے قرآن مجید کی آیت نقل فرماتے ہیں: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗٓ، اُولٰٓءِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ، اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.(المجادلہ ۵۸: ۲۰۔۲۱) پھر اس پر نوٹ فرماتے ہیں کہ “یہ اُس سنت الٰہی کا بیان ہے جو ازل سے لکھ دی گئی ہے کہ رسولوں کی بعثت کے بعد جو کشمکش حق و باطل کے مابین برپا ہوتی ہے، اُس میں غلبہ اللہ اور اُس کے رسولوں کو حاصل ہوتا ہے، اور جو شیاطین اپنے جتھوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ لازماً شکست کھاتے اور ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔” پس غامدی صاحب ان آیات کو اپنی فکر کے اِس بنیادی مقدمہ کے حق میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اِس فکر سے آگاہی رکھنے والے اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ غامدی صاحب کی تعبیرِ دین میں قانونِ رسالت نے کتنا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ بہرحال یہ آیات ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ ہم نے سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 21 کو روایتی تفاسیر میں اور پھر غامدی صاحب کی نظم کے اصول کے تحت لکھی جانی والی تفسیر میں دیکھا اور جاننے کی کوشش کی اصولِ نظم کن کن تفسیری امتیازات کو لازم کرتا ہے۔ پہلے ان تفاسیر کو دیکھتے ہیں اور پھر ان امتیازات کو متعین کرتے ہیں۔

فصل سوم: تفاسیر کا مطالعہ

ہم نے جن تفاسیر کو منتخب کیا ہے، وہ درج ذیل ہیں: تفسیر ابنِ کثیر, تفسیر قرطبی، تفسیر طبری اور تفسیر سعدی۔ تفسیر ابن کثیر کی خصوصی اہمیت ہے، کیونکہ اسے اکثر تفسیر بالماثور ہونے کا عنوان دیا جاتا ہے۔ مدرسۂ فراہی کے جید علماء کا خیال ہے کہ فراہی صاحب نے نظم کے تصور کو اصل میں تفسیر بالماثور کے بالمقابل پیش کیا تاکہ متنِ کلام کو ضروری اہمیت دی جائے اور اسے روایات و آثار کا تختۂ مشق نہ بنایا جائے۔ ہم اس تقابلی مطالعہ سے اُنھیں دکھانا چاہیں گے کہ اپنی تفسیری روایت کے بارے میں وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں، بلکہ یہ غلط فہمی کم اور بدگمانی زیادہ ہے۔ آئیے سب سے پہلے تفسیر ابنِ کثیر کو دیکھتے ہیں:

ابنِ کثیر رقم طراز ہیں:۔

۔”كتب الله لأغلبن أنا و رسلي” اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے اور اِسے کتابِ او٘ل میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ تقدیرِ الہٰی ہے، جس سے اختلاف ممکن ہے اور نہ جس کے رو بہ عمل ہونے میں کوئی رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے۔ اسے بدلا بھی نہیں جا سکتا۔ فیصلہ یہ ہے کہ نصرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے لیے مختص ہے اور اس کی نازل کردہ کتابوں اور مومنین کے لیے بھی۔ دنیا و آخرت دونوں میں۔ دوسرا یہ کہ عاقبت صرف متقین کے لیے خاص ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: “إنا لننصر رسلنا والذين آمنوا في الحياة الدنيا و يوم يقوم الأشه‍اد يوم لا ينفع الظالمين معذرته‍م وله‍م اللعنة و له‍م سوء الدار” بے شک ہم دنیا میں مدد کریں گے، اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہونگے، جس دن ظالمین کو ان کے عذر فائدہ نہیں پہنچا پائیں گے۔ ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا ٹھکانہ ہے۔ (غافر، 51-52) یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”كتب الله لأغلبن أنا و رسلي إن الله قوي و عزيز”۔ مطلب یہ کہ قوی و عزیز نے لکھ دیا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا۔ یہ تقدیر کا اٹل فیصلہ اور یقینی امر ہے۔ عاقبت دنیا و آخرت دونوں میں مومنین کے لیے مختص ہے۔

قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: “كتب الله لأغلبن أنا و رسلي” اس سے مراد قضائے الہیٰ ہے۔ ایک قول ہے کہ “كتب” سے مراد “كتب في اللوح المحفوظ” یعنی لوح محفوظ میں لکھ دینا ہے۔ قتادہ سے منقول ہے کہ کتب کے معنی قال کے ہیں۔ “أنا” یہاں توکیدا بیان ہوا ہے۔ رسلی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے بالحرب مبعوث فرمایا، وہ بالحرب غالب رہے گا۔ اور جسے بالحجت مبعوث کیا، اسے بالحجت غلبہ حاصل ہوگا۔ مقاتل سے منقول ہے کہ مؤمنین کہتے تھے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح مکہ نصیب فرمائی اور ہمیں طائف، خیبر اور اس کے گرد و نواح پر غلبہ عطا کیا، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں روم و فارس پر بھی فتح یاب فرمائیں گے۔ اس کے جواب میں عبداللہ بن ابن ابی سلول نے بولا: “کیا تم روم و فارس کو ان بستیوں کی مانند تصور کرتے ہو، جن پر تم غلبہ حاصل کر چکے ہو۔ خدا کی قسم، روم و فارس کثرت میں بہت زیادہ اور طاقت میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ تم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ ” لہذا یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیۂ مبارکہ کی نظیر “ولقد سبقت كلمتنا لعبادنا المرسلين إنه‍م له‍م المنصورون و إن جندنا له‍م الغالبون. ” یہ آیات ہیں۔

