غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 32)

Published On February 29, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

قراءآتِ متواترہ پراعتراضات کے سلسلے کا اخری ٹکڑا یہ ہے جس میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، ان کی ابتدا ہوسکتا ہے کہ عرضہِ اخیرہ سے پہلے کی قراءآت پر بعض لوگوں کا اصرار اور ان کے راویوں کے سہو ونسیان سے ہوئی ہو  لیکن بعد میں انہی محرکات کے تحت جووضعِ حدیث کے باعث ہوئے ، ان قراءتوں کے فروغ کا یہ عالم ہوا کہ بنو امیہ کی اختتام تک یہ قراءتیں دسیوں کی تعداد میں منظرِعام پرآچکی تھیں ۔بیان کیاجاتا ہے کہ ابوعبید قاسم بن سلام نے جن کی وفات 224 ھ میں ہوئی ، ان میں پچیس کا انتخاب اپنی کتاب میں کیا تھا ۔ اس وقت جو سات قراءتیں مشہور ہیں ، یہ ابوبکر بن مجاہد نے تیسری صدی کے آخر میں کسی وقت منتخب کی تھیں۔ لہذا یہ عام طور پر مانی جاتی ہیں  ۔ ان کی کوئی مقدار متعین نہیں کی جاسکتی ، بلکہ ہر وہ قراءت قران ہے جس کی سند صحیح ہو ، جومصاحفِ عثمانی سے احتمالا ہی سہی موافقت رکھتی ہواور کسی نہ کسی پہلو سے عربیت کے مطابق قراردی جاسکے ۔ ان میں بعض کو لوگ متواتر بھی کہتے ہیں  درآن حالیکہ ان کی جو سندیں کتابوں میں موجود ہیں انہیں دیکھنے کے بعد اس بات میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ یہ محض آحاد ہیں  جن میں اکثر کے راوی آئمہِ رجال کے نزدیک مجروح ہیں ۔ چنانچہ قرانِ متواتر تو ایک طرف  انہیں کوئی صاحبِ نظر حدیث کی حیثیت سے بھی آسانی کے ساتھ قبول نہیں کرسکتا ( میزان ص 32) ہم ان اعتراضات کے حوالے سے چند باتیں دوستوں کے سامنے رکھتے ہیں  (1) پہلی بات اس مورد میں یہ ہے کہ آپ کے بقول ،، قران کا کہنا ہے کہ عرضہِ اخیرہ سے پہلے صرف ایک قراءت موجود تھی  جو پھر عرضہِ اخیرہ میں منسوخ ہوگئی ۔اس کے بدلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دوسری قراءت دی گئی تھی جو اب قراءتِ عامہ کہلاتی ہے ،، اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ کہنا کہ  ،، ابتداء سے  ہوسکتا ہے کہ عرضہِ اخیرہ سے پہلے کی قراءت پر بعض لوگوں کے اصرار اور اس میں راویوں کے سہو ونسیان ہی سے ہوگئی ہو ،،  جس بات کی غمازی کررہا ہے اس کے چھپانے پر آپ قادر نہیں ہو سکے ہیں ۔ اصل بات یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ وہ بات پورازور لگانے کے باوجود ثابت نہیں کرسکے کہ صحابہِ کرام کو انہوں نے اس نسخ سے آگاہ کیا تھا اور پھر صحابہِ کرام رضوان اللہ علیھم نے اپنے دورِخلافت میں لوگوں کو قراءآت کے مسئلہ سے باخبر رکھا تھا ۔اگر ایسا ہوا ہے تو آپ اس بات کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے اپنی گردن اس مشکل سے چھڑالیں۔ مگر ایسی کوئی بات ذخیرہِ حدیث میں قطعی موجود نہیں ہے ۔ آپ کو خیال آیا کہ جب نسخِ قراءت کی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہےتو پھر لازم ہے کہ لوگ ان قراءتوں کو مان لیں گےبلکہ حرزِجان بنالیں گے  تو آپ نے اس کو ،، جعلی اور مصنوعی رنگ دینے ،، کی بھرپور کوشش کی کہ ممکن ہے ،، کہ  اس کی ابتداء بعض لوگوں کے اس منسوخ قراءت پر اصرار اور راویوں کے سہو ونسیان سے ہوئی ہو ،، مگر سوال یہ ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قراءتوں کی واقعی نفی کی تھی  اور اسے ناجائز وحرام قرار دیا تھا جیساکہ آپ نے قران مجید پر یہ تہمت باندھی ہے  تو پھر بعض صحابہِ کرام کا اس پر اصرار چہ معنی دارد ؟