حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 39)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی ،،طیبات اورخبائث ،، کی اس مبحث کو بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، جانوروں کی حلت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلا یہی چارہی چیزیں ہیں ۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ،، قل لااجد فی ما اوحی الیّ ،، اور بعض جگہ ،، انما ،، کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قراردی ہیں ۔بقرہ میں ہے ،، یاایھا الذین امنوا کلوا من طیبت من رزقناکم واشکرواللہ ، ان کنتم ایاہ تعبدون انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر ومااھل بہ لغیراللہ ( البقرہ 172 ، 173 ) ( ترجمہ ) ایمان والوں کھاؤ پیو پاکیزہ چیزیں جو ہم نےتمھیں عطاکی ہیں اور اللہ کاشکرادا کرو اگر تم اسی کی بندگی کرنے والے ہو ، اس نے بس تمھارے لیے مرداراورخون اورسؤر کاگوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھہرایا ہے ۔،، انعام میں فرمایا ہے ،، قل لااجد فی مااوحی الیّ محرما علی طاعم یطعمہ الاان یکون میتة اودما مسفوحا اولحم خنزیر فانہ رجس اوفسقا اھل لغیراللہ بہ ( الانعام 145) ( ترجمہ ) کہہ دو میں اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے کسی کھانے والے پر کوئی چیز جسے وہ کھاتا ہے ، حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یابہایا خون ہو یاسؤرکا گوشت ہو اس لیے کہ یہ سب ناپاک ہیں ، یااللہ کی نافرمانی کرتےہوئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کاذبیحہ ،، ( میزان ص 37) یہاں پر پہلی بات احباب کو یہ سمجھ لینے کی ہے کہ جناب غامدی کو تو جو چیز بھی اپنے حق میں ملتی ہے وہ اس سے کام لیتے ہیں ۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کوئی تک بنتی بھی ہے یا نہیں ؟ مثلا سورتِ انعام کی آیت ،، قل لااجد فی ما اوحی الی ،، جواوپر درج ہے ، مکی سورت ہے۔ اور پھراس میں ماضی کی بات ہے یعنی جو ،، وحی ،، مجھے ہوئی ہے اس میں ان چار کے سوا اورچیزوں کی حرمت موجود نہیں ہے ،، فی ما اوحی الیّ ،، اس میں مستقبل کی محرّمات کے اضافے کی نفی کہاں موجود ہے ؟ اور اللہ تعالی نے قران میں ہی ان چار پر بعد میں اضافہ فرمایاہے جیساکہ ہم بعد میں واضح کریں گے ۔مگر جناب غامدی فخرِالدین رازی وغیرہ کے اتباع میں اس سے بھی ماشاء اللہ استدلال کرتے ہیں (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے اس ،، تحقیق ،، میں امامِ فخر الدین رازی اور مولانا مودودی وغیرہ کی تقلید اورپیروی کی ہے ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ ،، واعلم ان ھذہ السورة مکیة فبین تعالی فی ھذہ السورة المکیة انہ لامحرم الا ھذہ الاربعة ثم اکد ذالک بان قال فی سورة النحل انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر ومااھل لغیراللہ بہ فمن اضطر غیرباغ ولا عاد فان اللہ غفور الرحیم ( النحل 115) وکلمة ،،انما ،، تفیدالحصر فقد حصلت لنا آیتان مکیتان یدلان علی حصر المحرمات فی ھذہ الاربعة فبین فی سورة البقرہ وھی مدنیة ایضا انہ لامحرم الا ھذہ الاربعة فقال ،، انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر ومااھل بہ لغیراللہ ،( البقرہ 173) وکلمة ،،انما ،، تفید الحصر فصارت ھذہ الایة المدنیةمطابقة لتلک الایةالمکیة لان کلمة ،، انما ،، تفید الحصر فکلمة ،،انما ،، فی الایةالمدنیة مطابقة لقولہ تعالی ،، قل لااجد فیما اوحی الی محرما ،، الا کذاوکذا فی الایةالمکیة ثم ذکرتعالی فی سورةالمائدہ قولہ تعالی ،، احلت لکم بھیمةالانعام الا مایتلی علیکم ( المائدہ 1) واجمع المفسرون علی ان المراد بقولہ ،، الا مایتلی علیکم ،، ھوماذکرہ بعدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فثبت ان الشریعة من اولھا الی اخرھا کانت مستقرة علی ھذاالحکم وعلی ھذاالحصر ( الکبیر ج 5 ص 168) پھر جب رازی نے محرمات کو ان چار پر محصور قرار دیا ہے تو ان کے اس ،، حصروقصر ،، کیوجہ سے ان پر اعتراضات اور اشکالات اس مبحث میں وارد ہوئے ہیں ۔ ان کا پھرانھوں نے مفصل تذکرہ کیا ہے اور ان کے جوابات اپنے خیال میں دیئے ہیں ۔احباب باقی تفصیل وہاں دیکھ لیں ۔ اس اوپر درج عبارت کی اشکالات کو ہم اگے واضح کریں گے ان شاءاللہ تعالی ۔ اب مولانا مودودی کی عبارت دیکھ لیں ۔ وہ کچھ مذاہبِ فقہاء نقل کرنے کے بعد اپنا نقطہ نظریوں پیش کرتے ہیں کہ ،، ان مختلف اقوال اوران کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعتِ الہی میں قطعی حرمت ان چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قران میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے ۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حرمت کے درجے سے قریب ترہے۔اورجن چیزوں میں فقہاء کرام کا اختلاف ہواہے ان کی کراہت مشکوک ہے ( تفھیم القران ج1ص 593) مگر جناب غامدی تو قران اور اپنی ،، مزعوم ،، سنتِ متواترہ کے علاوہ کسی چیز کو حرام ہی نہیں مانتے ۔ اس لیے ان کا راستہ ادھر آکر مولانا مودودی اور امامِ رازی سے جدا ہوجاتا ہے (3) تیسری بات ہم جناب غامدی کی اصل عبارت کے حوالے سے یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس آیت میں قصر وحصر تو بہرحال موجود ہے جس کا انکار نہیں ہو سکتا ۔ مگرسوال یہ ہے کہ پہلے دلائل سے یہ بتائے جناب کہ ان آیات میں قصر حقیقی یا کہ اضافی ہے ؟ اور پھر دلائل سے یہ بتائے کہ اضافی میں پھر قصر ،، قصرِ قلب ہے یا قصرِافراد ہے ، یا پھر قصرِتعیین ہے ؟ پھر یہ بتائے کہ ان تین قصروں میں تخصیص کس کے بنسبت ہوتی ہے ؟ آپ نے اپنی بات تو بیان کی ہے مگر ان چیزوں کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے ۔ ھمارے نزدیک یہاں قصرِقلب ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ مشرکین ان چار چیزوں کو جائز سمجھتے تھے جیساکہ ہم نے گذشتہ مباحث میں اس بات کی تفصیل کی ہے ۔ تو جب حقیقت یوں ہے تو پھر دوسرے ،، محرم جانوروں ،، کی ان آیات میں کوئی نفی موجود نہیں ہے الا یہ کہ جناب غامدی فقہاء کرام اورعلماء کی عداوت میں علمِ بلاغت کی نفی میں بھی جت جائیں ( 4) چوتھی بات یہ ہے کہ یہ بات اگر جناب غامدی نہ مانیں تو پھر خود ان کو بھی مشکل پیش آئے گی کہ ،، قران نے تو صرف یہ چار جانور حرام نہیں کیے ہیں جیسا کہ جناب غامدی کافرمان گذرا ہے۔، بلکہ محرم جانوروں کی پانچویں قسم بھی بیان کی ہے ۔ اور وہ ہے ،، وماذبح علی النصب ( المائدہ 3) ،، اور وہ حیوانات جو استانوں پر ذبح ہوجائیں ، وہ بھی حرام ہیں ،، ۔جناب غامدی اپنے ،، استاد امام ، سے اس ٹکڑے کی تشریح یوں نقل کرتے ہیں کہ ،، نصب ، تھان اوراستھان کو کہتے ہیں ۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے جہاں دیویوں ، دیوتاؤں ، بھوتوں ، جنوں کی خوشنودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ قران نے اس قسم کے ذبیحے بھی حرام قراردیئے ۔قران کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ ان کے اندر حرمت مجرد بارادہِ تقرب وخوشنودی استھانوں پر ذبح کیے جانے سے ہی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس سے بحث نہیں ہے کہ ان پر نام اللہ کا لیا گیا ہے یاکسی غیراللہ کا ۔اگر غیراللہ کانام لینے کے سبب سے ان کو حرمت لاحق ہوتی توان کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اوپر ، مااھل لغیراللہ بہ ، کا ذکرگذرچکا ہے وہ کافی تھا ۔ہمارے نزدیک اسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جومزاروں اورقبروں پرپیش کی جاتی ہیں ۔ ان میں صاحبِ مزار اورصاحبِ قبرکی خوشنودی مدنظرہوتی ہے ۔ ذبح کے وقت چاہے نام اللہ کالیا جائے یا صاحبِ قبرومزار کا ان کی حرمت میں نام کودخل نہیں بلکہ مقام کوحاصل ہے ( البیان ج1 ص 594) اور یہ قاعدہ تو اطفالِ مکتب کو بھی معلو ہے کہ جب ایک عام نص اورآیت سے ایک بار تخصیص ہوجاتی ہے تو اس سے دوبارہ بالقیاس اور خبرِ واحد سے بھی تخصیص کرسکتے ہیں ۔اسی طرح قران میں دوسری جگہ اور حیوانات کو بھی حرام قرادیا گیا ہے ۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے ،، ولاتاکلوا ممالم یذکراسم علیہ ( انعام 121) یعنی ان حیوانات کو بھی نہ کھاو جن پراللہ کا نام بوقتِ ذبح نہ لیا گیا ہو ،، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جب تخصیص اس قرانی آیت کی ہوگئی ہے تو پھر ،، محرم جانوروں ،، میں ،، کچلی والے درندے ،، اور ،، چنگال والے پرندے ،، سب ہی شامل ہیں ۔ مگر ہماری یہ بات جناب غامدی کہاں اتنی بآسانی تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا اوپرمذکورہ ،، قاعدہ ،، پھر ٹوٹ جائے گا ۔اس لیے انھوں نے اس بات اوران اعتراضات کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...