نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 40)
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی نے اسی مسئلے پرآگے لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ، چنگال والے پرندوں ، اورپالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایاہے ۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے ۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اسے بیانِ فطرت کے بجائے بیانِ شریعت سمجھا درآن حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قران میں بیان ہوئی ہیں ، اس کاسرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پرحدیث سے قران کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیا جائے ( میزان ص 37) اس درج عبارت کے حوالے سے ہم چندباتیں خدمت میں عرض کرتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے بیانِ فطرت اور بیانِ شریعت کو الگ الگ الگ کیا ہے ۔ پھر اسی عبارت میں دوحدیثیں خود نقل کرکے یہ بتایاہے کہ ان آحادیث میں درحقیقت بیان فطرت کا ہے۔ لوگوں نے اسے غلطی سے بیانِ شریعت سمجھ لیا ہے ۔بیانِ فطرت کے متعلق جناب غامدی نے بھرپوراور کماحقہ وضاحت نہیں کی ہے ، صرف یہ کہا ہے (1) کہ فطرت سے انسان کو طیبات اورخبائث کا علم اورادراک ہو جاتا ہے جیساکہ ہم نے قریب ہی اس حوالے سے جناب کی اپنی عبارت پیش کی ہے۔ آگے پھر وہ عبارت عنقریب آجائے گی ۔ مگر سرِدست احبابِ کرام ایک نظر پھراس گذشتہ عبارت پر ڈال لیں (2) اور یہ کہ فطرت سے انسان کو معروف ومنکر کا بھی علم ہوجاتا ہے جیساکہ جناب کا اگے فرمان ہے کہ ،، پہلی چیز ( یعنی فطرت کے حقائق ) کا تعلق ایمان واخلاق کے بنیادی حقائق سے ہے اور اس کے ایک بڑے حصے کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف اورمنکر سے تعبیرکرتاہے ۔ یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اوروہ جن سے فطرت ابا کرتی ہے اورانہیں براسمجھتی ہے ۔ قران ان کی کوئی جامع ومانع فہرست پیش نہیں کرتا بلکہ اس حقیقت کو مان کر کہ اس کے مخاطبین ابتداء سے معروف ومنکر دونوں کو پورے شعور کے ساتھ الگ الگ پہچانتے ہیں ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائیں اور منکر کوچھوڑیں ،، والمؤمنون والمؤمنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر ( التوبہ 71) ( ترجمہ) اور مومن مرداورمومن عورتیں ،یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، یہ باہم دیگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں ، اور منکر سے روکتے ہیں ( میزان ص 45) اس طرح کی بعض دیگر چیزوں کو بھی اس فطرت کی طرف جناب نے منسوب کیاہے ۔ اب ان عبارات کے بعد ہمارا بنیادی سوال اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ تو بہت بڑا فرق ہے کہ ایک چیز کو ہم عینِ شریعت سمجھتے ہیں ، ان افعال کے ارتکاب اورکرنے کو حرام و ناجائز جانتے ہیں مثلا کتے اور بھیڑیئے وغیرہ کو کھانا ہم حرام سمجھتے ہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں کو حرام قرادیا ہے ،، اورآخرت میں اس کے کھانے والے کےلیے عذاب کاتصورکرتے ہیں بشرطیکہ اسے کوئی عذر نہ ہو یا توبہ نہ کی ہو ۔ مگر دوسرا آدمی اسے بیانِ فطرت سمجھتا ہے نہ اس فعل کے حرمت کا قائل ہے ، اورنہ اس کے مرتکب کو مستحقِ عذاب سمجھتا ہے تو اگر اس بیانِ فطرت سے یہ مراد ہے جیساکہ ہم سمجھتے ہیں تو کیا اتنے بڑے فرق کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے بیان کیا تھا یا نہیں کیا تھا ؟ اگرکیا تھا تو اس کی مستنددلیل چاہئے ۔ اور اگر یہ فرق ان لوگوں کے سامنے بیان نہیں کیا تھا تو پھر اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بڑے سوالات اٹھتے ہیں (1) پہلا سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین مکمل لوگوں کونہیں پہنچایا حالانکہ قران نے تو آپ کو ،، یایھاالرسل بلغ ماانزل الیک من ربک فان لم تفعل فمابلغت رسالتہ ( المائدہ 67) فرمایا ہے ۔اس کے جواب میں کوئی بندہ ہمیں یہ نہیں کہہ سکتا ، کہ بیان فطرت ،، ماانزل الیک من ربک ،، نہیں ہے ۔ وہ اس لیے کہ جناب غامدی خود لکھتے ہیں کہ ،، یہ دین کی تاریخ ہے چنانچہ قران کی دعوت اس کے پیشِ نظر جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے وہ یہ ہیں (1) فطرت کے حقائق (2) دین ابراہیمی کی سنت (3) نبیوں کے صحائف ( میزان ص 45) تو جب تک اس بات کو باسندِ صحیح ثابت نہیں کیا جاتا تو اس قاعدہ کی پرِکاہ کے برابر بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اوراگر ،، بیانِ فطرت ،، کا مطلب آپ کے نزدیک یہ ہے کہ آپ لوگ بھی ان احکام کو مسلمانوں پرلازم الاتباع اور محرّم العصیان سمجھتے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور آخرت میں اس کے فاعل وتارک کو مستحق الثواب والعقاب گردانتے ہیں ۔صرف اتنا فرق کرتے ہیں کہ اس علم کو ماخوذ ازوحی نہیں جانتے بلکہ ماخوذ از فطرت جانتے ہیں تو پھر بھی ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک پھراس علم کے اخذ کردن ودانستن کے بعد اس کے اتباع واطاعت کرنے میں عام انسان اور نبی علیہ السلام دونوں برابر ہیں یا ان میں فرق موجود ہے ؟ اگر دونوں ایک جیسے ہیں تو پھر یہ ہمارے نزدیک صریح ضلالت ہے ۔ اور اگر فرق موجود ہے تو وہ صرف اخذکردن ودانستن میں ہے یا پھراتباع واطاعت میں بھی ہے ؟ اگر صرف پہلی چیز میں ہے تو پھر یہ بھی ہمارے نزدیک صریح ضلالت ہے۔ اوراگر وہ فرق اتباع اور اطاعت میں بھی ہے تو پھر وہ معروف فرق کی طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اقوال میں بھی لازم الاتباع ہے مگر غیر لوگ لازم الاتباع نہیں ہیں یا کوئی اور فرق ہے ؟اگر پہلی بات ہے تو پھر آپ کے اس قاعدے کا کیا فائدہ ہوا جب کہ اس سے کچھ فرق اس مسئلہ پر نہیں پڑا ۔ اوراگر دوسرا کوئی فرق ہے تو اس کی توضیح کرلیں تاکہ ہم اس کا جائز لے سکیں (2) دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک حکم دیتے ہیں تو ان کا اتباع اس صورت میں لازم نہیں آتا ۔جب وہ یاتو زلت اورلغزش ہو اللہ تعالی نے اس فعل پرگرفت کی ہو یاانھوں نے خود اس سے براءت کااظہار کیا ہو ، یا پھران کی ذات کی حد تک کسی دلیل سے مخصوص ہو اور یاپھر وہ عادی فعل ہو ،شرع سے اس کا تعلق نہ ہو جیسا کہ کھجور کے پیوند اورتلقیح کرنے کا مسئلہ تھا ۔مگر اس کے لیے بھی دلیل کی ضرورت ہوگی ورنہ عام حالت میں ان کے تمام افعال لازم الاتباع ہوتے ہیں ۔اب جن چیزوں کو آپ بیان فطرت قرار دیتے ہیں وہ ان تین مذکورہ صورتوں میں تو بہرحال داخل نہیں ہیں جیساکہ صراحتا آپ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے ۔توآخر پھر کس بنا پر آپ اس حکم کو لازم الاتباع نہیں مانتے جیسا کہ آپ کے ظاہر کلام سے ہویدا ہے ؟ ہاں اگر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک نہ تو یہ سنتِ ابراہیمی میں داخل ہیں اور نہ ہی قران مجید کی تبین ہیں بلکہ قران پرزائدہیں اوراخبارِآحاد ہیں اس لیے ہم انہیں نہیں مانتے ۔تو پھر ہم عرض کرتے ہیں کہ آپ بے شک نہ مانیں مگر اپنا مسلک تو صاف صاف بیان کردیجئے ناں ۔لوگوں کو پریشانیوں میں مبتلا کرنا کوئی دین کی خدمت تو نہیں ہے البتہ التباس سے اپنے دل کو بہرحال کچھ دیر کےلیے تسکین مل جاتی ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش،...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...