غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

Published On December 13, 2023
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...

استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...

مولانا واصل واسطی

ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے (میزان ص15) میں نے کہیں جناب غامدی کا اپنا قول غالبا،، اشراق ،، کے کسی شمارے میں پڑھاتھا کہ ،، احادیث تمام کی تمام قران سے ماخوذ ومستنبط ہیں ،، لیکن وہ جگہ اب یاد نہیں آرہی ۔ تو اس کا علاج دوسرے طریقے سے کرینگے کہ ان کے ،، استاد امام ،،( یہ لقب اصل میں محمد عبدہ کے شاگردان کے لیے استعمال کرتے تھے کمافی قال فی المنار والمراغی وغیرھما فی غیرھا ، انہوں نے وہاں سے لیاہے ) مولوی امین احسن اصلاحی کا قول نقل کرلیتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، تفسیر کے ظنی ماخذوں میں سب سے اشرف اور سب سے زیادہ پاکیزہ چیز ذخیرہِ آحادیث وآثار ہے ۔ اگر ان کی صحت کی طرف سے پورا پورا اطمینان ہوتا تو تفسیر میں ان کی وہی اہمیت ہوتی جو اہمیت سنتِ متواترہ کی بیان ہوئی ہے ۔لیکن ان کی صحت پراس طرح کا اطمینان چونکہ نہیں کیا جاسکتا اس وجہ سے ان سے اسی حدتک فایدہ اٹھایا جاسکتاہے  جس حدتک یہ ان قطعی اصولوں سے موافق ہوں  جو اوپربیان ہوئے ہیں۔ 