کیاوہ قران مجید اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے منع کرنے کے باوجود ناجائز اور حرام کام پر اصرار کرتے تھے ؟ نہیں ایساقطعا نہیں ہے ۔اور ،، بعض راویوں کے سہو ونسیان ،، کا بھی خوب فلسفہ گھڑا ہے آپ نے ؟ لیکن سوال یہ ہے کہ سہو ونسیان تو چند الفاظ اور جملوں میں عموما رواج پاتا ہے۔، پورے کے پورے قراءآت کو رواج دینے کا سہو ونسیان سے کیا تعلق ہے ؟ جبکہ صحابہِ کرام اور تابعین وہ کام علانیہ ہی کرتے ہوں؟ پھر سہوونسیان کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ؟ اس کے بعد بھی اگر جناب غامدی کو اپنے  اس ،، من گھڑت فلسفے ،، پر اصرار ہو  تو پھر وہ اس بات کے دلائل فراہم کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہِ کرام کو نسخِ قراءآت کی اطلاع دی تھی ؟ اور انہیں بتایا تھا کہ اب ان سابق قراءتوں کا ،، تم کو پڑھنا حرام وناجائزہوگا ،،؟  مگر اس کے بعد فلان فلان صحابہِ کرام نے اسی منسوخ قراءت پر اصرار کو جاری رکھا اور یا انھوں نے ان قراءآت کو صحابہِ کرام سے خفیہ طریقے دوسرے صحابہ اورتابعین کو سکھایا تھا؟ اور اگر آپ ان باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ سے ثابت نہیں کرسکتے جیساکہ ظاہر ہے تو پھر ،، بعض لوگوں کے اصرار اور راویوں کے سہوونسیان کی بات محض ،، آپ کا من گھڑت افسانہ ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے  ،، کیونکہ ناجائزاورحرام کام جب لوگ علانیہ اوراصرار کے ساتھ کرتے ہوں اگرچہ وہ علی طریق السہو والنسیان کیوں نہ ہو ،، تو لوگ ان کو ٹھوکتے اورمنع کرتے ہیں اگر وہ ارتکاب کرنے والے اس کام سے نہ رکیں تو عوام مسلمان پھر ان کے مخالف بن جاتے ہیں   اورانھیں برملا برابھلا کہتے ہیں جیساکہ مشاہدہ ہے ۔مگر جناب غامدی کے اس ،، من گھڑت فلسفہ ،، میں ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ محض جناب غامدی کی سخن سازی ہے ۔اور پھر ابوعبید قاسم بن سلام کی وفات  224 ھ ھجری یا اس سے کچھ پہلے تک وہ تعداد کیسے 25 قراءآت تک پہنچ گئی ہے ؟ کیا وضع کی رفتار ایسی ہوتی ہے ؟ اورکیا امام قاسم بن سلام جیسے محقق نے بھی ان وضعی قراءآت کو قبول کرلیا تھا ؟ کیا اس دورِ خیرالقرون میں جناب غامدی کی طرح کوئی بھی خدا ترس عالم پیدا نہیں ہوا جو لوگوں کو یہ بات سمجھائے  کہ جسے تم لوگ متواتر قراءآت مانتے ہو وہ ساری من گھڑت اور وضعی قراءآت ہیں ؟ اگر ایسے لوگ اس دور میں پیدا ہوئے تھے اوراس امام قاسم بن سلام کا راستہ روکا تھا  اور ان پر کفر وزندیقیت کے فتوی اسی بناپر لگائے تھے  تو ذرا ان علماءکرام کے نام اور ان کی کتابوں کے نام لے لیں تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو ؟ اوراگر ایسے لوگ پیدا نہیں ہوئے تھے  تو پھر سلفِ طیب کی کیا قیمت رہی کہ وہ قران تک کی حفاظت نہیں کرسکے ۔ وہ تو پھر سارے کے سارے فی الحقیقت مستحقِ پھٹکارولعنت ہیں ؟ اور پھر یہ کیابا ت ہوئی ہے کہ موضوع روایات کے خلاف تو لکھنے اور بولنے والوں نے بے شمار کتابیں لکھی ہیں مگر ،، قراءت عامہ ،، کے علاوہ جتنے بھی ،، قراءآتِ متواترہ ،، ہیں ، جو بقولِ جناب غامدی سب کے سب موضوع ہیں ، ان کے خلاف کسی نے کوئی کتاب نہیں لکھی ؟ کیا یہ باور کرنے والی بات ہے ؟ اگر سوچا جائے تو خود جناب غامدی کی اس بات ( کہ بنوامیہ کے دور تک قراءتیں پچیس تک پہنچ گئی تھیں ) میں بھی اس کی تردید موجود ہے ۔ جب پرویز وغیرہ نے تمام حدیثوں کو جعلی کہنے کا پروپیگنڈا زور سے شروع کیا  تو مولانا مودودی مرحوم نے اس کے جواب میں لکھا تھا کہ ،، جعلی سکے لوگ اس وقت لوگ  بناتے ہیں جب مارکیٹ میں اصل سکہ کی چلن اور رواج ہو ،،  بعینہ یہی بات ادھر موجود ہے ۔ اگر ایک قراءت کے سوا سب قراءتیں ناجائز اور حرام ہیں  اور سب مسلمانوں کو اس کا پتہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین نے ان کو بتایا ہوگا جیسا کہ جناب غامدی کے ،، اس فلسفے ،، کا یہ بدیہی اورصریح تقاضا ہے  تو جعلی قراءآت بنانے کی پھر کوئی وجہ نہیں رہتی ۔اور اگر جعلی قراءآت بنتی ہیں تو پھر اس کامطلب یہ ہے کہ اسلام میں اصل سکہ کا بھی چلن اور رواج موجود تھا۔ اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے لوگوں کو یہ نہ بتایا ہو کہ دیگر قراءآت میں کچھ بھی متواتر نہیں ہیں اور یہ بھی نہ بتایاہو کہ ساری  قراتیں حرام وناجائز ہیں  تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ِکرام کے اس مسئلہ سے سکوت اورنہ بتانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان قراءآت کو ناجائز وحرام کہتاہھے اور لوگوں کو اس الزام سے متہم کرتا ہے تو یہ اس کی غفلت ہے کیونکہ اب تو اس آدمی کے نزدیک اصل اعتراض کے مورد رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہِ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی بنیں گے عوام بے چارے نہیں کیونکہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے ۔ان بے تمام چارے عوام کو تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسم اورصحابہِ کرام نے اس حرام اور ناجائز کام سے غافل اور بے خبر رکھا ہے لہذا بات بہت اوپر چلی گئی ہے ۔ اب پہلے آپ اس مشکل کو حل کرلیں  پھر اگلی باتیں ہو نگیں ۔جناب غامدی نے یہ بھی بتانے کی تکلیف گوارانہیں کی ہے کہ ابوعبید قاسم بن سلام نے صرف موضوعی قراءآت کو اس کتاب میں جمع کیا تھا ؟ یا پھرکچھ متواترات قراءآت وغیرہ بھی اس میں موجود تھیں ؟ اگر پہلی بات ہے  تو اس کی دلیل ہمیں چاہئے ۔اور پھرآپ کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ امام قاسم بن سلام وضاع تھے اور فلان فلان امام نے اس کی وضع کے خلاف یہ اور یہ لکھا ہے ۔ یاپھر یہ بتانا ہوگا کہ انھوں نے وضع قراءآت کے لیے کتاب لکھی  مگر کسی نے بھی ان کو وضاع نہیں کہا۔ سب کے سب خیرالقرون والے ان کے خلاف مہربلب تھے  تو پھر آپ کا دعوی خود بخود مرجائے گا ۔ اوراگر دوسری بات ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ دورِخیرالقرون میں متواتر قراءآت کا سلسلہ الحمد للہ موجود تھا  جیساکہ اہلِ سنت والجماعت کا مذہب ہے ۔باقی  آپ کا یہ کہنا کہ یہ جو سات قراءتیں مشہور ہیں ، یہ ابوبکر بن مجاہد نے تیسری صدی کی آخر میں کسی وقت منتخب کی تھی ،، ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر بعد کے انتخاب سے کسی متواتر پر اعتراض وارد ہوسکتا ہے  تو پھر آپ ہمیں اپنے محبوب موضوع کے  ،، متواتر ،، کے متعلق بتائیں کہ ،،الحماسہ ،،  ،،المفضلیات ،، ، الاصمعیات ،، جیسی کتابیں کیا دورِجاہلی میں مرتب ہوگئی تھیں؟ اگرہاں تو دلیل فراہم کیجئے گا ورنہ وہ پھر کس طرح متواتر کے صف میں آکرکھڑی ہوگئیں ہیں ؟ جیسا کہ آپ اسے مسلسل ،، متواتر ،، قرار دیتے آئے ہیں ۔ پھر آپ کی اس  بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی ،، تواتر ،،  کےلیے مستشرقین کی طرح لکھنے کو شرط قرار دیتے ہیں ؟ مگر سوال یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے محققین میں سے آخر کس معتبرعالم نے اس چیز کو ،، متواتر ،، ہونے کے لیے شرط قراردیا ہے ؟ اگر کسی نے اسے شرط نہیں کیا ہے  تو پھر آپ کے اس فاسد اعتراض کا آخر کیا  مطلب ہے  ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…