غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

Published On February 29, 2024
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

مولانا واصل واسطی

چوتھے اعتراض میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع وتدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ قران  جیسا کہ اس بحث کی ابتداء میں بیان ہوا ، اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہِ راست اللہ تعالی کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عینِ حیات  میں مرتب ہوا ہے  ۔لیکن یہ روایتیں اس کے برخلاف دوسری ہی داستان سناتی ہیں  جسے نہ قران قبول کرتا ہے اور نہ عقلِ عام ہی کسی طرح ماننے کےلیے تیار ہوسکتی ہے ، صحاح میں یہ روایات اصلا ابن شھابِ زہری کی وساطت سے آئی ہیں ، آئمہِ رجال انہیں تدلیس اورادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں اس کے ساتھ اگران کے وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں  جوامام لیث بن سعد نے امامِ مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں  تو ان کی کوئی روایت بھی اس طرح کے اہم معاملات میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی ، وہ لکھتے ہیں ،، وکان یکون من ابنِ شھاب اختلاف کثیر اذالقیناہ واذا کاتبہ بعضنا فربما کتب فی الشئ الواحد علی فضل رایہ وعلمہ بثلاثةانواع ینقض بعضھا بعضا ولایشعر بالذی مضی من رایہ فی ذالک الامر فھو الذی یدعونی الی ترک ماانکرت ترکی ایاہ ( ترجمہ ) ہم لوگ جب ابن شہاب سے ملتے تھے  تو بہت سے تضادات سامنے آتے تھے اور ہم میں کوئی جب ان سے لکھ کر دریافت کرتا توعلم وعقل میں فضیلت کے باوجود ایک چیز کے متعلق ان کا جواب تین طرح کا ہوا کرتا تھا  جن میں ایک دوسرے کا نقیض ہوتا  اورانہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا  کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں ۔ میں نے ایسی ہی چیزوں کی وجہ سے انھیں چھوڑا تھا  جسے تم نے پسند نہیں کیا ،،  ۔یہ ان روایتوں کی حقیقت ہے ( میزان ص 32) ہم جناب غامدی کے ان اعتراضات کے حوالے سے چند گذارشات پیش کرتے ہیں ۔ جن سے احباب ان واہی اعتراضات کی حقیقت کو جان سکیں ان شاءاللہ  ( 1) پہلی گذارش اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب غامدی کے بقول ،، اسی طرح سیدنا صدیق اور سیدنا عثمان کے دور میں قران کی جمع وتدوین کے متعلق بھی یہ روایتیں دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قران قبول کرتا ہے اور نہ عقلِ عام اسے مان سکتی ہے ،، ہم کہتے ہیں جناب غامدی اس بات کو گول کر گئے ہیں ۔ پوری وضاحت نہیں کی ہے کہ روایات کیا بات سناتی ہیں ۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ روایتیں ،، تحریف ،، وغیرہ کی باتیں سناتی ہیں  تو پھر سوال یہ ہے کہ ان روایتوں کو تو تمام اہلِ سنت والجماعت بالاتفاق دورِصحابہ سے مانتے آئے ہیںمگر ان روایات کا یہ مفہوم اہلِ سنت میں سے کس معتبر عالم نے لیا ہے ؟ اپ کو یہ بات تحقیق اورحوالوں سے بتانی پڑے گی ۔اور اگر کسی نے یہ مفہوم ان روایات کا لیا ہی نہیں ہے  تب آپ کو دوسروں کے متعلق چھوڑ کر خود اپنے بارے میں سوچنا ہوگا کہ آپ نے ان روایات کا وہ مطلب کیوں لیا ہے جو کسی معتبر عالم یا گروہ نے ان کا نہیں لیا ۔ اوراگر بالفرض اہلِ سنت والجماعت نے ان روایات سے ،، تحریف ہی ،، کا مفہوم برآمد کرلیا ہے اور ،، تحریف ،، کے بالاتفاق قائل بھی ہوئے ہیں تو پھر محض آپ کے رد کرنے سے کیا ہو سکتا ہے؟ کیا آپ کا ان روایات کو رد کرنے سے  پورے امتِ مسلمہ کا دامن اس اعتراض سے صاف ہوجائے گا جبکہ آپ کے حدود بھی ،، ماڈل ٹاؤن ،، تک ہی محدود ہوں ؟ قطعا ان کا دامن آپ کی تردید سے صاف نہیں ہوسکتا۔ بلکہ لوگ امت مسلمہ کو ،، تحریف ،، کے قائل ہی قرار دینگے  لہذا آپ کی محنت ادھر بالکل ضائع ہو گئی ہے ۔کسی اور موضوع پر کوشش اور خامہ فرسائی کرلیجیے ۔اوراگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایات قران کے جمع وتدوین کے متعلق ،، تواتر ،، کا مفہوم نہیں دے رہی ہیں تو بھی یہ بات غلط ہے  کیونکہ امتِ مسلمہ نے بالاتفاق ان روایات سے ،، تواتر ،، کا ہی مفہوم ماخوذ کر کے لیا ہے ۔ ہمارے علم کی حدتک کسی مخالف نے امتِ مسلمہ کو ان روایات کی بنا پر اس الزام کا مورد نہیں بنایا ۔کیونکہ محدثین نے ان روایات کے اصل مورد کو اپنی اپنی شروح میں بالتفصیل متعین کیا ہے ۔ اور اگر کوئی ،، الا الذین ظلموا ،، خواہ مخواہ اعتراضات پیدا کرنا چاھہے ہیں  تو وہ سلسلہ روکنا کسی کی بس میں نہیں ہے۔آپ خواہ مخواہ ان روایات کے وجود سے پریشان نہ ہوں ۔ اللہ تعالی خیر کرے گا ( 2) دوسری گذارش یہ ہے  کہ جناب غامدی نے امام ابن شہاب زہری کو اپنے ،، استاد امام ،، کی اتباع میں ادراج وتدلیس وغیرہ سے متہم کیا ہے ۔ مگر تاثر یہ دیا ہے کہ انھوں نے اس مسئلہ میں ان سے الگ راستہ اختیار کرلیا ہے۔مگر جناب کی پوری عبارت کو پڑھ کر یہ تاثر زائل ہوجاتا ہے ۔ جناب کے ،، استاد امام ،،  امین احسن اصلاحی نے اپنی حدیثی شرح میں ،، ابن شہاب زہری کو وضع وتخلیق کا امام قراردیا ہے ،، ہمارا اس وقت یہ موضوع نہیں ہے اور اس پر احباب کو تحقیق کرنی چاہئے  مگر اتنی بات تو بہرحال ہر عاقل عالم جانتا ہے کہ دنیا کے مستند ترین حدیثی مجموعات کے اس مرکزی راوی پر یہ ،، الزام پہلے کسی نے نہیں لگایا ۔ جناب غامدی نے ،، ابن شھاب زہری ،، کے متعلق تین اعتراضات وارد کیے ہیں ۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ وہ ،، تدلیس ،، کے مرتکب ہیں ۔مجھے تعجب ہوتا ہے جب جناب غامدی بھی کتبِ رجال سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اگر وہ واقعی اس پر یقین کرتے ہیں  تو ذرا اپنے پسندیدہ آئمہ کے متعلق بھی ان کے اقوال دیکھ لیں ۔جناب غامدی مسلکا ( ممکن ہے یہ مصلحتا ہوں)حنفی ہیں اورانہیں ہونا بھی چاہئے  کہ انہی کے وسیع المشرب مذہب میں ان کے افکار قبولیت پاسکتے ہیں ۔مگر اتنی بات تو بہرحال ہر آدمی کو معلوم ہونی چاہئے کہ ان کے آئمہ ومتقدمین کا مذہب اس سلسلہ میں کیا ہے ؟ احناف ،، تدلیس ،، کو سرے سے حدیث میں عیب نہیں مانتے ہیں  جیساکہ عبدالعزیز بخاری نے شرح بزدوی میں لکھا ہے وتبین بھذا ان التدلیس بترک اسم المروی عنہ لایصلح للجرح عندنا لان عدالة الراوی تقتضی انہ ماترک ذکرہ الا لانہ عدل ثقةعندہ لماذکرنا فی المرسل ویجری ذالک مجری تعدیلہ صریحا والصحابة کانوایروون احادیث ویترکون اسامی رواتھا کماذکرنا فی المرسل فلوکان ذالک یوجب سقوط الخبر لما استجازوا ذالک ( کشف الاسرار ج 3 ص 147) خاص کر جب وہ راوی خیرالقرون میں ہو کیونکہ بعض محققین کے بقول ان کے نزدیک ،، مرسل روایت ،، قرونِ ثلاثہ ،، میں بالاتفاق منظور ہے  تو جب یقینی ،، مرسل روایت ،، کو وہ بالاتفاق قبول کرتے ہیں  تو موہمِ ارسال روایت ،، پران کو کیا اعتراض ہوگا ؟ ہمارے ایک حنفی معاصر لکھتے ہیں ،، ثم ان التدلیس لیس بجرح عندالحنفیة لانہ یوھم الارسال وحقیقةالارسال لیس بجرح عندھم فکیف بموھمہ وقد فعلہ خیارالامة کالاعمش والثوری وانما فعلوہ لامرین الاول انھم قصدواالاختصار وتقریب الاسناد علی السامعین والثانی انھم ارادوا بالارسال تاکید الحدیث والقطع علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولم یقصدواالتزین بعلوالاسناد ( دراسات فی اصول الحدیث ص 405)  اس سے پہلے ،، تدلیس الاسناد وتدلیس الشیوخ ،، کی وضاحت کی ہے اور پھر ،، مدلّس ،، کی روایت کے حکم کو بیان کیا ہے اورلکھا ہے کہ ،، حکمہ حکم المرسل عند ایمةالحنفیة دون ای فرق قال الجصاص فی ،، الفصول فی الاصول ،، والقول فیہ عندنا انہ ان کان المدلس مشھورا بانہ لایدلس الاعمن یجوز قبول روایتہ فروایتہ مقبولة وان کان الظاھر من حالہ انہ لایبالی عمن دلسہ من ثقة او غیرثقة فانہ لایقبل روایتہ الا ان یذکر سماعہ فیہ علی نحو ما بیناہ فی ارسالہ الحدیث ( دراسات فی اصول الحدیث ص 405)  جب آپ  کامذہب یہ ہے  تو پھر آپ کس برتے پرابن شہابِ زہری کو متہم کرسکتے ہیں ؟ جبکہ ابن شھاب زہری کا شماران مدلسین میں ہوتا ہے جن کو بخاری ومسلم وغیرہ قبول کرتے ہیں  یعنی پہلے یابعض کے نزدیک دوسرے درجے کے مدلسین میں سے ہیں ۔ مگر ممکن ہے کہ جناب غامدی بھی دشمنی میں اپنے ،، استاد امام ،، پر گئے ہوں ۔ اورابن شہاب کی دشمنی میں احناف کو چھوڑ کر محدثین کرام خاص کر امام شعبہ وغیرہ کے اقوال مانتے ہوں ۔ مگر اس بات کا پھر کیا کریں گے جب ہم امام ابوحنیفہ کی ،، تدلیس ،، پیش کریں گے ؟ دوسرا اعتراض جناب غامدی نے ابن شہاب زہری پر ادراج کا کیا ہے ۔ احناف کی معاصراصولی کتابوں میں اس عنوان پر کچھ موجود نہیں ہے ۔ غالبا وہ اس کو بھی حدیث میں عیب نہیں سمجھتے ۔ جناب غامدی نے ان دونوں الفاظ ( تدلیس اورادراج ) کےلیے  ،، ارتکاب ،، کا لفظ اوپر درج عبارت میں استعمال کیا ہے  جس سے ان کی فکر کا اندازہ ہوجاتاہے ،، ادراج ،، درحقیقت کوئی عیب نہیں ہے اگر اس کے ساتھ بیان ووضاحت یاقرائن موجود ہوں کیونکہ اس سے مراد راوی کے نزدیک حدیث کے کسی جملے یا لفظ کی تفسیر ہوتی ہے ۔ ہم اس وقت اس موضوع پر تفصیل سے تو نہیں لکھ سکتے صرف ایک دوباتوں پر اکتفاء کرلیتے ہیں ۔ایک توادراج کی تعریف نوٹ کرنے کی چیز ہے تاکہ کوئی دھوکہ نہ دے سکے۔ امام ذھبی لکھتے ہیں کہ ،، ھی الفاظ تقع من بعض الرواة متصلة بالمتن لایبین للسامع الاانھا من صلب الحدیث ویدل دلیل علی انھا من لفظ راو بان یاتی الحدیث من بعض الطرق بعبارة تفصل ھذا من ھذا وھذاطریق ظنی ( الموقظہ ز 54) اس تعریف کو جاننے کے بعد اس کو عیب وخیانت وغیرہ میں شمارکرنا انتہائی مغفل ہونے کی علامت ہے ۔بعض معاصر لوگوں نے اس کی بڑی ،، جامع ،، تعریف کی ہے ، وہ بھی ملاحظہ فرمالیں ،، ھوان یدخل الراوی فی الحدیث الذی یرویہ مالیس منہ اخذا من الروایات الاخری وھو خطا بالنسبة للطریق الذی یرویہ دون تمییز واضح ( شرح الموقظہ ص 411) اب صرف ایک اور جملہ ایک معاصر عالم کا امام ابن شہاب زہری کے ،، ادراج ،، کے متعلق نوٹ فرمالیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، واعلم ان الامام محمدبن مسلم بن شھاب الزھری کان ممن عرف بالادراج فی المتون یدرج اللفظ یفسر فیہ اللفظ ونحو ذالک ولیس بالکثیر فی حدیثہ ( تحریر علوم الحدیث ج2 ص 1016) امام ذہبی نے بھی لکھا ہے کہ خطیبِ بغدادی نے بہت زیادہ ،، ادراج ،، کادعوی کیاہے جس کوتسلیم کرنا مشکل ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…