ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...
فکرِ غامدی : قرآن فہمی کے بنیادی اصول ( قسط چہارم)
تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...
شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...
۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...
تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...
ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر
تلخیص : وقار احمد
اس ویڈیو میں ہم غامدی صاحب کے اصول تدبر قرآن میں میزان و فرقان میں قرات کے اختلاف پر گفتگو کریں گے غامدی صاحب لکھتے ہیں۔۔۔ایک یہ کہ قرآن میں بعض مقامات پر قراء ت کے اختلافات ہیں ۔یہ اختلافات لفظوں کے اداکرنے ہی میں نہیں ہیں،بعض جگہ اُن کے معنی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں .اِس صورت میں بظاہر اختلافات کے مواقع پر کوئی چیز فیصلہ کن نہیں رہتی.
اس کے برعکس اہل سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے اور یہ سب صحابہ کرام رضہ کے قولی اجماع اور تواتر سے نسل در نسل منقول ہے۔ اس کے لیے دیکھیے۔
بطور حوالہ کچھ روایات عرض ہیں۔ عمر بن خطاب رضی ا بیان کرتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان ایک دفعہ اس قرآت سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرآت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرآت کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرآت سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرآت سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔(بخاری 2419) اور
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک سورت پڑھائی تھی، میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اسی سورت کو پڑھ رہا ہے، اور میری قرآت کے خلاف پڑھ رہا ہے، تو میں نے اس سے پوچھا: تمہیں یہ سورت کس نے سکھائی ہے؟ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا: تم مجھ سے جدا نہ ہونا جب تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آ جائیں، میں آپ کے پاس آیا، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ شخص وہ سورت جسے آپ نے مجھے سکھائی ہے میرے طریقے کے خلاف پڑھ رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی! تم پڑھو“ تو میں نے وہ سورت پڑھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: ”تم پڑھو!“ تو اس نے اسے میری قرآت کے خلاف پڑھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت خوب“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابی! قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے، اور ہر ایک درست اور کافی ہے( نسائی 941 )یہ بات ان روایتوں سے بہت واضح ہے کہ یہ سبعہ احرف منزل من اللہ ہیں اور سبعہ احرف کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ہر آیت میں اختلاف بلکہ چند آیات میں ہے وہ بھی الفاظ میں جیسے سورۃ فاتحہ میں مالک یوم الدین یا ملک یوم الدین ۔یہ بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی اجازت سے ایسا ہے۔ اب یہ بھی دیکھیں یہ قراتیں بھی متعین ہیں ۔ ایسا نہیں کہ جس کا جو دل چاہے وہ پڑھتا رہے ۔ قرآت بھی وہی قابل قبول ہوگی جو صحیح سند سے ثابت ہوگی۔ یہ اولین مخاطبین کی آسانی کے نازل کی گئی تھی تا قیامت آنے والے کو یہ آسانی یوں میسر نہیں جیسا کہ ان کے لیے تھی۔ جامع القرآن حضرت عثمان رضہ کے دور میں یہی ہوا کہ مصحف کے ساتھ ساتھ قراء بھی بھیجے جاتے تھے جو کہ یہ ثابت شدہ قرآت کے مطابق قرآن پڑھ کے سناتے تھے۔ علماء نے قرآت کے ثبوت کے یہ ضابطہ مقرر کیا یے
اول ۔ وہ صحیح سند سے ثابت ہو
دوم ۔ مصاحف عثمانی کے مطابق ہو
سوم ۔ لغت عرب کے موافق ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خبر واحد ہے یا تواتر۔ تو یہ قولی تواتر سے ثابت ہے کیونکہ سب ممکنہ قرآتیں مصحف عثمانی کے اندر سمو دی گئی اور وہاں سے اجماع اور قولی تواتر سے منتقل ہو گئی ۔ اس کے برعکس غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک ہی قرآت ہے جو کہ حفص کی روایت ہے، اس لیے کہ قرآن مجید کے میزان اور فرقان ہونے کا تقاضا یہ ہے اسکی ایک ہی قرآت ہونی چاہیے ورنہ تو اس کے لفظوں میں تضاد و اختلاف ہوگا ، تو اس سے قرآن کا میزان و فرقان ہونا مجروح ہوگا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اسطرح تو اگر روایت حفص کو بھی تو مشکلات القرآن کی ایک پوری بحث وہاں بھی موجود ہے، مشکلات القرآن کا مطلب ہے کہ قرآن کی فلاں اور فلاں آیت میں آپس میں تضاد ہے اور یہ اعتراضات مستشرقین کرتے ہیں تو غامدی صاحب ان کو کہیں گے یہ اپکی نظر کا دھوکہ ہے ورنہ حقیقتاً اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایسے کی ہم بھی کہتے ہیں کہ غامدی صاحب کو جو تضادات نظر آتے ہیں وہ نظر کا دھوکہ ہیں ، ایک مثال سے بات سمجھیے جو کہ غامدی صاحب نے ہی دی ہے وہ لکھتے ہیں “اِس صورت میں بظاہر اختلافات کے مواقع پر کوئی چیز فیصلہ کن نہیں رہتی۔ سورۂ مائدہ (۵ )کی آیت ۶ میں ’اَرْجُلَکُمْ‘، مثال کے طور پر ،اگر نصب وجر ، دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے تو قرآن کی بنیاد پر یہ بات پھر پوری قطعیت کے ساتھ کس طرح کہی جا سکتی ہے کہ وضو میں پاؤں لازماً دھوئے جائیں گے ، اُن پر مسح نہیں کیا جا سکتا؟”
اب اس آیت کو ابن جریر طبری نے حل فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں مس کا معنی ہے مل مل کے دھونا اور غسل کا مطب ہے پانی بہا دینا۔ اس سے بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے وہ رفع ہوجاتا ہے۔
ایک بحث اور بھی ہے کہ کیا یہ تضادات واقعی تضادات ہیں بھی کہ نہیں کیونکہ مناطقہ نے تضاد کو متعین کرنے کے لیے کچھ شرائط عائد کی ہیں جیسے
وحدت زمان و مکان ہونا، وحدت موضوع و محمول ہونا،
وحدت کل و جز ہونا وغیرہ ، تو ان شرائط کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تضادات بنتے ہی نہیں ہیں
اب غامدی لکھتے ہیں کہ ” قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے”
یہاں سوال یہ ہے کہ کونسا مصحف
الجزائر کا مصحف ، مراکش کا مصحف ، اردن کا مصحف یا مدینہ کا مصحف
، کیونکہ ان تمام ممالک میں قرآن مختلف قرات پر چھپتا ہے ۔ اب کونسا مصحف غامدی صاحب فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد قرآن مجید کے قدیم قلمی نسخے دیکھیے تو وہ بھی روایت حفص کے مطابق نہیں ، اسی طرح دیکھیے کہ تفسیر کشاف اور قرطبی دونوں دروی کی روایت پر ہیں ، طبری بھی حفص پر نہیں ، تو خلاصہ کلام یہ کہ غامدی صاحب جو فرماتے ہیں وہ ایک کمزور بات ہے۔
ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی...
تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد...
شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر...