غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 29)

Published On February 29, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی مسئلہِ قراءآت پر چوتھا اعتراض یوں کرتے ہیں “کہ اس میں بعض دیگر چیزیں بھی ملاکر خوب زہرآلود جام بناکرعوام کے سامنے پلانے کےلیے رکھ دیتے ہیں ، ملاحظہ ہو ،، چہارم یہ کہ ہشام کے بارے میں معلوم ہے کہ فتحِ مکہ کے دن ایمان لائے تھے  لہذااس روایت کو مانئے تویہ بات بھی ماننا پڑتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ ، یہاں تک کہ سیدناعمر جیسے شب وروز کے ساتھی بھی اس بات کا علم نہیں رکھتے تھے کہ قران مجید کو آپ چپکے چپکے اس سے مختلف طریقے پر لوگوں کو پڑھا دیتے ہیں جس طریقے سے کم وبیش بیس سال تک وہ آپ کی زبان سے علانیہ اسے سنتے اور آپ کی ہدایت کے مطابق اسے سینوں اور سفینوں میں محفوظ کر رہے ہیں ۔ ہر شخص اندازہ کرسکتاہے کہ یہ کیسی سنگین بات ہے ؟ اور اس کی زد کہاں کہاں پڑسکتی ہے ( میزان ص 31) جناب غامدی کی ان تحریرات کو پڑھ کر بندے کا یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ زور زبردستی سے اعتراضات پیداکرنے اوربنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اب دیکھیں کہ اس اعتراض کو ہم نے پڑھا ہے ۔ اس سے دو جملے پہلے تیسرے اعتراض کے ضمن میں جناب نے خود لکھا ہے کہ ،، اس کے بعد یہ  بات توبے شک  مانی جاسکتی ہے کہ مختلف قبیلوں کو اسے اپنی اپنی زبان اورلہجے میں پڑھنے کی اجازت دی گئی  لیکن یہ بات کس طرح مانی جائے گی کہ اللہ تعالی ہی نے اسے مختلف قبیلوں کی زبان میں اتارا تھا ( میزان ص 31) گویا تیسرے اعتراض تک مشکل صرف یہ تھی کہ ،، مختلف لہجوں میں اسے کسطرح خدانے اتاراتھا ،، یہ بات تو بہرحال ممکن تھی ،، بلکہ اس کے ماننے میں شک بھی نہیں تھا کہ اس کے بعد اللہ تعالی نے سب کو اپنی اپنی زبانوں اورلہجوں میں اسے پڑھنے کی اجازت دی ہوگی ،، مگر یہاں آکر وہ مسئلہ بھی ان کے لیے مشکل بنا  جس کے ماننے میں کوئی شک بھی نہیں ہو سکتا تھا ،، اس طرح کے استشکالات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ موصوف زور زبردستی سے اعتراضات پیداکرنے کی سعی کرتے ہیں حالانکہ اس اشکال کا حل وہی ہے جس کی طرف خود جناب غامدی نے اوپر کی عبارت میں اشارہ کیا ہے ۔محققین نے بھی ایسی ہی باتیں لکھی ہیں ۔ مثلا ابوشامہ لکھتے ہیں  کہ ،، یحتمل ان یکون قولہ ( نزل بلسان قریش ) ای ابتداء نزولہ ثم ابیح ان یقرء بلغة غیرھم کما سیاتی تقریرہ فی،، باب انزل القران علی سبعةاحرف ،، وتکملتہ ان یقال انہ نزل اولا بلسان قریش احدالاحرف السبعة ثم نزل بالاحرف السبعة الماذون فی قراء تھا تسھیلا وتیسیرا کماسیاتی بیانہ ( فتح الباری ج 10ص 11) ابوشامہ کی اس بات سے یہ معلوم ہوا کہ باقی لہجوں اور قراءآت کی اجازت بہت بعد میں دی گئی تھی یعنی فتح مکہ کے بعد ۔اور جب حقیقت یہ ہے جیساکہ آنے والی عبارتوں سے اس کی مزید توضیح ہو جائے گی  تو پھر اس اعتراض کی گنجائش کہاں سے نکل آئی ہے کہ ،، سیدنا عمر جیسے شب وروز کے ساتھی بھی اس بات کا علم نہیں رکھتے تھےکہ قران مجید کو آپ چپکے چپکے اس سے مختلف طریقے پر لوگوں کو پڑھا دیتے ہیں ( میزان ص31) جب آپ کے اپنے بقول ہشام وغیرہ فتح مکہ میں مسلمان ہوئے ہیں  تو اس وقت ہی اسے یہ قراءت پڑھائی ہوگی ؟ ان کا چپکے چپکے لوگوں کو اور طرح سے پڑھادینا  اورکم وبیش بیس سال وغیرہ سیدنا عمر اوردیگر قریبی ساتھیوں کا بے خبر رہنا  وغیرہ باتیں کہاں سے نکل آئی ہیں ؟ پھر یہ کیا ضروری ہے کہ سیدنا عمر کو سب چیزوں کاپتہ ہو ۔ان کو تین بار کے استیذان کے متعلق بھی معلوم نہ تھاجب صحابہِ کرام نے بتایا تو انھوں نے فرمایا ،، الھانی عن ھذا الصفق بالاسواق ،، یعنی بازاروں کی تجارت نے مجھے اس مسئلے سے غافل رکھا ۔ تو اس طرح ادھر بھی یہ ممکن ہے ۔ کیا لازم ہے کہ ،، نبی علیہ السلام  لوگوں کو چپکے چپکے بتاتے ہوں کما قال المعاند ۔ ایک دیگر بات یہ ہے کہ جب کسی صحابی کو ایک قراءة معلوم اور یاد ہ تو دیگر قراءتوں کا یاد کرنا تو ان پرلازم نہیں ہے ۔جناب غامدی غالبا سبعہ قراءآت کو جائز ماننے اور تسلیم کرنے والے ان سب لوگوں کے لیے ان سب قراءآت کا سیکھنا لازم سمجھتے ہیں ؟ حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی ابوشامہ سے نقل کرتے ہیں کہ ،، ونقل ابوشامة عن بعض الشیوخ انہ قال انزل القران اولا بلسان قریش ومن جاورھم من العرب الفصحاء ثم ابیح للعرب ان یقرؤہ بلغاتھم التی جرت عادتھم باستعمالھا علی اختلافھم فی الالفاظ والاعراب ولم یکلف احد منھم الانتقال من لغتہ الی لغةاخری للمشقة ولماکان فیھم من الحمیة ولطلب تسھیل فھم المراد کل ذلک مع اتفاق المعنی ( فتح الباری ج10 ص 33)  اس میں وہی بات کی گئی ہے کہ اجازت دیگر قراءآت کی بعد میں مل گئی ۔ پھرابن الانباری سے نقل کرتے ہیں کہ ،، ورد علیہ ( ای علی ابن قتیبہ) ابن الانباری بمثل ،، عبدالطاغوت ،، ،، ولاتقل لھما افّ ،، و ،، جبریل ،، ویدل علی ماقررہ انہ انزل اولا بلسان قریش ثم سھل علی الامة ان یقرؤہ بغیر لسان قریش وذالک بعد ان کثر دخول العرب فی الاسلام فقد ثبت ان ورود التخفیف بذالک کان بعد الھجرة کما تقدم فی حدیث ابی بن کعب ان جبریل لقی النبی علیہ الصلاةوالسلام وھوعنداضاءة بنی غفار فقال ان اللہ یامرک ان تقرئ امتک القران علی حرف فقال اسال اللہ معافاتہ ومغفرتہ فان امتی لاتطیق ذلک ،، اخرجہ مسلم ،، ( ایضا ج 10ص 34) اس روایت کے بعد کوئی معقول شخص کیونکر یہ کہہ سکتاہے کہ  ،، نبی علیہ السلام کم وبیش بس سال لوگوں کو چپکے چپکے قران کی دیگر قراءآت بتاتے تھے  اور شب وروز کے قریب صحابہ کرام کو اس کا پتہ نہیں چلتا تھا ،،  ہرشخص اندازہ کرسکتا کہ جناب غامدی کی یہ  کتنی سنگین بات ہے اور اس کی زد کہاں کہاں پڑسکتی ہے ،، ؟ اب آخر میں یہی بات ایک اور شخص سے بھی سن لیں تاکہ احبابِ کرام کا یقین پختہ ہوجائے کہ سب محققین یہی بات کرتے ہیں ۔صرف ہم نہیں کہتے ، یہ عبارت پہلے بھی غالبا ہم ایک دوسری بات کو ثابت کرنے کے لیے نقل کرچکے ہیں ۔ محققِ احناف زاہدالکوثری لکھتے ہیں کہ ،، وقد تواترت الاحادیث فی انزال القران علی سبعةاحرف لکن اختلفوا فی تفسیرھا الی نحو اربعین قولا ، لاتعویل الا علی اقل قلیل منھا ، والواقع ان القران الکریم کان ینزل معظمہ علی لغة قریش علی حرف واحد الی ان فتحت مکة وبدءالناس یدخلون فی دین اللہ افواجا ، واخذت وفود القبائل العربیةالمختلفة تتوافد ، فاذن اللہ سبحانہ علی لسان نبیہ ان یقرؤہ علی لغاتھم ولھجاتھم ، تیسیرا لھم لصعوبة تحولھم من لغتھم الی لغةالنبی علیہ الصلاةوالسلام بمرة واحدة کمایدل علی ذالک حدیث ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ عندالبخاری ومسلم والترمذی وغیرھم ( المقالات ص 31) ان عبارات سے ہمارامقصود تو یہ ثابت کرنا تھا کہ جناب غامدی کا اوپر مذکور جو اعتراض ہے اس کی کوئی حقیقت موجود نہیں ہے ۔مگر ساتھ ان اقوالِ محققین سے یہ حقیقت بھی ثابت ھوگئی ہے کہ آخری دور میں دیگر  لہجوں یا قراءتوں کی اجازت بھی انہیں مل گئی تھی  تو قراءتیں منسوخ کہاں سے ہوئیں اور کس طرح ہوئیں ؟ کما قال الغامدی فی ماسبق کہ عرضہِ اخیرہ میں تمام قراءتیں منسوخ ہوگئیں اور صرف ایک قراءت رھہے دی گئی ۔یہ بھی محض ایک خودساختہ افسانہ ہے جیسا کہ اور افسانے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…