محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 98)
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر
محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط
محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی اتمامِ حجت کے بعد عذاب کی دوقسمیں مقرر کرتے ہیں (1) اول قسم کے متعلق لکھتے ہیں کہ ” پہلی صورت میں رسول کے قوم کوچھوڑدینے کے بعدیہ ذلت ان پراس طرح مسلط کی جاتی ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتی ، ساف وحاصب کاطوفان اٹھتا اورابروباد کے لشکران پراس طرح حملہ آور ہوجاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پرباقی نہیں رہتا ۔ قران سے معلوم ہوتاہے کہ قومِ نوح ، قومِ لوط ، قومِ صالح ، قومِ شعیب ۔ اور اس طرح بعض دوسری اقوام کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا “( میزان ص 49) ہم اس عبارت کے حوالے سے ایک دوباتیں کرتے ہیں ۔ (1) پہلی بات یہ ہے کہ اس عبارت میں جس عذاب کا تفصیلی تذکرہ جناب نے کیا ہے وہ درحقیقت ان کے نزدیک ذلت کی تعبیر ہے ۔ گویا ” اولئک فی الاذلین ” کامفہوم ان لوگوں کے نزدیک اہلاک وبربادی اور زندگی میں ذلت وخواری دونوں کو شامل ہیں ۔ مگر یہ جمع بین الحقیقة والمجاز ہے اورجمع بین الحقیقت والمجازکو تو محققینِ امت تسلیم نہیں کرتے ۔ یہ بات ہم نے صرف جناب کی تحقیق پر بنارکھتے ہوئے لکھی ہے ۔ ورنہ انہوں نےان الفاظ میں چار پانچ مختلف معانی کو شامل کیا ہے ۔ اوران معانی میں اختلاف ازقبیلِ تنوع بھی نہیں ہے ۔ ان آیات کے سیاق وسباق سے یہ مفہوم متعین ہوتا ہے کہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہم وسلم کی مخالفت اور دشمنی کرنے والے مغلوب ومقہوراور خواری ومصیبت میں مبتلا ہونگے ۔ کیونکہ یہی لفظ مسلمانوں کے متعلق بھی قران مجید میں وارد ہےجبکہ وہ کمزوراور مغلوبیت کی حالت میں تھے ۔ سورہِ آل عمران میں ہے ” ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة”( آلِ عمران 123) اب کوئی یہ تو نہیں سکتا ہے کہ صحابہ کرام عذابِ الہی کی زد میں تھے ۔ موسی علیہ السلام کی قوم کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے “ان الذین اتخذوا العجل سینالہم غضب من ربہم وذلةفی الحیوةالدنیا وکذالک نجزی المفترین” ( اعراف 152) ایک اورجگہ ہے ” ضربت علیہم الذلةوالمسکنة وباؤابغضب من اللہ” ( البقرہ 61) ان سب آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ذلت کاتعلق زندگی سے ہوتاہے ۔ چاہے وہ دنیا کی زندگی ہو یا پھرآخرت کی زندگی ہو ۔ یہی مفہوم ” لاغلبن ” کے الفاظ سے بھی متعین ہوتا ہے جیساکہ ہم نے گذشتہ مباحث میں اس بات کی وضاحت کی ہے ۔ پھر کسی آسمانی آفات سے برباد ہونا اگر عذاب ہے تو ان آفات وبلایا سے مسلمان بھی لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مرتے رہے ہیں ۔ اوراب بھی مررہے ہیں ۔ اس طرح اگر مغلوبیت عذاب کا نتیجہ ہے تو ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کے غلام رہے ہیں ۔ موسی علیہ السلام کی قوم فرعون کی غلامی میں رہی ہے ۔ خلاصہ ہماری بات کا یہ ہے کہ جس طرح دنیاوی مصائب ومشکلات کے بہت سارے دوسرے اسباب ہوتے ہیں اسی طرح اللہ ورسول کی مخالفت اور دشمنی سے بھی بعض اوقات آفتیں اورمصائب نازل ہوجاتی ہیں ۔ اور اگر ہم پہلی ہی صورت پر نظر رکھ لیں جو جناب غامدی نے متعین کی ہے تب یہ بات اچھی طرح سے سمجھ آجاتی ہے کہ جناب نے اس کے مفہوم میں ڈنڈی ماری ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ذل نقیضِ عز ہے۔ اس کا استعمال زندوں کے لیے کلی طور سے یا پھر زندوں کےلیے اکثر ہوتا ہے ۔ اسی آیت کے آخری لفظ ۔ عزیز ۔ کو ملاحظہ فرمالیں تو ہماری بات سمجھ آجائے گی ۔ اہلِ لغت کا کہناہے کہ ” الذل نقیض العز ۔ ذل یذل ذلا وذلة وذلالة ومذلة فہوذلیل بین الذل والمذلة من قوم اذلاء واذلة وذلال ۔ واذل الرجل صاراصحابہ اذلاء واذلہ وجدہ ذلیلا” ( لسان ج11 257) قران مجید کی ایک آیت ہے” ولم یکن لہ ولی من الذل ” اس کی توضیح میں مرتضی زبیدی لکھتے ہیں ” ای لم یتخذولیا یعاونہ ویحالفہ لذلّة بہ وہو عادةالعرب کانت تحالفہ بعضہا بعضا یلتمسون بذلک العز والمنعة فنفی ذالک جل ثناءہ” ( تاج 8 ص 6) ان عبارات یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ذلت درحقیقت زندگی میں بری صورت اورمجبوری کی حالت کا نام ہے ۔ ہاں آخرت میں بندہ رسوا وذلیل ہو سکتاہے کہ جہنم کی سزا اس کا مقدر بن جائے ۔ مگر اہلاک اوراخترام کے لیے اس کا استعمال اگرثابت بھی ہوجائے تووہ بہت قلیل اورشاذ ہوگا۔ عمومی بات وہی ہے جوہم نے واضح کی ہے ۔(2) دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض ہم جناب کا یہ افسانہ من وعن تسلیم کرلیں کہ ” قران بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار، انذارِعام ، اتمامِ حجت اورہجرت وبراءت کے مراحل سے گذرکر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتاہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوجاتی ہے۔ خدا کی دینونت کاظہور ہوتا اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامتِ صغری برپاکردی جاتی ہے “حالانکہ ان باتوں کا کوئی وجود قران میں موجود نہیں ہے ۔ مگر ہم تھوڑی دیر کے لیے اسے ارخاء العنان کے طور پرمان لیتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ جو تصور یہ حضرات پیش کرتے ہیں یہ تصور ہمارے نزدیک اللہ تعالی کی ذات وصفات کے عرفان کی بالکل منافی ہے ۔ اوران کی رحمت سے بہت بعید ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے “کتب علی نفسہ الرحمة”( انعام ) اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” سبقت رحمتی علی غضبی وفی روایة غلبت” ( الحدیث ) اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کفر کی وجہ سےدنیا میں اللہ تعالی انسان کو سزادیں ۔ اور آخرت میں بھی سزادیں ؟ واقعات میں موجود ایک ہی چیز ہے جس کانام کفر ہے ۔ مگر دورِ نبوت والے اگر کرلیں تو دوہری سزا پائیں اوربعد والے کرلیں توصرف آخرت کی سزاپائیں ۔ جو لوگ اس بات پراصرار کرتے ہیں یاتو وہ کفر کی حقیقت نہیں جانتے یا پھر اللہ تعالی کی ذات وصفات کے متعلق ان کے علم میں نقص موجود ہے ۔ بلکہ اگر عقل کی بات کی جائے تو دورِ نبوت کے مخاطبین رعایت کے مستحق بن جاتے ہیں ۔ کیونکہ اس دور میں لوگوں کے بہت سے اعذار ہوسکتے ہیں جو بعد کے ادوار میں نہیں ہوسکتے ۔ اس دور میں خاندانی تنافس سبب بن سکتاہے بعد میں نہیں بن سکتا ۔ معاصرت اس وقت فتنہ بن سکتی ہے ، اس دور میں نہیں بن سکتا ۔ اس دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یاان کے خاندان کے ساتھ تعلق کی خرابی مانع بن سکتی ہے اس دور میں نہیں بن سکتا ۔ اس طرح کے بے شمار اسباب وموانع اس وقت موجود ہوسکتے تھے مگر اب نہیں ہوتے ہیں ۔ پس چاہئے یہ تھا کہ ان کو چھوٹ مل جاتی ۔ لیکن ان لوگوں نے مسئلہ بالکل الٹ کرکے رکھ دیا ہے ۔ ہم جو اس کاحل پیش کرتے ہیں اس پر اس طرح کا کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا ۔ کیونکہ دنیا میں ان کی بربادی کا سبب اورعلت ہم ظلم قراردیتے ہیں ۔ اوراخروی سزا کا سبب ہم کفر گردانتے ہیں ۔ الگ اسباب کی بناپر سزا میں زیادت کاہونا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ ہاں سبب ایک ہو مثلا کفر ۔ پھر کسی کو دوچند سزادینا اورکسی کونہ دینا خدائی انصاف سے بہت بعید ہے ۔ پتہ نہیں یہ لوگ اس کو کس طرح تسلیم کرتے ہیں ۔ پھر اسے قیامت کی نظیر قراردینا جہالت کا دوسرا مظاہرہ ہے کہ مجرموں کے اعذار سنے بغیر اور علی رؤس الاشہاد فیصلہ سنائے بغیر دینونتِ صغری کا قیام کیاجائے ۔ اگر بات ایسی ہوتی تو اشارات وکنایات کے بغیر اس کو بیان کرنا چاہئے تھا تاکہ تمام مسلمان اس کو سمجھ لیتے ۔ان اشارات کو تو صرف مکتبِ فراہی کے باریک بین دانشور ہی سمجھ سکے ہیں ۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ ایک من گھڑت فلسفہ ہے ۔ اس کا قرانی آیات اورالہی تصریحات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جناب غامدی اگے لکھتے ہیں کہ ” اس ( یعنی پہلی صورت ) سے مستثنی صرف بنی اسرائیل رہے ۔ جن کی اصلا توحید ہی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے ان کوچھوڑنے کے بعد ان کی ہلاکت کے بجائے ہمیشہ کےلیے مغلوبیت کا عذاب ان پرمسلط کردیاگیا “( میزان ص 49) جناب کی یہ بات ہماری نظر میں تین وجوہ سے محلِ نظر ہے (1) پہلی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اصالتا توحید سے وابستہ تھے تو پھر یہ لوگ مشرکین کی بنسبت رعایت ولحاظ کرنےکے مستحق تھے ۔ مگر یہ کس طرح کی رعایت ہے کہ ان پر ہمیشہ کے لیے ذلت اور مغلوبیت مسلط کی گئی ؟ ایسی رعایت آج تک نہ تو ہم نے سنی ہے اور نہ دیکھی ہے کہ زیادہ مجرم لوگوں کو ایک گھنٹے میں ہلاک کردو ۔ اورکم مجرموں کو صدیوں تک ذلیل کرتے رہو ۔(2) دوسری وجہ یہ ہے کہ تاریخ جناب غامدی کی اس بات جھٹلاتی ہے کہ وہ ہمیشہ ذلت و مغلوبیت میں رہے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے وہ یہود یثرب میں آرام کے ساتھ زندگی گذار رہے تھے ۔ انہیں وہاں کوئی مشکل اور کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ درحقیقت یثرب کے اردگرد میں انہی کا سکہ چلتا تھا تو بھی غلط نہیں ہوگا۔ اور اب تو ساری دنیا دیکھ سکتی ہے کہ یہود جہاں بھی رہتے ہیں بڑے آرام کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں چاہئے وہ ایران میں ہوں یاامریکہ میں ہوں یا پھر یروشلم وغیرہ میں ہوں ۔ ان حالات سے باخبر شخص کیسے ان پر ” ہمیشہ کی ذلت ومغلوبیت ” کا دعوی سلامتئ ہوش وحواس کے ساتھ کر سکتاہے ؟( 3) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے اور قران وسنت کے بھی خلاف ہے کہ اتمامِ حجت توان کی ایک اس نسل پر سیدنا مسیح علیہ السلام نےکیا تھا جوان کے زمانے میں موجود تھے ۔ اوراسی زمانے کے لوگ ان کے منکر بنے ہوئے تھے مگر ” عذابِ ذلت ومغلوبیت ” ہمیشہ اورسب نسلوں کومل جائے ؟ اگر باقی نسلوں پراتمامِ حجت قائم نہیں ہے تو دائمی ذلت اورمغلوبیت کا عذاب ان پرکیوں مسلط ہے ؟ اور اگر دائمی ذلت ومغلوبیت کا عذاب ان پر مسلط ہے جیساکہ جناب کی عبارت سے ہویدا ہے تو پھر ان کاجرم کون سا ہے ؟ اتمامِ حجت توان پرہوانہیں ہے ؟ اور وہ تو بقولِ غامدی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہو بھی نہیں سکتا ۔ توپھر اس عذاب کاسبب کیاہے ؟ خلاصہ یہ ہوا کہ این ہمہ خزعبلات و خرافات از قبیلِ چرتیاتِ جناب غامدی است ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر
محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے...
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط
محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ...