محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...
تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...
شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...
۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...
مولانا واصل واسطی
تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی صرف معما ہے ۔کوئی بھی اس معما کو امت کی تاریخ میں حل نہیں کرسکا بلکہ وہ حدیث بے معنی ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ امت نے اس کا مفہوم سمجھ لیا تھا تب ہی تو انھوں اس کے متعلق ،، اجماع ،، کیا تھا ورنہ مجہولات اور معمیات پر کون سے عقلاء اجماع کرتے ہیں یا پھران پراجماع کا دعوی کرتے ہیں ؟ امام ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں ،، وان کل مافی القرآن حق من زاد فیہ حرفا من غیرالقرءآت المرویة المحفوظة المنقولة نقل الکافة اونقص منہ حرفا اوبدّل حرفا مکان حرف وقد قامت علیہ الحجة انہ من القرآن فتمادی متعمدا لذالک عالما بانہ بخلاف مافعل فانہ کافر ( الاجماع 682) امام ابن حزم کے اجماعات کے اعتبار وحیثیت سے اہلِ علم خوب واقف ہیں کہ ان کی کیا قیمت ہوتی ہے ؟ کتاب کے محقق نے ،، المعیار المعرب ،، سے نقل کیا ہے کہ ،،الشیوخ یقولون اصح الاجماعات اجماعات ابن حزم ،، اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ جیسےمحتاط عالم سے نقل کیاھے کہ ،، ابن حزم من اعظم نقلةالاجماعات اطلاعا واکثرھم انتقادا ( الرد الکبیر ج 2 ص 632) اس کتاب پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تعلیقات بھی الحمدللہ موجود ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قراءآتِ متواترہ کا انکار کرنا کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہ کوئی اسے مذاق میں اڑادے گا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ،، احرف سبعہ ،، والی حدیث کے مفہوم کو علماءِ کرام نے سمجھ لیا تھا ورنہ اس طرح کا اجماع اس پر کیونکر وہ نقل کر سکتے تھے ؟ الحمدللہ اس حدیث پر آگے جناب غامدی دوسرا اعتراض یوں نقل کرتے ہیں کہ ،، دوم یہ کہ اس کی واحد معقول توجیہ اگر کوئی ہوسکتی تھی تو وہ یہی ہوسکتی تھی کہ ،، سبعة احرف ،، کو اس میں عربوں کے مختلف لغات اور لہجوں پر محمول کیا جائے لیکن ہم دیکھتے ہیں ، کہ روایت کا متن ہی اس کی تردید کرتا ہے ۔ ہرشخص جانتاہے کہ ہشام اورعمرفاروق ، جن دوبزرگوں کے مابین اختلاف کا ذکر اس روایت میں ہواہے ، دونوں قریشی ہیں، جن میں ظاھر ہے کہ اس طرح کے کسی اختلاف کا تصور نہیں کیاجاسکتا ( میزان ص31) یہ اعتراض دراصل جناب غامدی کا نہیں ہے بلکہ قاضی ابوبکر نے الانتصار میں اس کو ذکر کیا ہے اگرچہ جناب نے اس کو اپنے نام سے پیش کیاہے۔مگر قاضی ابوبکر باقلانی کی اس کتاب کا صرف ایک حصہ طبع ہواہے پوری کتاب طبع نہیں ھوئی ۔ اس لیے ہم دیگر مواضع سے اسکو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ ابن عطیہ اندلسی کہتے ہیں کہ ،، قال القاضی ابوبکر بن الطیب الباقلانی وقد زعم ان معنی الحدیث انہ نزل علی سبع لغات مختلفات وھذا باطل الا ان یرید الوجوہ المختلفة التی تستعمل فی القصةالواحدة والدلیل علی ذالک ان لغةعمر بن الخطاب وابی بن کعب وھشام بن حکیم وابن مسعود واحدة وقراءتھم مختلفة وخرجوابھا الی المناکرة ( المحرر ج1 ص 44) اس کے بعد ایک ایک کرکے ابن عطیہ اندلسی نے ان کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔ اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں ،، واستدلال القاضی رضی اللہ عنہ بان لغة عمر وابیّ وھشام وابن مسعود واحدة ،، فیہ نظر ،، لان مااستعملتہ قریش فی عبارتھا ، ومنھم عمر وھشام وما استعملتہ الانصار ومنھم ابی ومااستعملتہ ھذیل ومنھم ابن مسعود قد یختلف ومن ذالک النحو من الاختلاف ھوالاختلاف فی کتاب اللہ سبحانہ فلیست لغتھم واحدة فی کل شئ وایضا فلوکانت لغتھم واحدة بان نفرضھم جمیعا من قبیلة واحدة لما کان اختلافھم علی من قال ،،ان القران انزل علی سبع لغات لان مناکرتھم لم تکن لان المنکر سمع مالیس فی لغتہ فانکرہ وانما کانت لانہ سمع خلاف ما اقرءہ النبی علیہ السلام وعساہ قداقرءہ مالیس فی لغتہ واستعمال قبیلتہ ( المحرر ج1 ص 45) اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ پہلے تو ان سب کی بولی ہر چیز میں ایک جیسی نہیں تھی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعتراض تو سیدنا عمر کا سیدنا ہشام پر یہ نہیں تھا کہ انھوں نے دوسرے لہجے اور لغت کا لفظ استعمال کیا ہے بلکہ یہ تھا کہ مجھے جس طرح نبی علیہ السلام نے پڑھایا تھا وہ اس کے خلاف پڑھ رہے تھے ، یہ روایت الگ مسئلہ بیان کررہی ہے مگر جناب قاضی باقلانی اور غامدی الگ اعتراض کررہے ہیں ۔خود جو روایت جناب غامدی نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ ( سمعت ھشام بن حکیم بن حزام یقراء سورةالفرقان علی غیر مااقرؤھا وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقرءنیھا فکدت ان اعجل علیہ ثم امھلتہ ) ان الفاظ میں دیکھیں کیا بات بیان ہوئی ہے ؟ کیا اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ ہشام غیرِ لغتِ قوم میں قران پڑھ رہے تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ بھی احتمال ہے کہ نبی علیہ السلام نے اس کو دیگر قبیلے کا لفظ پڑھایا ہو ۔ اورچوتھی بات یہ ہے کہ یہ بھی احتمال ہے ( وھذاعندی )کہ وہ آدمی یعنی ھشام بن حکیم دوسرے قبائل میں رہا ہو ۔ اس وجہ سے اس اجنبی لفظ کو استعمال کیا ہوجیساکہ ہمارے بعض لوگ پشاور اور کابل وغیرہ میں رہتے ہیں جس سے ان کی زبان پر ان مقامات کی زبان کے الفاظ چڑھ جاتے ہیں پھر ساری زندگی وہ الفاظ ان کی زبان سے نہیں اترتے ۔ ممکن ہے ایسی صورت وہاں بھی پیش آئی ہو ۔ اللہ تعالی کی توفیق شاملِ حال رہی کہ ہمیں وہ عبارت قاضی ابوبکرباقلانی کی اپنی کتاب میں مل گئی ملاحظہ فرمالیں ،، فقد زعم قوم ان معنی قولِ النبی علیہ السلام ،،انزل القران علی سبعةاحرف ،، انہ منزل علی سبع لغات مختلفات وھذاایضا باطل ان لم یرد بالوجوہ المختلفة التی یتکلم بجمیعھا وتستعمل فی اللغةالواحدة والدلیل علی فساد ذالک علمنا بان لغة عمربن الخطاب وھشام بن حکیم بن حزام وابی بن کعب وعبداللہ بن مسعود وزیدبن ثابت کلھا لغة واحدة وانھا لیست لغات متغائرة وھم مع ذلک قدتنافروا وتناکروالقراءة وخرجواالی ماقدمناذکرہ ( الانتصار ج 1ص 379) اور محمود آلوسی نے بھی اس اشکال کا جواب دیا ہے ۔وہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔ لکھتے ہیں : ،، قال السیوطی بعد نقل ھذاالقول وذکرمالہ وماعلیہ وبعد ھذا کلہ ھو مردود بان عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ وھشام بن حکیم کلاھما قرشی من لغة واحدة وقبیلةواحدة قداختلفت قراءتھما ومحال ان ینکر عمر لغتہ فدل علی ان المراد بالاحرف السبعة غیر اللغات انتھی ، ویالیت شعری ادعی احد من المسلمین ان معنی انزال القران علی ھذہ السبع من لغات ھولاء العرب انہ انزل کیف ماکان وانھم ھم الذین ھذبوہ بلغاتھم ورشحوہ بکلماتھم بعد الاذن لھم بذلک فاذا لاتختلف اھل قبیلة فی کلمة ولایتنازع اثنان منھم فیھا ابدا ام ان اللہ تعالی شانہ ظھرکلامہ فی مرایا ھذہ اللغات علی حسب ما فیھا من المزایا والنکات فنزل بھا وحیہ واداھا نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ووعاھا اصحابہ فکم صحابی ھومن قبیلة وعی کلمة نزلت بلغة قبیلةاخری وکلاھما من السبع ولیس لہ ان یغیر ماوعی بل کثیرا مایختلف صحابیان من قبیلة فی الروایة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکل من روایتیھما علی غیرلغتھما کل ذالک اتباعالماانزل اللہ تعالی وتسلیما لماجاءبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد ینفی صحابی غیر روایتہ وینکرروایةغیرہ وکل ذالک یدل علی ان مرجع السبع الروایةلا الدرایة ( روح المعانی ج1 ص 22)
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب
محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے...
شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر...
۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ...