غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 93)

Published On August 7, 2024
واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

یاسر پیرزادہ کسی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال پوچھا کہ کیا آپ واقعہ معراج پر یقین رکھتے ہیں، میں نے جواب دیا الحمدللہ بالکل کرتا ہوں، اگلا سوا ل یہ تھا کہ آپ تو عقل اور منطق کی باتیں کرتے ہیں پھر یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ ایک رات میں کوئی شخص آسمانوں کی سیر کر آئے۔ میرا...

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

بشکریہ ادارہ ایقاظ   سماع ٹی وی کا یہ پروگرام بہ عنوان ’’غامدی کے ساتھ‘‘مورخہ  27 دسمبر 2013 کو براڈکاسٹ ہوا۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں من و عن دیا جارہا ہے۔ ذیل میں[1] اس پروگرام کا ویب لنک بھی دے دیا گیا ہے۔ ہمارے حالیہ شمارہ کا مرکزی موضوع چونکہ ’’جماعۃ...

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

ڈاکٹر عادل اشرف غامدی صاحب اور وحید الدین خان کا یہ مفروضہ صحیح نہیں کہ مولانا مودودی کا نظریہ دین ایک یا چند آیات سے ماخوذ ہے اور ان آیات کے پسمنظر اور انکی لغت کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے ہم ایک دوسری تشریح اخذ کرتے ہوۓ انکے نظریہ کی بنیادوں کو ہی ڈھا دیں گے! مولانا مودودی...

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

سید ظفر احمد روزنامہ جنگ کی اشاعت بروز جمعرات 22 جنوری 2015ء میں ممتاز مفکر محترم جاوید احمد صاحب غامدی کا مضمون بعنوان ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے اس موضوع پر اپنے فکر کا خلاصہ بیان کردیا ہے جو وہ اس سے پہلے اپنی کئی کتب و...

نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

ڈاکٹر زاہد مغل نفس مسئلہ پر جناب غامدی صاحب بیان کے مفہوم سے استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ان کا استدلال لفظ “بیان” سے کسی صورت تام نہیں۔ یہاں ہم اسے واضح کرتے ہیں۔ قرآن اور نبی کا باہمی تعلق کس اصول پر استوار ہے؟ کتاب “برھان” میں غامدی صاحب اس سوال کا یہ...

مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور

مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور

حامد کمال الدین  پاکستان میں قادیانی ٹولے کو غیر مسلم ڈیکلیئر کرنے کا دن آج گرم جوشی سے منایا جا رہا ہے۔ اتفاق سے آج ہی ’دلیل‘ پر جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ مضمون نظر سے گزرا۔ اس موضوع پر باقی سب نزاعات کو ہم کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں اور مضمون کے آخری جملوں...

مولانا واصل واسطی

آج ہم دوتین مزید مقامات کامطالعہ کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی حقیقت خوب احباب کے سامنے واضح ہو سکے ۔ پہلے  جناب غامدی کے  استاد امام کی عربی تحقیق کی ایک مثال دیکھ لیتے ہیں ۔ وہ ” نبا “کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ   لفظ نبا  کی تحقیق اس کے محل میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس سے مراد کوئی اہم خبر ہوتی ہے   جس کو باور کرلینے یا اس پر عمل کرنے کے دور رس نتائج کے پیدا ہونے کاامکان ہو ۔ اسی طرح کی اہم خبر اگرکوئی ایساشخص دے   جودینی اوراخلاقی اعتبار سے ناقابلِ اعتبار ہو توعقل اوراخلاق کا دونوں کا تقاضایہی ہے کہ اس کی بات کو اس وقت تک باور نہ کیا جائےجب تک خبراور مخبر دونوں کی اچھی طرح تحقیق نہ کرلی جائے “( تدبر قران ج7ص 492) ہمارے نزدیک ” نبا” مطلق خبر کو کہتے ہیں ۔ یہ جو مولانا اصلاحی نے بات لکھی ہے وہ فی الحقیقت راغب اصفہانی کی المفردات سے ماخوذ ہے ۔ انہوں نے اس میں تین قیود کا اضافہ کیا ہے ۔ مگر راغب کی یہ بات  بالکل بلا دلیل ہے ۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں (1) پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر بات اسی طرح ہوتی جیسا کہ راغب اصفہانی اور اصلاحی کا کہنا ہے تو پھر اس کی صفت ” عظیم” لانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے ۔ مگر قران مجید میں ہے ” عم یتساءلون عن النباء العظیم” ( النباء 1) اور فرمایا ہے کہ “قل ہونباء عظیم انتم عنہ معرضون ” (2) دوسری وجہ یہ ہے کہ اہلِ لغت نے بالعموم ان دونوں الفاظ یعنی نباء اور خبر کو مترادف قراردیا ہے ۔ شیخ سمین حلبی لکھتے ہیں ” والنباء الخبر کذا فسرہ الہروی وغیرہ” ( العمدہ ج4 ص 124)  مرتضی زبیدی لکھتے ہیں” النباء محرکة الخبر وہمامترادفان وفرق بینہما بعض” ( تاج العروس ج1 ص 180) ابن منظور لکھتے ہیں ” النباء الخبر والجمع انباء وان لفلان نباء ای خبر” ( لسان العرب ج1 ص162) ان عبارات سے واضح ہوا کہ فی الحقیقت یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں ۔(3) تیسری وجہ اس کی یہ ہے  کہ قران مجید کی اکثر آیات میں یہ مفہوم درست نہیں آتا ۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمالیں ۔ مثلا ” ونبئہم عن ضیف ابراہیم ” ( الحجر51) اب مہمان کے آنے میں کیا عظیم الشان فائدہ ہوسکتاہے ؟اورفرمایاہے کہ ” انبئونی باسماء ہولاء ان کنتم صادقین “( البقرہ 31) کیا فرشتوں کااللہ تعالی کو بتانا عظیم الشان امر تھا ؟ اور فرمایا ” انبئہم باسماءہم فلماانباءہم باسماءہم “( البقرہ 33) اورفرمایا ہے ” فلمانبّاہابہ قالت من انباک قال نباء نی العلیم الخبیر” (التحریم 4) اور فرمایا ہے ” نباءتکما بتاویلہ” ( یوسف 37) کیاخواب کی تعبیر بھی عظیم الشان خبرہے؟ کسی خاتون کی بکری کو اس بھیڑیئے نے مارڈالا جس کو انہوں نے پالا تھا تو اس خاتون نے کہا کہ

بقرت شویہتی وجرحت قلبی

فمن انباک ان اناباک ذیب

اذاکانت الطباع طباع سوء

فلاادب یفید ولاادیب

کیااس میں انباک سے مراد عظیم الشان خبرہے ؟ معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ مولانا اصلاحی عام طور پر لوگوں سے کہتے ہیں کہ راغب کی کتاب کے بجائے دیگر کتبِ لغت سے استفادہ کیاکریں ۔ مگرخودبہت سے مقامات میں بغیر نام لیے اس سے استفادہ کرتے ہیں بلکہ اس کی عبارتوں کا لفظ بلفظ ترجمہ بھی کرتے ہیں ۔ موقع ملا تو ان مقامات پر بحث کرکے دکھادیں گے ۔  اب ایک اور جگہ کو دیکھتے ہیں ۔ مولانا اصلاحی نے سورہِ حج کی آیت “من کان یظن ان لن ینصرہ اللہ فی الدنیا والاخرة فلیمدد بسبب الی السماء ثم لیقطع فلینظر ہل یذہبن کیدہ مایغیظ” ( الحج 15)  کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” فلیمدد بسبب الی السماء ” آسمان میں رسی تاننا آخری اورانتہائی تدبیر کر دیکھنے کےلیے اسی طرح کا ایک استعارہ ہے جس طرح ہماری زبان میں تھگلی لگانے کا استعارہ ہے ۔ سورہِ انعام میں بھی آسمان میں تھگلی لگانے کا استعارہ گذرچکا ہے ۔ اللہ تعالی نےفرمایاہے” وان کان کبرعلیک اعراضہم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض اورسلما فی السماء فتاتیہم بایة ولو شاء اللہ لجمعہم علی الہدی فلا تکونن من الجاہلین” ( انعام 35)  زہیر اور اعشی نے بھی انتہائی اور آخری جدوجہد کے مفہوم کےلیے یہ محاورہ استعمال کیا ہے ۔ زہیر کامصرع ہے ” ولونال اسباب السماء بسلم ” اسی طرح اعشی کہتا ہے ” ورقیت اسباب السماء بسلم ” ( تدبرقران ج5 ص 226) ہمارے نزدیک اسبابِ سموات تک سیڑہی کے ذریعے پہنچنے کی بات تو عربی ادب اور قران مجید دونوں میں موجود ہے   جیسے قران میں ہے ” ام  لہم سلم یستمعون فیہ” ( الطور 28)۔ دیگر ذرائع سے اسباب السموت پرپہنچنے کی بات بھی قران میں مل جاتی ہے۔ اس کے لیے کسی نظیر وشاہد کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ عام بات ہے ۔ جیسے فرعون نے ہامان سے محل بنانے کی فرمائش کی تھی کہ میں اس کے ذریعے اسبابِ آسمان پر پہنچنا چاہتا ہوں تاکہ موسی کے خدا کومعلوم کرسکوں ” وقال فرعون یہمن ابن لی صرحا لعلی ابلغ الاسباب اسباب السموات والارض فاطلع الی الہِ موسی” ( الغافر 36 ۔37) مگرآسمان تک رسی تاننے کی بات اس مفہوم میں ہمیں نہیں ملی ہے ۔ اور مولانا اصلاحی نے بھی اس کے لیے کوئی دلیل فراہم نہیں کی ہے ۔ ہمارے پشتو زبان میں آسمان کو زینے لگانے کی ترکیب موجود ہے ۔

