جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹ قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...
قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ
جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
جہانگیر حنیف
غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹
قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس سے شدید اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ قاری اور کلام کا تعلق مستقل غیر متغیر نہیں ہوتا۔ ہر کلام کا ہر قاری ایک جیسا نہیں ہوتا اور ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ایک ہی قاری مختلف متون کو مختلف مواقف سے اپروچ کرتا ہے اور ایک کی کلام کے قاری اپنے استفادے میں اس کلام سے مختلف نسبتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ لہذا ہمارا کلام سے تعلق ہمارے اندرونی وجود اور شعوری مسلمات سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اس میں طبیعت کا بھی ایک رول ہے۔ جب ہم کسی کلام کے مطالعہ کا ارادہ کرتے ہیں، تو یہ ارادہ ہمارے اس کلام سے استفادہ کے عوامل کو متعین کرتا ہے۔ ہم کلام کو جس سطح پر رکھیں گے، اس سے ہمارے استفادے کی نوعیت بدل جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم کا حصول ارادۂ علم کے تابع ہوتا ہے۔ قرآن مجید کو بہت سے ملحدین و منکرین بھی پڑھتے ہیں اور متن خواندگی میں وہ مہارت بھی رکھتے ہیں، لیکن ان کے استفادے پر ان کی نیت کی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ قرآن مجید کو ”سرگذشت“ قرار دینا، قرآن مجید سے استفادے کی سطح اور ہمارے اس سے تعلق کی نوعیت کو قرآن مجید کو پڑھنے سے بہت پہلے متعین کردیتا ہے۔ ہم قرآن مجید کو ایک ”سرگذشت“ کی حیثیت میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہم دو جملہ لکھتے ہیں: (۱) قرآن مجید خدا کا کلام ہے۔ (۲) قرآن مجید سرگزشتِ انذار ہے۔
فرض کریں کہ قرآن مجید کے دو طالبِ علم ہیں۔ ایک کو قرآن مجید کے بارے میں پہلا جملہ تعلیم کیا گیا ہے۔ دوسرے طالبِ علم کو دوسرا جملہ سکھایا گیا ہے۔ اب یہ دونوں حضرات قرآن مجید کو کھولیں گے، ان کے کلامِ خداوندی سے استفادے میں فرق ہوگا۔ یہ کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہمارا اس کلام کے ساتھ تعلق ہے، جس کے تحت ہم اس کلام سے استفادہ کرتے ہیں۔ کسی بھی کتاب کو عنوان اس کتاب سے استفادے کی نیت کو متعین کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ عنوان کتاب کی پوزیشن کو متعین کر چکا ہوتا ہے اور قاری سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بھی اپنا قبلہ درست کرلے تاکہ استفادے کی درست صورت مہیا ہو سکے۔ دوسرا یہ کہ عنوان کتاب کے مشمولات کو ان کے مطالعہ سے پہلے ایک کوزے میں بند کر چکا ہوتا ہے۔ مثال کے طور مشل فوکو کی کتاب آرکیالوجی آف نالج کا عنوان اس کتاب کے مشمولات کی پیشگی خبر فراہم کرتا ہے۔ قاری کو اس کتاب سے کیا حاصل ہو سکتا ہے اور اسے کیا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، عنوان اِس چیز کو اُس کتاب کو پڑھنے سے بہت پہلے متعین کردیتا ہے۔ میں ایک ٹیکسٹ سے خاص امیدیں رکھتا ہوں۔ میری اس ٹیکسٹ سے کچھ تمنائیں اور کچھ امنگیں وابستہ ہیں، وہ سب متن خواندگی سے بہت پہلے میرے وجود اور متن کے درمیان فعال تعلق کی موجب بنتی ہیں۔ خدا کے کلام کے ساتھ میرا تعلق محض علمی نہیں۔ وہ علمی بھی ہے، لیکن علم کے دائرے میں محصور نہیں۔ یہ وہ کتاب ہے، جس کی بلا مفہوم قرآت مجھے فائدہ دیتی ہے۔ اس کے مفھوم اور معانی کی سمجھ میرے لیے جس قدر وجودی و ایمانی تسکین کا باعث بنتی ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
قرآن مجید کے مشمولات کو سرگذشت کے زمرے میں بند کرنا اس کلام کے آفاقی ہونے کو متاثر کرتا ہے۔ لہذا ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ سرگذشت کا لفظ قرآن مجید کے آفاقی ہونے کے مقدمہ کو نظروں سے غائب کردیتا ہے۔ میں اس کلام کو اس کی آفاقیت میں اپروچ کرنے کی بجائے، اسے ایک گزری ہوئی واقعاتی تاریخ کی حیثیت میں دیکھنے پر خود کو مائل پاتا ہوں۔ کیونکہ میں قرآن مجید کے سرگذشت ہونے کے مقدمہ کو پہلے ہی سے قبول کر چکا ہوتا ہوں، لہذا میں اس کو ایک سرگزشت کی حیثیت میں دیکھنے میں متردد نہیں ہوتا۔ سرگذشت کا لفظ قرآن مجید کے متن کو تاریخ کے دھارے میں فکسڈ کردیتا ہے۔ یہ واقعات یوں رونما ہوئے تھے۔ یہ ایسے ہوا تھا۔ قرآن مجید ایک آفاقی کتاب ہے۔ اس میں واقعات بھی آفاقی ہیں اور ان واقعات سے حاصل تعلیمات بھی آفاقی ہیں۔ قرآن مجید میں بلا شبہ کچھ خصوصی احکامات وارد ہوئے ہیں۔ ہم ان کی تعمیم کے دعویدار نہیں۔ یہ اصولی مبحث ہے۔ تخصیصات جزی ہے۔ سرگزشت کا لفظ کلام کو اس کی کلیت میں ہسٹاریسائیزڈ کرتا ہے۔ ہماری تنقید یہاں ہے۔ خاص احکامات کے زمرے میں نہیں۔ امت کی چودہ سو سالہ تاریخ میں قرآن مجید کو اس کی کلیت میں کبھی تخصیص نہیں دی گئی، جو آج غامدی صاحب نے سرگذشت کے لفظ سے قرآن مجید پر نافذ کی ہے۔ غامدی صاحب نے قرآن مجید کو اس کی کلیت میں ہسٹاریسائیزڈ کیا ہے۔ یہ آج تک نہیں کیا گیا۔ تخصیص کی یہ عمومی صورت ہمارے ایمان و علم کے لیے مضر ہے۔
جب ہم اس لفظ کی تخریج میں جاتے ہیں، تو ہمیں اس لفظ میں غامدی صاحب کی فکر کا مکمل ڈھانچہ دکھائی دیتا ہے۔ غامدی صاحب نے قرآن مجید کا پورا نظام اس تصور سے کشید کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر، قرآن مجید کا جو نظام غامدی صاحب کے ذہن میں موجود تھا، اس کے لیے انھیں ایک مناسب اصطلاح کی ضرورت تھی، جو ”سرگذشت“ کے لفظ سے فراہم ہوتی ہے۔ نظمِ قرآن ہو یا نظامِ قرآن یہ قرآن مجید کے سرگذشت ہونے کے تصور سے جڑا ہے۔ لہذا ”سرگذشت“ کا قرآن مجید کے داخلی اسٹرکچر جسے فکرِ غامدی میں نظام القرآن کہا جاتا ہے اور اس کے معنوی دروبست سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ قانون رسالت غامدی صاحب کی فکر کا میٹا نریٹو ہے۔ غامدی صاحب کی فکر کا تھیوریٹیکل فریم ورک قانونِ رسالت پر مبنی ہے اور ان کے فقہی آراء کا بیشتر حصہ قانون رسالت سے مراجعت کرتا ہے۔ قانون رسالت ہی سے قانون جہاد جڑا ہے اور اسی سے حدود و تعزیرات۔ ان کی بہت سے فقہی آراء جیسے پردے کے احکامات وغیرہ بھی قانونِ رسالت سے تشکیل پاتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غامدی صاحب کی فکر کا مَبنیٰ قانون رسالت ہے اور قانونِ رسالت انذار کے سرگذشت ہونے سے جڑا ہے۔ یہ تفصیل ہمیں اس بات کا شعور دیتی ہے کہ ”سرگذشت“ کا لفظ محض ایک سادہ لفظ نہیں۔ بلکہ غامدی صاحب کی فکر کی بنیادیں اس لفظ سے جڑی ہیں۔ یہ اس لفظ کی اہمیت کا بیان ہے اور اسی اہمیت کے پیشِ نظر ہم نے اسے اپنا موضوع بنایا ہے۔ خود غامدی صاحب نے اصول و مبادی میں پیغمبر کی سرگذشتِ انذار کے تحت اس اصول کے تین نتائجی معنی بیان کیے ہیں۔ پہلے انھوں نے اس ہیڈنگ کے تحت قانونِ رسالت کی شرح و وضاحت کی ہے اور پھر آخر میں تین نتائج بیان کیے ہیں۔ یہ تینوں نتائج قرآن مجید کے انذار ہونے سے کم اور اس کے سرگذشت ہونے سے ذیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ ۲
پہلا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سورہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مراحل میں سے کسی مرحلہ کے ساتھ تعلق ہے۔ تدبر سے اس مرحلہ کا متعین کرنا ضروری ہے۔ یعنی یہ کہ وہ زمانۂ انذار میں نازل ہوئی ہے، یا زمانۂ ہجرت و براءت میں اور جزا وسزا میں۔ اس سورہ کی ہر آیت کا مدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سورہ کے بارے میں متعین کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطبین مشرکین ہیں، یا منافقین ہیں یا پیغمبر اور ان کے ساتھی۔ چناچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لامِ تعریف کا معہود، اور ہر تعبیر کا مصداق اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔
تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ اس میں غلبۂ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد و قتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اور کیا چیز اس انذارِ رسالت کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے، جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔
یہ تینوں نتائج غامدی صاحب کی میزان سے منقول ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو اس کی کلیت میں دعوتِ انذار کے ادوار میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ہر ہر آیت کے مدعا و مقصود کو اس تنظیمِ نو کی روشنی میں دیکھنے اور طہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے تمام عمومی بیانات کو ان کے خصوص میں متعین کرنا ضروری ہے اور وہی خصوص ان کے معانی کو متعین کرے گا۔ حتی کہ اُس حکم کا اُس دور تک محدود ہونا بھی اسی اصول سے معلوم ہوگا۔ وہ حکم
محض اسی دور تک رک جائے گا اور اسے اگلے ادوار تک ممتد نہیں کیا جائے گا۔ یہ تمام نتائج قرآن مجید کے سرگذشت ہونے کا حاصل ہیں۔
حوالہ جات:۔
۔¹ میزان، اصول و مبادی، جاوید احمد غامدی
۔۲جو لوگ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سرگذشت بطور لفظ کے غامدی صاحب کی ہرمانیوتک میں کوئی تاثیر نہیں رکھتا، انھیں چاہیے کہ وہ تنقید کا جواب دینے میں تیزی کی بجائے میزان کے مطالعہ میں وقت لگائیں، تو شاید انھیں چیزوں کی تہہ میں چپھی معنویت کا اندازہ ہو سکے۔ سرگذشت کے لفظ کی معنوی مرادات غامدی صاحب نے خود واضح کی ہیں۔ لیکن ہمارے دوست اسے پڑھنے کی بجائے، ہمیں سمجھانے میں کوشاں ہیں کہ سرگذشت کا لفظ محض ایک سادہ لفظ ہے۔ ہم خواہ مخواہ اس کی مٹی پلید کرنے میں مصروف ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ میزان میں قرآن مجید کے سرگذشت ہونے سے جو نتائج غامدی صاحب نے خود نکالے ہیں، ان کی مراجعت فرمالیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟
جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔...
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ
جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں...
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش،...