نسخ قرآن سے متعلق غامدی صاحب کے متضاد و متناقض خیالات

Published On June 24, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

سید خالد جامعی

قرآ ن کی آیتوں کو صرف قرآن کے سواکوئی منسوخ نہیں کرسکتا: غامدی برہان ص ۲۰۱۳ء ص ۵۱ ، ۵۲
قرآن کی آیتوں کوصرف اور صرف تحقیق سے منسوخ کیا جاسکتا ہے : غامدی، میزان ۲۰۱۵ء،ص ۴۹
کتابیہ عورت سے نکاح کی اجازت مشرکانہ تہذیب پر دین کے غلبے سے مشروط تھی غامدی میزان ص ۴۱۷
مسلمان ذلت و محکومی کے عذاب میں مبتلا ہیں: غامدی میزان ۲۰۱۵ء ص ۵۴۹ مقامات ۲۰۱۴ء ص ۱۷۳، ص۱۷۴ ۔ ظاہر ہے عذاب میں مبتلا مسلمان کتابیہ سے نکاح نہیں کرسکتے لہٰذا اہل کتاب سے نکاح کی اجازت کی آیات بھی منسوخ ہیں
صرف مشرکین عرب سے نکاح ممنوع تھا مسلمان عورتیں مشرک مردوں سے نکاح کرسکتی ہیں : غامدی میزان ۲۰۱۵ء،ص ۴۱۶
عہد رسالت میں مسلمان عورتیں اہل کتاب مردوں سے شادی کرسکتی تھیں:غامدی میزان ص ۴۱۶
خدا کا پیغمبر بھی قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص ترمیم نہیں کرسکتا : غامدی میزان ص ۲۵
مگر خدا کا نیک بندہ غامدی صاحب تحقیق کے ذریعے قرآن کی آیات کی ترمیم کرسکتا ہے : غامدی میزان ص ۴۹
حکمت مستقل ہے مگر شریعت متغیر رہی ہے لہٰذا پورا قرآن بھی مستقل اورابدی نہیں متغیر ہے: غامدی میزان ص ۶۸
قرآن کی نو سورتوں کی کئی آیات متغیر ہیں مطلق نہیں حجت بھی نہیں اور منسوخ بھی ہیں
قرآن کی نو سورتوں کی چالیس آیات نص صریح یا حدیث کے بغیر غامدی صاحب کی تحقیق صریح سے منسوخ ہوچکی ہیں
قرآن صرف قرآن سے منسوخ ہوسکتا ہے تو قرآن غامدی صاحب کی تحقیق سے کیسے منسوخ ہوگیا؟

غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق دین حکمت اور قانون کے مجموعے کا نام ہے حکمت تو مستقل مطلق اور غیر متغیررہی ہے مگر قانون یعنی شریعت یعنی اللہ کی کتاب ہمیشہ بدلتی رہی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو اجتہاد کی مشقت سے بچا کر۔حالات زمانے کے مطابق خود ہی اجتہاد کرکے تمام امتوں پر بدلتے ہوئے حالات کے مطابق شریعت نازل کرتے رہے لہٰذا الکتاب شریعت ہمیشہ متغیر رہی ہے۔میزان میں لکھتے ہیں عبادت کی ما بعد الطبیعیاتی اساسات کو قرآن الحکمۃ اور مراسم حدود و قیود کو الکتاب کہتا ہے اس الکتاب کو وہ شریعت بھی کہتا ہے ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ [۴۵:۱۸] ۔الحکمۃ ہمیشہ سے ایک ہی ہے لیکن شریعت انسانی تمدن میں ارتقاء و تغیر کے باعث البتہ بہت کچھ مختلف رہی ہے[میزان ۲۰۱۵ء ص ۶۸، ۶۹]ظاہر ہے اسی فلسفے اور اسی اصول کے تحت کہ شریعت البتہ مختلف رہی ہے [میزان ۲۰۱۵ء ص ۶۸] شریعت یعنی الکتاب یعنی قرآن بھی مطلق نہیں متغیر ہے کیونکہ انسانی تمدن مسلسل ارتقاء و تغیر پذیر ہے لہٰذا س بدلتے ہوئے تہذیب و تمدن کے ساتھ شریعت کو اور۔ الکتاب یعنی قرآن کوبھی بدلتے رہنا چاہیے۔
قرآن کو قرآن حدیث اجماع نہیں تحقیق سے منسوخ کیا جاسکتا ہے
