مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

Published On November 20, 2024
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

حسان بن علی

اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔

غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش کے لشکر پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلے تھے نہ يہ کہ پہلے ابو سفیان کے قافلے کے تعاقب میں اور بعد میں لشکر قریش کی جانب. حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا اولا ابو سفیان کے تجارتی قافلے کا قصد کرنا روایت (سیرت ابن اسحاق، مصنف عبدالرزاق، جامع البیان طبری، دلائل النبوة البيهقي) میں صراحتا بیان ہوا ہے. لیکن مولانا اصلاحی نے سیرت کے اس واقعے کو بزعم خود خلاف قرآن قرار دیا (ان سے پہلے مولانا مودودى اور علامہ شبلی کی بھی یہی رائے تھی). اس روایت کے انکار کے پیچھے کہیں تو ان کے قرآن کا از خود فہم ہے تو کہیں پس منظر میں عقلی طور پہ اس چیز کو قبول نہ کر سکنا کہ مسلمان تجارتی قافلے پر بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں جس میں لوگوں کا حاجات کا سامان ہو، حالانکہ جس طرح حربی کافر کا خون مباح ہوتا ہے اسی طرح اس کا مال بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارتی قافلے پر حملہ کرنا مال غنیمت کو حاصل کرنے کے سبب تھا جیسا کہ روايت میں بیان ہوا (لعل الله أن ينفلكموها)۔

مدرسہ فراہی جب قران کو حدیث پر حکم بنانے کی بات کرتا ہے تو اس کا اطلاق درحقیقت ان کے فہم قرآن (جو نظم قرآن اور سیاق کلام کی صورت میں برآمد ہوتا ہے) كو حدیث کے ذریعے برآمد ہونے والے فہم قرآن پر ترجیح دینے کی صورت میں ہوتا ہے. چاہیے تو یہ تھا کہ اگر قرآن کے بیان میں ایک سے زائد احتمال موجود ہے اور روايت کسی ایک احتمال کو واضح کر دیتی ہے تو روايت کی جانب رجوع کیا جائے اور اصول بھی یہ ہے کہ محتمل بیان کو غیر محتمل بیان کی جانب پھیرا جائے. اس کے بجائے امام حمید الدین فراہی نے (نظام القرآن وتأويل الفرقان بالفرقان میں) جو اصول وضع کیا اس کی روشنی میں قرآن کا بیان (اپنے نظم اور سیاق کلام کی روشنی میں) ہر صورت غیر محتمل (قطعى دلالت) ہے اور اخبار احاد کے رد و قبول کے بارے میں قرآن کا غیر محتمل بیان ہی حجت ہے اور اسے میزان کی حیثیت حاصل ہے. (أن القرآن هو الحاكم عند اختلاف بالأحاديث، وقال في موضع اخر فينبغي لنا ألا ناخذ منها إلا ما يكون مؤيدا للقرآن وتصديقا لما فيه)

مولانا اصلاحی کے بعد جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ہاں آیتوں کی تفہیم میں روایات سے تمسک مزید کم ہوتا چلا گیا. جیسے کہ صفا و مروہ کی سعی کے متعلق غامدی صاحب کا یہ موقف کہ حج و عمرہ میں صفا و مروہ کی سعى ضروری نہیں اور ان کا استدلال قرآن پاک کے یہ الفاظ (لا جناح) ہیں کہ تم پر کچھ (گناہ) نہیں اگر تم صفا و مروہ کی سعى کرو (سورۃ بقرہ آیت 158). غامدی صاحب کے مطابق یہ الفاظ (لا جناح) اس چیز پر دال ہیں کہ صفا و مروہ کی سعی واجب نہیں. حالانکہ اگر غامدی صاحب اس ضمن میں وارد حضرت عائشہ سے مروی متفق عليه روايت (ما أتم الله حج امرئ ولا عمرته لم يطف بين الصفا والمروة؛ کہ جو صفا و مروہ کی سعی نہ کرے تو اللہ اس کے حج و عمرہ كو پورا نہیں گردانتا) اور آیت کے شان نزول کو وہ اہمیت دیتے جس کی وہ مستحق ہیں تو وہ اس غلطی کا شکار نہ ہوتے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کے پس منظر میں وارد شان نزول (اور اس سلسلے میں وارد حدیث) کا اعتبار کیا لہذا صفا و مروہ کی سعی کے وجوب کے قائل رہے. اور جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے، اسی طرح مولانا اصلاحی کے نزدیک بھی، اگر صفا و مروہ کی سعی ضروری نہ ہوتی تو آیت کے الفاظ اس طرح ہوتے کہ تم پر کچھ نہیں اگر صفا و مروه کی سعى نہ کرو جبکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ تم پر کچھ نہیں اگر صفا و مروہ کی سعى کرو۔

اور اگر آیت کو نفي وجوب (سعى ضرورى نہیں) کے معنی میں ظاہر مانا جائے تب بھی اجماع اس میں مانع ہے جیسا کہ امام سرخسی نے المبسوط میں بہت عمدگی سے واضح کیا “یہ لفظ (لا جناح) إباجت کے لیے استعمال ہوتا ہے وجوب کے لیے نہیں اور آیت کا ظاہر اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ سعى واجب نہ ہو لیکن ہم نے ظاہر کو اس مقام پہ چھوڑ دیا اور وجوب کا حکم لگایا اور اور یہاں ظاہر کو چھوڑنے کی دلیل اجماع ہے”

چنانچہ فیصلہ کن بات یہ نہیں ہے کہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان میں کتنى ہزار روایات کو جگہ دی بلکہ فیصلہ کن امر یہ ہے کہ قرآن کی تفہیم میں روایات کو وہ جگہ دی گئی جو ان کا حق تھا یا نہیں ۔

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ...