غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 39)

Published On March 5, 2024
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی ،،طیبات اورخبائث ،، کی اس مبحث کو بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، جانوروں کی حلت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلا یہی چارہی چیزیں ہیں ۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ،، قل لااجد فی ما اوحی الیّ ،، اور بعض جگہ ،، انما ،، کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے   کہ اللہ تعالی نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قراردی ہیں ۔بقرہ میں ہے ،، یاایھا الذین امنوا کلوا من طیبت من رزقناکم واشکرواللہ ، ان کنتم ایاہ تعبدون انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر ومااھل بہ لغیراللہ ( البقرہ 172 ، 173 ) ( ترجمہ ) ایمان والوں کھاؤ پیو پاکیزہ چیزیں جو ہم نےتمھیں عطاکی ہیں اور اللہ کاشکرادا کرو اگر تم اسی کی بندگی کرنے والے ہو ، اس نے بس تمھارے لیے مرداراورخون اورسؤر کاگوشت اور غیراللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھہرایا ہے ۔،، انعام میں فرمایا ہے ،، قل لااجد فی مااوحی الیّ محرما علی طاعم یطعمہ الاان یکون میتة اودما مسفوحا اولحم خنزیر فانہ رجس اوفسقا اھل لغیراللہ بہ ( الانعام 145) ( ترجمہ ) کہہ دو  میں اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے   کسی کھانے والے پر کوئی چیز جسے وہ کھاتا ہے ، حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو  یابہایا خون ہو   یاسؤرکا گوشت ہو اس لیے کہ یہ سب ناپاک ہیں ، یااللہ کی نافرمانی کرتےہوئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کاذبیحہ ،، ( میزان ص 37)  یہاں پر پہلی بات احباب کو یہ سمجھ لینے کی ہے  کہ جناب غامدی کو تو جو چیز بھی اپنے حق میں ملتی ہے   وہ اس سے کام لیتے ہیں ۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کوئی تک بنتی بھی ہے یا نہیں ؟ مثلا سورتِ انعام کی آیت  ،، قل لااجد فی ما اوحی الی ،، جواوپر درج ہے ، مکی سورت ہے۔ اور پھراس میں ماضی کی بات ہے  یعنی جو ،، وحی ،، مجھے ہوئی ہے اس میں ان چار کے سوا اورچیزوں کی حرمت موجود نہیں ہے ،، فی ما اوحی الیّ ،، اس میں مستقبل  کی محرّمات کے اضافے کی نفی کہاں موجود ہے ؟ اور اللہ تعالی نے قران میں ہی ان چار پر بعد میں اضافہ فرمایاہے جیساکہ ہم بعد میں واضح کریں گے ۔مگر جناب غامدی فخرِالدین رازی وغیرہ کے اتباع میں اس سے بھی ماشاء اللہ استدلال کرتے ہیں  (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے اس ،، تحقیق ،، میں امامِ فخر الدین رازی اور مولانا مودودی وغیرہ کی تقلید اورپیروی کی ہے ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ ،، واعلم ان ھذہ السورة مکیة فبین تعالی فی ھذہ السورة المکیة انہ لامحرم الا ھذہ الاربعة ثم اکد ذالک بان قال فی سورة النحل انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر ومااھل لغیراللہ بہ فمن اضطر غیرباغ ولا عاد فان اللہ غفور الرحیم ( النحل 115) وکلمة ،،انما ،، تفیدالحصر فقد حصلت لنا آیتان مکیتان یدلان علی حصر المحرمات فی ھذہ الاربعة فبین فی سورة البقرہ وھی مدنیة ایضا انہ لامحرم الا ھذہ الاربعة فقال ،، انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر ومااھل بہ لغیراللہ ،( البقرہ 173) وکلمة ،،انما ،، تفید الحصر فصارت ھذہ الایة المدنیةمطابقة لتلک الایةالمکیة لان کلمة ،، انما ،، تفید الحصر فکلمة ،،انما ،، فی الایةالمدنیة مطابقة لقولہ تعالی ،، قل لااجد فیما اوحی الی محرما ،، الا کذاوکذا فی الایةالمکیة ثم ذکرتعالی فی سورةالمائدہ قولہ تعالی ،، احلت لکم بھیمةالانعام الا مایتلی علیکم ( المائدہ 1) واجمع المفسرون علی ان المراد بقولہ ،، الا مایتلی علیکم ،، ھوماذکرہ بعدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فثبت ان الشریعة من اولھا الی اخرھا کانت مستقرة علی ھذاالحکم وعلی ھذاالحصر ( الکبیر ج 5 ص 168)  پھر جب رازی نے محرمات کو ان چار پر محصور قرار دیا ہے   تو ان  کے اس ،، حصروقصر ،،  کیوجہ سے ان پر اعتراضات اور اشکالات اس مبحث میں وارد ہوئے ہیں ۔ ان کا پھرانھوں نے مفصل تذکرہ کیا ہے اور ان کے جوابات اپنے خیال میں دیئے ہیں ۔احباب باقی تفصیل وہاں دیکھ لیں ۔ اس اوپر درج عبارت کی اشکالات کو ہم اگے واضح کریں گے ان شاءاللہ تعالی ۔ اب مولانا مودودی کی عبارت دیکھ لیں ۔ وہ کچھ مذاہبِ فقہاء نقل کرنے کے بعد اپنا نقطہ نظریوں پیش کرتے ہیں کہ ،، ان مختلف اقوال اوران کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعتِ الہی میں قطعی حرمت ان چار ہی چیزوں کی ہے  جن کا ذکر قران میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے ۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حرمت کے درجے سے قریب ترہے۔اورجن چیزوں میں فقہاء کرام کا اختلاف ہواہے ان کی کراہت مشکوک ہے ( تفھیم القران  ج1ص 593)  مگر جناب غامدی تو قران اور اپنی ،، مزعوم ،، سنتِ متواترہ کے علاوہ کسی چیز کو حرام ہی نہیں مانتے ۔ اس لیے ان کا راستہ ادھر آکر مولانا مودودی  اور امامِ رازی سے جدا ہوجاتا ہے  (3) تیسری بات ہم جناب غامدی کی اصل عبارت کے حوالے سے یہ کرنا چاہتے ہیں   کہ اس آیت میں قصر وحصر تو بہرحال موجود ہے  جس کا انکار نہیں ہو سکتا ۔ مگرسوال یہ ہے کہ پہلے دلائل سے یہ بتائے جناب کہ ان آیات میں قصر حقیقی یا کہ اضافی ہے ؟ اور پھر دلائل سے یہ بتائے کہ اضافی میں پھر قصر ،،  قصرِ قلب ہے  یا قصرِافراد ہے ، یا پھر قصرِتعیین ہے ؟ پھر یہ بتائے کہ ان تین قصروں میں تخصیص کس کے بنسبت ہوتی ہے ؟ آپ نے اپنی بات تو بیان کی ہے مگر ان چیزوں کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے ۔ ھمارے نزدیک یہاں قصرِقلب ہے   جس کی دلیل یہ ہے کہ مشرکین ان چار چیزوں کو جائز سمجھتے تھے جیساکہ ہم نے گذشتہ مباحث میں اس بات کی تفصیل کی ہے ۔ تو جب حقیقت یوں ہے  تو پھر دوسرے ،، محرم جانوروں ،، کی ان آیات میں کوئی نفی موجود نہیں ہے الا یہ کہ جناب غامدی فقہاء کرام اورعلماء  کی عداوت میں علمِ بلاغت کی نفی میں بھی جت جائیں ( 4) چوتھی بات یہ ہے کہ یہ بات اگر جناب غامدی نہ مانیں تو پھر خود ان کو بھی مشکل پیش آئے گی کہ ،، قران نے تو صرف یہ چار جانور حرام نہیں کیے ہیں جیسا کہ جناب غامدی کافرمان گذرا ہے۔، بلکہ محرم جانوروں کی پانچویں قسم بھی بیان کی ہے ۔ اور وہ ہے ،، وماذبح علی النصب ( المائدہ 3)  ،، اور وہ حیوانات جو استانوں پر ذبح ہوجائیں ، وہ بھی حرام ہیں ،، ۔جناب غامدی اپنے ،، استاد امام ، سے اس ٹکڑے کی تشریح یوں نقل کرتے ہیں کہ ،، نصب ، تھان اوراستھان کو کہتے ہیں ۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے   جہاں دیویوں ، دیوتاؤں ، بھوتوں ، جنوں کی خوشنودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں ۔ قران نے اس قسم کے ذبیحے بھی حرام قراردیئے ۔قران کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ ان کے اندر حرمت مجرد بارادہِ تقرب وخوشنودی استھانوں پر ذبح کیے جانے سے ہی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس سے بحث نہیں ہے کہ ان پر نام اللہ کا لیا گیا ہے   یاکسی غیراللہ کا ۔اگر غیراللہ کانام لینے کے سبب سے ان کو حرمت لاحق ہوتی توان کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اوپر ، مااھل لغیراللہ بہ ، کا ذکرگذرچکا ہے  وہ کافی تھا ۔ہمارے نزدیک اسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جومزاروں اورقبروں پرپیش کی جاتی ہیں ۔ ان میں صاحبِ مزار اورصاحبِ قبرکی خوشنودی مدنظرہوتی ہے ۔ ذبح کے وقت چاہے نام اللہ کالیا جائے یا صاحبِ قبرومزار کا ان کی حرمت میں نام کودخل نہیں بلکہ مقام کوحاصل ہے ( البیان ج1 ص 594) اور یہ قاعدہ تو اطفالِ مکتب کو بھی معلو ہے کہ جب ایک عام نص اورآیت سے ایک بار تخصیص ہوجاتی ہے   تو اس سے دوبارہ بالقیاس اور خبرِ واحد سے بھی تخصیص کرسکتے ہیں ۔اسی طرح قران میں دوسری جگہ اور حیوانات کو بھی حرام قرادیا گیا ہے  ۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے ،، ولاتاکلوا ممالم یذکراسم علیہ ( انعام 121)  یعنی ان حیوانات کو بھی نہ کھاو جن پراللہ کا نام بوقتِ ذبح نہ لیا گیا ہو ،، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جب تخصیص اس قرانی آیت کی ہوگئی ہے تو پھر ،، محرم جانوروں ،، میں ،، کچلی والے درندے ،، اور ،، چنگال والے پرندے ،، سب ہی شامل ہیں  ۔ مگر ہماری یہ بات جناب غامدی کہاں اتنی بآسانی تسلیم کر سکتے ہیں  کیونکہ ان کا اوپرمذکورہ  ،، قاعدہ ،، پھر ٹوٹ جائے گا ۔اس لیے انھوں نے اس بات اوران اعتراضات کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…