لہٰذا غامدی صاحب میزان کے باب اصول و مبادی میں لکھتے ہیں اس قرآن میں غلبۂ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد قتال کی آیات سے متعلق یہ بات پوری تحقیق سے متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ا بدی فیصلہ ہے اور کیا چیز اسی انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص قانون ہے جواب لوگوں کے لیے باقی نہ رہا [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۴۹]اس تحریر کے ذریعے غامدی صاحب نے قرآن یعنی شریعت کے احکامات کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک قطعی ابدی دوسرے غیر قطعی اور غیر ابدی جواب منسوخ ہوچکے ہیں انہوں نے یہ اصول بھی بتادیا کہ قرآن یعنی شریعت کے وہ حصے جو منسوخ ہوچکے ہیں ان کی منسوخی کا فیصلہ قرآن یا حدیث یا اجماع امت سے نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف تحقیق سے ہوگا۔دوسرے معنو ں میں قرآن کی آیات کی منسوخی کا ثبوت نص صریح سے نہیں نفس غامدی سے ملتا ہے جو نص صریح کا متباد ل ہے۔حالانکہ برہان میں ان کا اصول موجود ہے کہ قرآن کی آیتوں کو قرآن کے سوا کوئی منسوخ نہیں کرسکتا [برہان ۲۰۱۳ء ص ۵۱، ۵۲] مگر ۲۰۱۵ء کی میزان میں وہ فرماتے ہیں کہ تحقیق کے ذریعے قرآن کو منسوخ کیا جاسکتا ہے [میزان ص ۴۹] یہ دونوں اصول بھی Oxymoron ہیں۔
قرآن اور سنت کی بعض نصوص ابدی نہیں ہیں
با جماعت نماز کی سنت متروک ہوچکی ہے
غامدی صاحب نے میزان ۲۰۱۵ء کے باب قانون معاشرت میں بھی’’نکاح‘‘ کے موضوع سے پہلے یہ بات واضح کردی ہے کہ قرآن و سنت کی کچھ نصوص ابدی ہیں اور کچھ نصوص غیر ابدی۔ لکھتے ہیں ذیل میں ہم ان نصوص کی وضاحت کریں گے جو قرآن و سنت میں اب خدا کی ابدی شریعت کے طور پر بیان ہوئی ہیں [میزان ۲۰۱۵ء ص ۴۰۹] اس بیان سے معلوم ہوا کہ صرف قرآن کی تمام نصوص ابدی نہیں ہیں بلکہ سنت کی نصوص بھی ابدی نہیں ہیں جیسے با جماعت نماز کی سنت جس کے بارے میں غامدی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ تمام انبیاء کی مشترکہ سنت تھی [میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۱۳]لیکن رسالت ماب کی رحلت کے بعد اب با جماعت نماز کی ادائیگی (سنت نہیں) محض فضیلت کی چیز ہے [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۳۱۴]غامد ی صاحب نے میزان کے صفحہ ۴۹ کی مختصر ترین عبارت میں نسخ قرآن سے متعلق بارہ اصول بیان کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں (۱) قرآن شریعت ہے [ میزان ص ۴۹] (۲)شریعت کے کچھ احکام ابدی ہیں [ میزان ص ۴۹](۳) قرآ ن کے کچھ احکام کو خاص قانون کہتے ہیں [ میزان ص ۴۹] (۴)یہ خاص قانون اب شریعت نہیں ہے البتہ خیر القرون میں کفار و مشرکین پر عذاب آنے سے پہلے یہ خاص قانون شریعت کا حصہ تھا [ میزان ص ۴۹] (۵)یہ خاص قانون صرف رسالت مآب ﷺ کے مخاطبین ( ان کی قوم یعنی اہل عرب) کے لئے خاص تھا [ میزان ص ۴۹](۶) یہ خاص قانون عارضی [Temporary] تھا ابدی [Eternal]نہیں [ میزان ص ۴۹] (۷)لہٰذا یہ خاص قانون اب ہمیشہ کے لئے منسوخ ہوچکا ہے [ میزان ص ۴۹](۸) چونکہ یہ خاص قانون جو خاص قوم عرب کے لئے تھا اب منسوخ ہو گیا لہٰذا اب یہ شریعت نہیں ہے نہ خدا کا ابدی فیصلہ ہے [ میزان ص ۴۹](۹) قرآن کی نص یا آیت کو منسوخ کرنے کا اختیار نہ قرآن کو ہے نہ رسول کو ان آیات کی منسوخی کے بارے میں قرآن بھی خاموش ہے اور خدا کا رسول بھی خاموش ہے (۱۰) آیتوں کی منسوخی کا فیصلہ ہر شخص پوری تحقیق سے متعین کرسکتا ہے۔(۱۱) رسالت مآب کی احادیث اور آثار میں ان آیتوں کی منسوخی سے متعلق کوئی حکم نہیں ملتا لہٰذا اس معاملے میں انسانی تحقیق ہی حجت ہے تحقیق سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کونسی آیت منسوخ ہوگئی ہے اور کون سی شریعت ابدی نہیں ہے اس معاملے میں انسان خود کفیل ہے اور قرآن حدیث آثار روایات کا سرے سے محتاج نہیں تحقیق کو پرکھنے کا پیمانہ صرف تحقیق ہی ہے پیمانہ ہمیشہ باہر ہوتا ہے لیکن قرآن کی آیات کی منسوخی کے لیے کی گئی تحقیق کو پرکھنے کا پیمانہ اس کے اندر ہے یعنی تحقیق ہی اصل پیمانہ ہے(۱۲) اس تحقیق کو پرکھنے کا پیمانہ خود انسان ہی ہے اسے کسی دوسرے پیمانے پر نہیں پرکھا جاسکتا ۔
غامدی صاحب کی اس تحقیق کامطلب یہ ہو ا کہ شریعت الکتاب القرآن میں خدا کے دو فیصلے موجود ہیں (۱)ایک ابدی فیصلہ یعنی ابدی شریعت [Eternal Shariah]غیر منسوخ (۲) دوسری عارضی شریعت یا عارضی فیصلہ[Temporary Shariah] منسوخ شدہ[ میزان ص ۴۹] ۔
پھر غامدی صاحب خود ہی قرآن یعنی شریعت یعنی آخری کامل، ناقابل تغیرکتاب 3یعنی کتاب متغیر (کیوں کہ غامدی صاحب کے فلسفے میں شریعت متغیر ہے میزان ۲۰۱۵ء،ص ۶۸)کی ان غیر ابدی ، غیر شرعی (نعوذ باللہ )آیات احکام کی فہرست میزان کے باب قانون جہاد میں پیش کرتے ہیں جو اب منسوخ ہوچکی ہیں یہ آیات اب شریعت کا حصہ نہیں کیونکہ یہ صرف رسالت مآب کی قوم کے لیے نازل ہوئی تھیں ان منسوخ شدہ آیات کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱)سورۂ مجادلہ کی آیات ۲۰،۲۱ منسوخ ہیں،(۲)سورۂ توبہ کی آیت ۲۹ منسوخ ہے،(۳)سورۂ حشر کی آیت ۳ منسوخ ہے،(۴)سورۂ توبہ کی آیات ۳ تا ۵منسوخ ہیں،(۵)سورۂ محمد کی آیت ۴ منسوخ ہے،(۶)سورۂ نساء کی آیات ۷۵،۷۶ منسوخ ہیں،(۷)سورۂ بقرہ کی آیات ۱۹۰ تا ۱۹۴ منسوخ ہیں،(۸)سورۂ یونس کی آیت ۴۷ منسوخ ہے،(۹)سورۂ الحج کی آیت ۴۰ منسوخ ہے،(۱۰) سورۂ نور کی آیت استخلاف فی الارض منسوخ ہے۔
قانون معاشرت ، قانون معیشت اور قانون جہاد میں غامدی صاحب نے ان تمام آیتوں کو بھی منسوخ کردیا ہے جو لونڈی اور غلاموں سے متعلق ہیں ۔ اس کے علاوہ بقرہ اور ممتحنہ کی ان آیتوں کو بھی منسوخ کردیا ہے جو مسلمان عورتوں کو مشرک مردوں سے نکاح کو حرام قرار دیتی ہیں کیونکہ غامدی صاحب کا یہ اجتہاد ہے کہ جن مشرکین سے نکاح کی مخالفت کی گئی تھی وہ عرب کے مشرکین تھے غامدی صاحب کے اصول کے تحت مسلمان مردوں اور کتابیہ سے نکاح کی آیات بھی منسوخ ہیں کیونکہ اس نکاح کے لیے جو بنیادی شرط تھی کہ توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا اور مشرکانہ تہذیب پر مسلمانوں کا غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہوگیا [میزان ۲۰۱۵ء ص ۴۱۷] چونکہ آج مسلمان مغلوب ہیں شرک کا غلبہ ہے لہٰذا یہ آیتیں بھی منسوخ ہوگئی ہیں مقامات میں غامدی صاحب لکھتے ہیں مسلمان ذلت و محکومی کے عذاب میں مبتلا ہیں [مقامات ۲۰۱۴ء ص ۱۹۴] بنی اسمعٰیل اس وقت اسی عذاب سے دوچار ہیں [میزن ۲۰۱۵ء ص ۵۴۹] مسلمان بنی اسرائیل جیسے جرائم میں مبتلا ہیں [مقامات ۲۰۱۴ء،ص۱۷۳] مسلمان انحطاط و زوال کی حالت میں ہیں [مقامات ص ۱۷۳] مسلمانوں پر خدا کا عذاب ہے اس نے اپنے شدید بندے ان پر مسلط کردیے ہیں [مقامات ص ۱۷۴] چونکہ مسلمان زوال اور ذلت اور عذاب کی زندگی بسر کررہے ہیں لہٰذا ان حالات میں کسی کتابیہ سے کسی مسلمان کا نکاح حرام ہے لہٰذا یہ تمام آیات بھی فی الحال منسوخ ہوچکی ہیں اگر مسلمانوں کو کبھی غلبہ ملا اور شرک کا زور ختم ہوگیا اور عذاب کی یہ حالت تبدیل ہوئی تب مسلمان کتابیہ عورت سے نکاح کرسکتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ان احکامات میراث کو بھی غامدی صاحب نے منسوخ کردیا جو مسلمانوں کے کفارورثاء سے متعلق تھے ان کا فتویٰ یہ ہے کہ وہاں کفار سے مراد عرب کے مشرکین اور اہل کتاب تھے وہ نہیں رہے لہٰذا مسلمانوں کی میراث سے اب کافر ورثاء بھی حصہ پاسکتے ہیں لہٰذا معیشت ، معاشرت اور جہاد سے متعلق قرآن کی کئی آیتوں کو غامدی صاحب نے خود ہی منسوخ قرار دیا ہے جبکہ برہان میں انہوں نے یہ اصول نہایت کروفر سے خود بیان کیا ہے کہ قرآن کو صرف قرآ ن منسوخ کرسکتا ہے قرآن پر قرآن سے باہر کی کوئی چیز __جب تک وہ خود اس کی اجازت نہ دے کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتی [ غامدی برہان لاہور المورد طبع ہشتم جولائی ۲۰۱۳ء ص ۵۱ ، ۵۲]مسلمانوں کی میراث میں کافر رشتہ دار کو حصہ مل سکتا ہے
غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق حضور ؐ نے سورہ نساء کی آیت گیارہ کی شرح میں جو حدیث بیان کی کہ نہ مسلمان ان میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے (بخاری رقم ۶۷۶۴) [میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۹] اس کا تعلق قیامت تک کے تمام کفار منکرین مشرکین سے نہیں ہے رسالت مآب کا یہ حکم خاص کفار عرب سے متعلق تھا اور اب یہ حکم باقی نہیں رہا۔ غامدی صاحب کے الفاظ پڑھیے :
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ وَ لِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا [۴:۱۱]اگر کوئی اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجائے سراسر اذیت بن جائے تو حکم کی علت کا تقاضہ یہ ہے کہ (وارث کو) اسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے نبیؐ نے اسی کے پیش نظر جزیرہ نمائے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ا یک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے یعنی اتمام حجت کے بعد یہ منکرین حق خدا اور مسلمانوں کے دشمن بن کر سامنے آگئے (میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۹) غامدی صاحب نے یہی عبارت یہی دلیل قانون معیشت میں میراث کے تحت بھی پیش کی ہے [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۵۲۳] لہٰذا سورہ نساء کی آیت چار بھی اب ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوگئی اور اب کافر و مسلمان ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں کیوں کہ یہ اب ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں صرف عہد رسالت کے منکرین مشرکین اہل کتاب مسلمانوں کے اور مسلمان ان کے دشمن تھے۔
مسلمان عورتیں مشرک مردوں سے نکاح کرسکتی ہیں
عہد رسالت میں اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتوں کا نکاح حلال تھا
قانون معاشرت میں لکھتے ہیں البقرہ کی آیت ۲۲۱ اور سورہ ممتحنہ کی آیت ۱۰ میں جن کافروں سے نکاح ممنوع قرار دیا گیا ہے (یعنی مسلمان عورتوں سے جن کافروں کا نکاح ممنوع ہے) اس کا باعث بھی شرک ہے آیت سے واضح ہے کہ اس میں کافروں سے مراد مشرکین عرب ہیں [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۴۱۶] اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تمام مسلمان عورتیں تمام مشرکین اور کفار اور اہل کتاب سے شادی کرسکتی ہیں بلکہ آیت سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ عہد رسالت میں بھی مسلمان عورتوں کا نکاح صرف اور صرف مشرک مردوں (مشرکین عرب) سے حرام تھا اور اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتوں کا نکاح جائز تھا۔یہ تمام نتائج غامدی صاحب کے اصول استقراء کے تحت نکالے جارہے ہیں کیوں کہ وہ قرآن سے اسی ذریعے طریقے اور منطق سے احکام اخذ کرتے ہیں ایک ٹی وی چینل پر ڈاکٹر زبیر سے گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ مسلمان مرد کسی بھی عورت سے مصافحہ کرسکتا ہے قرآن نے اسے ممنوع قرار نہیں دیا اسی اصول کی بنیاد پر انہوں نے سور کے گوشت کو صرف کھانا حرام قرار دیا اس کے دیگر تمام استعمالات [All other uses] کو انہوں نے جائز قرار دیا [میزان ۲۰۱۵ء ص ۶۳۷]غامدی صاحب کے فلسفے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بقرہ کی آیت ۲۲۱ اور ممتحنہ کی آیت ۶۰ بھی منسوخ ہوچکی ہیں ان کا حکم اب مسلمان عورتوں کے لیے باقی نہیں رہا۔
مسلمان مرد پانچ شرائط کے ساتھ کتابیہ سے نکاح کرسکتا ہے
مسلمان عورت بغیر کسی شرط کے مشرک مرد سے نکاح کرسکتی ہے
مسلمان مرد اگر کسی کتابیہ سے شادی کرنا چاہے تو اس کی پانچ شرطیں غامدی صاحب نے یہ بیان کیں (۱)عورت پاک دامن ہو، (۲) عورت کسی کتاب اللہ کو ماننے والی ہو (۳)نکاح کے وقت مشرکانہ تہذیب پر اسلام کا غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہو (۴) کتابیہ سے اسلام نے نکاح کی اجازت دی تو یقیناًاس وقت کے حالات اور مسلمانوں کے غلبے کا بھی اس اجازت سے تعلق تھا ۔(۵)کتابیہ سے نکاح کے وقت توحید کے معاملے میں سر زمین عرب میں کوئی ابہام باقی نہ رہا تھا۔
غامدی صاحب ان پانچ شرائط کے ساتھ آج بھی مسلمان مرد کو کتابیہ سے نکاح کی اجازت کے قائل ہیں مگر مسلمان عورت کی مشرک مرد سے شادی کے سلسلے میں انھوں نے ان پانچ شرائط کو سرے سے نظر انداز کردیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا قانون معاشرت بھی Oxymoron ہے۔ اور اس کا مقصد مسلمان عورتوں کو کافر شوہروں کے سپرد کردینے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان عورتیں مشرکین اور کفار سے نکاح کرسکتی ہیں تو کیا مسلمان مرد بھی کتابیہ اور مشرکہ عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں یا نہیں اس کے جواب میں غامدی صاحب میزان کے باب قانون معاشرت میں لکھتے ہیں قرآن نے یہود و نصاریٰ کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجاز ت دی ہے المائدہ ۵۰:۵ اس آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی جب توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا اور مشرکانہ تہذیب پر اس کا یہ غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہوگیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی یقیناًدخل ہے چنانچہ اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے وقت یہ چیزیں بھی اس زمانے میں لازماً ملحوظ رہنی چاہیے [میزان ۲۰۱۵ء ص ۴۱۷]ایک جانب غامدی صاحب مسلسل قرآن کی آیات کو مسلسل منسوخ کررہے ہیں لیکن غامدی صاحب ہی کے اصول کے تحت قرآن کو صرف قرآن ہی منسوخ کرسکتا ہے [برہان ۲۰۱۳ء ص ۵۰،۵۱] لہٰذا اس اصول کے تحت ان آیتوں کے بارے میں قرآن کی کوئی آیت وضاحت کرے کہ یہ آیتیں منسوخ ہوچکی ہیں لیکن غامدی صاحب نے قرآن کو منسوخ کرنے کے لیے کوئی آیت پیش نہیں کی اس کا مطلب یہ ہوا کہ غامدی صاحب خود اپنے تخلیق کردہ اصولوں کی پیروی بھی نہیں کرتے حالانکہ انہی کا اصول ہے کہ مجتہد کا غلط اجتہاد بھی کم از کم اس کے لیے حجت ہے میزان کے باب قانون عبادات میں لکھتے ہیں آدمی اپنے اجتہاد کے مطابق کسی چیز کو دین و شریعت کا تقاضہ سمجھتا ہے تو اس کی خلاف ورزی اس کے لیے جائز نہیں ہے چنانچہ قرآن نے اسے ضمیر کے ساتھ خیانت سے تعبیر کیا ہے [میزان ۲۰۱۵ء ص ۳۶۶] جو شخص ضمیر کے ساتھ خیانت کا مرتکب ہو کیا اس سے دین اخذ کیا جاسکتا ہے؟
غامدی صاحب کے اصول کے تحت کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی
غامدی صاحب کی تحقیق ہے کہ جہاد سے پہلے جہاد کی اجازت کے لیے نازل ہونے و الی پہلی سورت محمد کی آیت چار میں غلام و لونڈی بنانے کی ممانعت کردی گئی تھی قیدیوں سے یا احسان ہوگا یاانھیں فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا [میزان ۲۰۱۵ء ص ۶۰۲] لہٰذا یہ آیت بھی جو غلام و لونڈیوں سے متعلق تھی منسوخ ہوگئیں اور قرآن میں جہاں جہاں لونڈی غلام سے متعلق آیات ہیں مثلاً النساء کی آیت ۲۲ تا ۲۴ [میزان ۲۰۱۵ء ص ۴۰۹] سورہ احزاب کی آیت ۵۰،۵۱،۵۲ [میزان ص ۴۲۸] المومنون کی آیت ۵ تا ۷[مقامات ۲۰۱۴ء ص ۲۶۰] النور آیت ۳۳ [میزان ص ۴۷۷] النساء کی آیت ۲۵ [میزان ص ۴۷۹] تو بہ کی آیت ۶۰ (میزان ص ۴۸۰) النساء کی آیت پندرہ سولہ (میزان ص ۶۲۲) وہ سب منسوخ ہوگئیں لیکن قرآن کی کسی آیت میں ان کی منسوخی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب کے اصول کے تحت کہ قرآن کو صرف قرآن منسوخ کرسکتا ہے [برہان ۲۰۱۳ء ص ۵۰،۵۱] قرآن کی کوئی آیت سرے سے منسوخ ہی نہیں ہوئی۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…