واسمان  تہ بہ دہ شعر زینے کشیژدی

کہ حمید دغم لہ سرہ زنگون وکیش

مگر رسی تاننے کی بات ہمارے ہاں بھی موجود نہیں ہے ۔ مولانا اصلاحی نے مثالیں  سلم  کی پیش کی ہے ۔ مگر مطلب ” فلیمدد بسبب الی السماء ” کا نکالا ہے ۔ سلم کے متعلق تو بہت سارے اشعار مل جاتے ہیں ۔ جیسے زہیر ابن ابی سلمی کامشہور شعر ہے

ومن ہاب اسباب المنایا ینلنہ

ولورام اسباب السماء بسلم

ابن الانباری نے زہیر کے شعر کے پہلے مصرع کو دوسرے طریقے پر نقل کیاہے ” ومن یبغ اطراف الرماح ینلنہ “۔بہرحال دوسرے مصرع میں راویوں کااتفاق ہے ۔ اسی طرح ایک دوسرے شاعر کاقول ہے

لنا سلم فی المجد لایبلغونہا

ولیس لکم فی سورةالمجد سلم

یہ تو ایک تمثیل کی حقیقی وجہ بیان ہوئی ہے ۔ اب دوسری بات ملاحظہ فرمالیں۔ ” قطع” کا لفظ ویسے تو کاٹنے کے مفہوم میں ہوتا ہے   مگر کوئی لفظ ساتھ ملنے سے اس کا مفہوم بدل جاتاہے ۔ مثلا قران مجید میں ہے ” قالت یاایہاالملاؤ افتونی فی امری ماکنت قاطعة امرا حتی تشہدون ” ( النمل 32) یہاں عام مفسرین اس لفظ سے عزم و جزم کا مفہوم لیتے ہیں ۔ عربی لغت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب  امر  کا لفظ ساتھ آجائے تو اس سے پھر یہ مرادلیا جاتا ہے ۔ راغب نے لکھا ہے “القطع فصل الشیئ مدرکا بالبصر کالاجسام او مدرکا بالبصیرة کالاشیاء المعقولة فمن ذالک قطع الاعضاء نحوقولہ تعالی ۔۔ لاقطعن ایدیکم وارجلکم من خلاف ” (اعراف 124) ” والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیہما ” ( المائدہ 28 ) اور پھر بصیرت سے معلوم ہونے والے قطع کے متعلق لکھا ہے ” ویقطعون ماامراللہ بہ ان یوصل” ( البقرہ 27) ” وتقطعوا ارحامکم ”  ( محمد 22) آخر میں لکھاہے” وقطع الامر فصلہ ومنہ قولہ   ماکنت قاطعةامرا” ( النمل 32) ( المفردات ص 425) بہرحال بہت محنت کے بعد بھی صرف لفظِ ” قطع “عزم وجزم کے ساتھ‌ کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے  کے معنی میں ہمیں کہیں نظر نہیں آیا ۔ مگر مولانا اصلاحی کا فرمان ہے کہ”   قطع کے معنی ابومسلم نے قطع مسافت کے لیے ہیں ۔ یعنی وہ اسمان میں رسی تانے اورآسمان میں چڑھ جائے۔ بعض لوگوں نےاس سے معنی قطعِ وحی کےلیے ہیں ۔ یعنی جس کو یہ گمان ہو کہ اللہ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا وہ آسمان میں چڑھ کر سلسلہِ وحی منقطع کردے ۔ اکثر لوگوں نے اس کے معنی پھانسی لگانے یاگلا گھونٹ لینے کےلیے ہیں ۔ یعنی وہ چھت میں رسی لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی لگالے ۔ ان تاویلوں میں جو قباحت ہے اس سے قطع نظر لفظِ ” قطع ” کاجو مفہوم ان حضرات نے لیا ہے  وہی محلِ نظر ہے ۔ وحی کو منقطع کردینے یا پھانسی لگانے کے معنی کےلیے تو اس لفظ کا استعمال بالکل ہی ناموزوں ہے ۔ عربیت کا ذوق اس سے ابا کرتا ہے ۔کسی مفہوم کےلیے معروف ومتداول الفاظ کے ہوتے ہوئے    کسی ناموزوں لفظ کا استعمال قران کی فصاحت وبلاغت کے بالکل منافی ہے” ( تدبرقران ج5 226) اب کوئی شخص اس محقق سے پوچھ لیں کہ جن لوگوں نے اس درج آیت کو پھانسی کے معنی میں لیا ہے   ان لوگوں نے ” قطع ” کو کاٹنے کے مفہوم میں لیا ہے ۔ اور کاٹنے کے مفہوم میں ” قطع ” کالفظ معروف اور متداول ہے ۔ کون کہہ سکتا ہےکہ یہ مفہوم قران مجید کی فصاحت وبلاغت کے منافی ہے ؟ یا عربیت کا ذوق اس مفہوم سے ابا کرتا ہے ؟ یہ جناب اصلاحی کے واردات ہیں کوئی علمی بنیادیں رکھنے والی چیزیں نہیں ہے ۔ اس کے بعد جناب اصلاحی فرماتے ہیں کہ ” ہمارے نزدیک یہ تمام اقوال ضعیف ہیں ۔ البتہ عزم وجزم کے ساتھ کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے مفہوم کے لیے اعلی عربی میں معروف ہے ” ( ایضا) ہم کہتے ہیں کہ اعلی عربی سے یا تو جناب کی مراد قران مجید ہے ۔اگرایساہےتو ہم عرض کریں گےکہ قران میں فقط لفظِ ” قطع” کا کسی فیصلے کے متعلق عزم وجزم کےلیے کہیں بھی نہیں آیاہے ۔ اور اگر اعلی عربی سے مراد جناب قدیم جاہلی ادب مراد لیتے ہیں   تو اس کے لیے یہی بات کافی ہے کہ کوئی دلیل وسند جناب خود اس مفہوم کےلیے پیش نہیں کرسکے ہیں ۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ جومعانی ومفاہیم جناب غامدی کے   استادامام   کا دل قبول نہ کرے وہ سب اعلی عربی ادب میں وجود نہیں رکھتے ۔ اور عربیت کا ذوق اس سے ابا کرتا ہے ۔ اور جن معانی کو جناب کادل قبول کرے وہ اعلی عربی ادب میں بہرحال موجود ہے اگرچہ اس کی کوئی نظیرو شاہد کسی کو بھی نہ مل سکے  ۔ اخر میں جناب لکھتے ہیں کہ ” اس کی نظیر خود قران میں موجود ہے مثلا سورہِ نمل میں ہے کہ ” قالت یاایہاالملاو افتونی فی امری ماکنت قاطعة امرا حتی تشہدون ( النمل 32) یعنی   ملکہّ سبا نے کہا کہ اے درباریوں میرے اس معاملے میں آپ لوگ اپنی رائے دیں میں کسی معاملے کاقطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک آپ لوگ موجود ہوکر مشورہ نہ دیں “( تدبر قران ج5 ص 226) مگر اس بات کی تو ہم نے اوپر وضاحت کی ہے  کہ ” قطعِ امر ”  یا قطع بالامر کا مفہوم الگ ہے اورفقط “قطع ” کامفہوم بالکل الگ ہے۔ ایک کے مفہوم سے دوسرے کو کشید کرنا یاتو علمی بے بسی ہے یا پھر زبردستی ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جناب اصلاحی اس بات کےلیے جاہلی ادب سے دلائل لے آتے ۔ مگر وہ شاید ان کے بس میں نہ تھا ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…