علامہ طبری فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، جو أم الکتاب میں کندہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اپنے ہر مخالف و معاند پر غالب رہیں گے۔ لکھتے ہیں کہ ہماری اس رائے کی تائید أھل تاویل سے ملتی ہے۔ انھوں نے بھی اس آیت کی تفسیر میں اسی چیز کو بیان کیا ہے۔ قتادہ سے منقول ہے کہ “كتب الله لأغلبن أنا و رسلي” سے مراد خدا کا قانون ہے، جسے اس نے نافذ فرما دیا۔ قتادہ سے مزید نقل فرماتے ہیں کہ “إن الله قوي و عزيز” سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ جل ثناءہ قوت و قدرت کا حامل ہے۔ اس کی قوت و قدرت اپنے ہر مخالف پر حاوی ہے۔ اپنے اور اپنے رسول کے مخالفین کو ختم کرنا، اس کے لیے چنداں مشکل نہیں۔ وہ عزیز اور زبردست بھی ہے۔ کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے دوست کو اللہ تعالیٰ کی ہلاکت سے بچا سکے، اس کی سزا سے چھڑا سے اور اس نقصان کی تلافی کر سکے، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر ہے۔

تفسیر سعدی میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ان کی ساتھ جو اس پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لائے۔ اس ایمان کے نتیجہ میں وہ فلاح پانے والے خدائی گروہ میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے نصرت کا وعدہ ہے۔ ان کے لیے فتح مقدر اور غلبہ تقدیر ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس وعدہ کی خلاف ورزی ممکن ہے اور نہ اس میں کسی قسم کا تغیّر ممکن ہے۔ کیونکہ یہ وعدہ اُس ذاتِ بابرکت کی جانب سے کیا گیا ہے، جو صادق، قوی اور عزیز ہے۔ جس چیز کا وہ ارادہ کرلے، کوئی چیز اسے ہونے سے روک نہیں سکتی۔

غامدی صاحب ان الفاظ میں ترجمہ فرماتے ہیں: “اس لیے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔” پھر تحریر فرماتے ہیں: یہ اُس سنت الٰہی کا بیان ہے جو ازل سے لکھ دی گئی ہے کہ رسولوں کی بعثت کے بعد جو کشمکش حق و باطل کے مابین برپا ہوتی ہے، اُس میں غلبہ اللہ اور اُس کے رسولوں کو حاصل ہوتا ہے، اور جو شیاطین اپنے جتھوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ لازماً شکست کھاتے اور ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔یہ اُس دعوے کی دلیل بیان ہوئی ہے جو اِس سے پہلے مذکور ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں: ’’…فرمایا کہ اللہ کوئی کم زور ہستی نہیں ہے، بلکہ وہ قوی و عزیز ہے۔ وہ جب اپنے بندوں کے پاس اپنا رسول بھیجتا ہے تو وہ رسول اللہ کا سفیر ہوتا ہے جو لوگوں کے پاس اُن کے حقیقی بادشاہ کے احکام سے آگاہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ اگر لوگ اپنے مالک حقیقی کے احکام کی بجا آوری کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ زمین میں اُن کو اقتدار بخشتا اور اُن کو اپنے افضال و عنایات سے نوازتا ہے اور اگر وہ خود اللہ سے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ باغی قرار پاتے ہیں اور اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ اِن باغیوں کے وجود سے اپنی زمین کو پاک کر دیتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۸/ ۲۷۳)

فصلِ چہارم: حاصلِ کلام

تقابلی مطالعہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس مطالعہ کے بعد بہت کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ پہلی چار تفاسیر نظم کے تصور سے “نابلد” مفسرین کی جانب سے لکھی گئی ہی ۔ پانچویں تفسیر نظمِ کلام کے قائلین کی دوسری اور تیسری پیڑھی کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ انھیں یقیناً مدرسۂ فراہی کے بانی کی بیکنگ حاصل ہے۔ لیکن فرق دیکھیں۔ فرق کہاں ہے۔ علامہ غامدی صاحب اور مولانا اصلاحی کے الفاظ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ہمارے روایتی مفسرین کے کلمات بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ فرق کہاں ہے؟ فرق قرآن مجید کی آیات اور ان کے فہم میں نہیں۔ قرآن مجید کو نظم کے تحت دیکھیں یا نہ دیکھیں۔ قرآن مجید کا مدعا واضح ہے۔ اس کا بیان دو ٹوک ہے۔ فرق قرآن مجید کے فہم میں نہیں، قرآن مجید سے باہر ہے۔ فرق ذہن کے اُن پیشگی مقدمات کا نتیجہ ہے، جنہیں وہ خارج سے قرآن مجید پر اپلائے کررہا ہے۔ جیسے قرآن مجید قطعی الدلالت ہے۔ قرآن مجید نظم کی ایک خاص صورت کا حامل ہے، وغیرہ۔ اگر یہ پیشگی مقدمات نہ ہو، پھر بھی قرآن مجید اپنے معنی کی درست ادائیگی کی مکمل قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ بلکہ ایسے مقدمات فہمِ قرآن کو آلودہ کرتے ہیں اور ذہن کو ان امور کی جانب موڑتے ہیں، جو ہرگز قرآن کا مدعا نہیں۔ قانونِ رسالت، قانونِ اتمام حجت اور سرگزشتِ انذار جیسے نجانے کتنے تصورات متنِ قرآن پر لاگو کیے گئے ہیں۔ قرطبی نے بھی ذکر کیا ہے کہ جن رسولوں کو بالحرب مبعوث کیا گیا، انھیں بالحرب غلبہ حاصل ہوگا۔ لیکن وہ ایک خاص قانونی ذہن سے قرآن مجید کا فہم نہیں رکھتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ذہن پہلے چند کُلی تصورات قائم کرتا ہے اور جب تمام اجزاء اس کُلی تصور کے افراد بننے سے ابا کرتے ہیں, تو وہ ان کی الٹی سیدھی تاویلات کرنا شروع کردیتا ہے۔ غامدی صاحب کی فکر کا یہ بنیادی اصول ہے اور اس نے انھیں بہت سے مسائل سے دوچار کیا۔ یعنی چیزوں کو ایک بے لچک قاعدہ ضابطہ میں باندھ دینا اور جب اُس قاعدہ کے افراد اُس کی ماتحتی قبول کرنے سے انکار کریں، تو اُن سے دھینگا مشتی کرنا۔

ان پانچوں تفاسیر کو دیکھیں، تو دل خوش ہوتا ہے کہ ہمارے مفسرین قرآن مجید کی تفسیر میں کس قدر موافقت کے حامل ہیں۔ حتی کہ مدرسۂ فراہی جو ہماری پوری علمی و تفسیری روایت سے عدم اطمینان کو اپنی تاسیس کی وجہ قرار دیتا ہے، وہ بھی قرآن مجید کے معانی متعین کرنے میں ہماری روایت کے ہم نوا ہے۔ قانونِ رسالت کے عنصر کو غامدی صاحب کی تفسیر سے منہا کردیں، تو معنی کی موافقت ذہن کو اطمینان اور دل کو راحت بخشتی ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے۔ قرآن مجید اپنے معانی کا محافظ ہے۔ ہم اگر قرآن مجید کو خارجی تھیوریز وغیرہ کا موضوع نہ بنائیں اور محض اس کے معانی تک محدود رہیں، تو ہمارے اختلافات کوئی خاص وقعت نہیں رکھتے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تفسیر ابنِ کثیر قرآن مجید کے متن کو کس مہارت سے کھول کر بیان کرتی ہے۔ لفظ لفظ کو پکڑ کر اور انھیں قرآن مجید کے دوسرے بیانات سے جوڑ کر، تاکہ تصریفِ آیات کے تحت متن اپنی تمام جہات سے واضح ہو جائے۔ وہ کسی بھی جگہ حدیث کو نقل نہیں کرتے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اس تفسیر میں آثار سے مدد نہیں لی گئی۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ  کے تحت ہمارے سارے تفسیری لٹریچر کو تفسیر بالماثور قرار دینا تجاوز ہے۔ قرطبی مقاتل سے اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر نقل کرتے ہیں، جو اس کے متن سے منافات نہیں رکھتی۔ وہ اس کی شانِ نزول کی روایت بھی بیان کرتے ہیں۔ مگر اس سے متن کے فہم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ باقی مفسرین بھی اپنے اپنے اسلوب میں ایک ہی بات کو بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی کے نزدیک بھی نظم تشکیلِ کلام کی شرط ہے اور نہ فہمِ کلام کی۔ اس کے باوجود انھیں قرآن مجید کا درست فہم حاصل ہے۔ علامہ غامدی صاحب بھی اس آیت کا ویسا ہی فہم بیان کرتے ہیں، مگر اسے ایک خاص قانون سے جوڑ دیتے ہیں۔ وہ قانون آیت میں موجود ہے اور نہ اس کے نظم میں۔ یہی وہ فرق ہے جس کی جانب اشارہ کرنا مطلوب تھا۔ دوسرا فرق آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا۔ وہ یہ کہ ہماری روایتی تفاسیر ایک خاص شان (گرینجر) کی حامل ہیں۔ وہ ہمیں نظم کے تحت لکھی جانے والی تفسیر میں دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ ان کا اردو میں ترجمہ راقم نے کیا ہے اور غامدی صاحب وغیرہ نے اسے اردو میں بذاتِ خود تحریر کیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…