۔۔۔ میں آحادیث کو تمام تر قران سے ماخوذ ومستنبط سمجھتاہوں ۔ اس وجہ سے میں نے صرف انہی آحادیث تک استفادے کو محدود نہیں رکھا ہے  جو قران کی کسی آیت کے تعلق کی صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں  بلکہ پورے ذخیرہِ آحادیث سے اپنے امکان کی حدتک فایدہ اٹھایاہے ( تدبرِقران ج1 ص 30) اصلاحی صاحب کی اس عبارت میں دوچیزیں صاف واضح ہیں (1) ایک یہ چیز کہ آحادیث چونکہ اخبارِ آحاد ہیں  اور وہ ظنی ہیں ، اس لیے وہ تفسیرِقران کے قطعی ذرایعے میں سے نہیں ہیں ۔گویا انھوں نے بالفاظِ دیگر عام علماء کی بات کی ہے  کہ خبرِ واحد مفیدِ ظن وعمل تو ہے مگر مفیدِ علم ویقین نہیں ہے ۔اگرچہ محققین اسے مفیدِ علم ویقین مانتے ہیں ۔سنتِ متواترہ کو وہ بھی جناب غامدی کی طرح قطعی مانتے ہیں۔ اگرچہ اس کے انطباق میں پھر دونوں کی راہیں الگ الگ ہیں اور فراہی صاحب  بھی اس اختلاف میں اصلاحی صاحب کے ساتھ ہیں جس کے بیان کرنے کا یہ مختصر مضمون اچھا موقع نہیں ہے ۔دوسری جگہ ہم اس اختلاف کی بھی تفصیل کریں گے ان شاءاللہ (2) دوسری یہ چیز کہ آحادیث تمام تر قرانِ مجید سے ماخوذ ومستنبط ہیں چاہے وہ قران کی تشریح وتبیین ہو یا اس پر زائد ہوں ۔اسی لیے توانھوں نے کہا ہے کہ میں نے صرف متعلق بالقران آحادیث کاہی مطالعہ نہیں کیا بلکہ پورے ذخیرہِ احادیث سے حسبِ توفیق فایدہ اٹھایا ہے ۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ جب آپ جیسے لوگوں کے نزدیک آحادیث تمام تر قران سے ماخوذ ومستنبط ہیں  تو اس استنباط پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے قائم رکھا ہے یا نہیں رکھا ؟ بالفاظِ دیگر اللہ تعالی نے ان کے ان استنباطات کی تصویب وتقریر کی ہے یا پھرتردید وتغلیط کی ہے ؟ اگراللہ تعالی نے اس کی تصویب وتقریر کی ہے  تو پھر یہ استنباطات حجت ہوگئے ہیں یا حجت نہیں ہوئے؟ قران کے نصوص سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی استنباط میں غلطی ہوتی ہے تواللہ ان کو اس پر برقرار نہیں رکھتے بلکہ اس پر انھیں تنبیہ کردیتے ہیں ۔اور جب کسی استنباط پر انھیں تنبیہ نہیں کرتے تو پھر اہلِ علم کے ہاں ان کا وہ استنباط حجت ہوتی ہے ۔اب جب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آحادیث سارے کے سارے قران سے مستنبط ہیں اور ان پر اللہ تعالی نے ان کی تصویب وتقریر کی ہے اور ان کی تقریر وتصویب عام اہلِ علم کے نزدیک حجت ہے (یاد رہے کہ یہ بات ہم نے محض ارخاء العنان کے طور پرکی ہے ورنہ عام اہل سنت والجماعت کےہاں تواحادیث بھی قران مجید کی طرح وحی ہے  )توکیا جو چیز دین میں حجت ہو  اس کے حفاظت کا اہتمام کرنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے ضروری ہے یا پھر غیرِضروری ؟ اگر ضروری ہے تو پھر آحادیث کی حفاظت کا اہتمام کیوں انھوں نے نہیں کیا ؟ اور اگر غیرضروری ہے تو پھر وہ حجتِ شرعی کیونکر ہے ؟ اس اعتراض سے گلوخلاصی اس طرح نہیں ہوتی کہ کوئی کہے کہ ایک بیان متواتر ہے اور ایک بیان غیر متواتر ہے ۔کیونکہ ایسا تو بالعموم ہوتا ہے کہ کلاس میں کبھی سب لڑکے حاضر ہوتے ہیں ، کبھی چندلڑکے حاضر ہوتے ہیں۔ استاد دونوں حالتوں میں طلبہ کو پڑھاتا ہے ۔مگر ان لوگوں کی عقل پرماتم کی ضرورت ہے جوکہتے ہیں کہ جس دن سب طلبہ کو سبق پڑھایا ہو وہ تو حجت ہے  اور جس دن چند لڑکوں کو پڑھایا ہو وہ سبق ساقط عن الحجت ہے ۔پھرہم کہتے ہیں کہ آپ نے اوپر لکھا ہے کہ ،، حدیث کے بارے میں یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ان کی تبلیغ وحفاظت کےلیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑدیاہے کہ چاہیں توانھیں اگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں ( میزان ص 14) ہم عرض کرتے ہیں کہ اس عبارت میں آپ نے حدیثِ متواتر اورخبرِ واحد کا فرق روانہیں رکھاہے اور بسلامتئ ہوش وحواس رکھ بھی نہیں سکتے تھے ۔اور یہ بات توسب لوگ جانتے ہیں کہ متواتر بھی تو حدیث ہی ہے ۔پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرے سے حدیث کی حفاظت وتبلیغ کا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا توپھرحدیثِ متواتر کی حفاظت کا کیا طریقہ تھا ؟اس کے بھی تو تبلیغ وحفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوا تھا ؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِمبارک میں ان دونوں  یعنی احاد ومتواتر میں فرق روا رکھا گیا تھا ؟ اگرجواب ہاں میں ہے تو اس بات کے دلائل فراہم کرنا آپ لوگوں پر لازم ہے جو خیال است ومحال است وجنون کے زمرے میں آتے ہیں  ۔پھر یا تو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فی نفسہ تمام مسلمانوں کے لیے حجت وبرھان ہے یاپھر نہیں ہے ؟ اگر حجت وبرھان ہے تو پھراس کی دوسروں کو تبلیغ کرنا اور انھیں دوسروں تک پہنچانا فرض ہے ، چاہے وہ خبرِ واحد ہو یاخبرِ متواتر؟ اور اگر حدیث حجت وبرھان نہیں ہےتوپھر ان دونوں میں کسی کی تبلیغ کرنا  اور دوسروں کو پہنچانا نہ فرض ہے اور نہ ہی ضروری۔ باقی رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِمبارک میں ایک کاحجت وبرھان ہونا اوردوسرے کا حجت وبرھان نہ ہونا ، ثابت کرنا کسی مائی کے لعل کے بس میں نہیں ہے ۔ جناب غامدی اگے لکھتے ہیں کہ ،، اس دائرے کے اندر ، البتہ اس کی حجت ہراس شخص پر قائم ہوجاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہوجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یاتقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کرلیتاہے ، اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا بلکہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یافیصلہ اگر اس میں بیان کیاگیا ہے تو اس کے سامنے سرِتسلیم خم کردے ( میزان ص 15) میں نے پہلے لکھا تھا کہ ان صاحب کی تحریرات تضادات کا پلندہ ہوتے ہیں ۔ اب ان صاحب کو ( اگرہم حسنِ ظن سے کام لیں ) ادھر یہ خیال نہیں رہا کہ جب ایک حدیث فی نفسہ حجت نہیں ہے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ السلام نے اس کی حفاظت کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا، مسلمانوں کو اس کی تبلیغ تک کرنے کاکوئی حکم نہیں کیا، بلکہ یہ کام ان کی مرضی پر چھوڑ دیاہے ، تو وہ کسی شخص کے اطمینان کے بعد ان پرحجت آخر کس طرح بنتا ہے ؟ اس سے انحراف اس کے لیے جائز کیوں نہیں ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عدمِ تبلیغ اور عدمِ حفاظت کی صورت میں اس سے انحراف کو جائز سمجھنا ، اور بعد کے لوگوں پر اطمینان کی وجہ سے اسے لازم سمجھنا صرف مجنون کی بڑ ہے ۔ ورنہ کوئی معقول آدمی اس غتربود کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ عدمِ اہتمام حفاظت اور اس کی تبلیغ کے حکم نہ کرنے سے اس کالزوم ووجوب کافلسفہ معدوم ہوجاتاہے ۔اب یا تو حدیث کو لازم مانوگے تب آپ کی پہلی بات اڑجائےگی۔یا پھر غیرلازم مانو گے تو آپ کی دوسری بات اڑجائے گی۔ ان دوکشتیوں پربیک وقت سفر کرنا کسی قائل کو موت کا راستہ ہی دکھا ئے گا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ...