حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی صرف معما ہے ۔کوئی بھی اس معما کو امت کی تاریخ میں حل نہیں کرسکا بلکہ وہ حدیث بے معنی ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ امت نے اس کا مفہوم سمجھ لیا تھا تب ہی تو انھوں اس کے متعلق ،، اجماع ،، کیا تھا ورنہ مجہولات اور معمیات پر کون سے عقلاء اجماع کرتے ہیں یا پھران پراجماع کا دعوی کرتے ہیں ؟ امام ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں ،، وان کل مافی القرآن حق من زاد فیہ حرفا من غیرالقرءآت المرویة المحفوظة المنقولة نقل الکافة اونقص منہ حرفا اوبدّل حرفا مکان حرف وقد قامت علیہ الحجة انہ من القرآن فتمادی متعمدا لذالک عالما بانہ بخلاف مافعل فانہ کافر ( الاجماع 682) امام ابن حزم کے اجماعات کے اعتبار وحیثیت سے اہلِ علم خوب واقف ہیں کہ ان کی کیا قیمت ہوتی ہے ؟ کتاب کے محقق نے ،، المعیار المعرب ،، سے نقل کیا ہے کہ ،،الشیوخ یقولون اصح الاجماعات اجماعات ابن حزم ،، اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ جیسےمحتاط عالم سے نقل کیاھے کہ ،، ابن حزم من اعظم نقلةالاجماعات اطلاعا واکثرھم انتقادا ( الرد الکبیر ج 2 ص 632) اس کتاب پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تعلیقات بھی الحمدللہ موجود ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ قراءآتِ متواترہ کا انکار کرنا کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہ کوئی اسے مذاق میں اڑادے گا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ،، احرف سبعہ ،، والی حدیث کے مفہوم کو علماءِ کرام نے سمجھ لیا تھا ورنہ اس طرح کا اجماع اس پر کیونکر وہ نقل کر سکتے تھے ؟ الحمدللہ اس حدیث پر آگے جناب غامدی دوسرا اعتراض یوں نقل کرتے ہیں کہ ،، دوم یہ کہ اس کی واحد معقول توجیہ اگر کوئی ہوسکتی تھی تو وہ یہی ہوسکتی تھی کہ ،، سبعة احرف ،، کو اس میں عربوں کے مختلف لغات اور لہجوں پر محمول کیا جائے لیکن ہم دیکھتے ہیں ، کہ روایت کا متن ہی اس کی تردید کرتا ہے ۔ ہرشخص جانتاہے کہ ہشام اورعمرفاروق ، جن دوبزرگوں کے مابین اختلاف کا ذکر اس روایت میں ہواہے ، دونوں قریشی ہیں، جن میں ظاھر ہے کہ اس طرح کے کسی اختلاف کا تصور نہیں کیاجاسکتا ( میزان ص31) یہ اعتراض دراصل جناب غامدی کا نہیں ہے بلکہ قاضی ابوبکر نے الانتصار میں اس کو ذکر کیا ہے اگرچہ جناب نے اس کو اپنے نام سے پیش کیاہے۔مگر قاضی ابوبکر باقلانی کی اس کتاب کا صرف ایک حصہ طبع ہواہے پوری کتاب طبع نہیں ھوئی ۔ اس لیے ہم دیگر مواضع سے اسکو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ ابن عطیہ اندلسی کہتے ہیں کہ ،، قال القاضی ابوبکر بن الطیب الباقلانی وقد زعم ان معنی الحدیث انہ نزل علی سبع لغات مختلفات وھذا باطل الا ان یرید الوجوہ المختلفة التی تستعمل فی القصةالواحدة والدلیل علی ذالک ان لغةعمر بن الخطاب وابی بن کعب وھشام بن حکیم وابن مسعود واحدة وقراءتھم مختلفة وخرجوابھا الی المناکرة ( المحرر ج1 ص 44) اس کے بعد ایک ایک کرکے ابن عطیہ اندلسی نے ان کے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔ اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں ،، واستدلال القاضی رضی اللہ عنہ بان لغة عمر وابیّ وھشام وابن مسعود واحدة ،، فیہ نظر ،، لان مااستعملتہ قریش فی عبارتھا ، ومنھم عمر وھشام وما استعملتہ الانصار ومنھم ابی ومااستعملتہ ھذیل ومنھم ابن مسعود قد یختلف ومن ذالک النحو من الاختلاف ھوالاختلاف فی کتاب اللہ سبحانہ فلیست لغتھم واحدة فی کل شئ وایضا فلوکانت لغتھم واحدة بان نفرضھم جمیعا من قبیلة واحدة لما کان اختلافھم علی من قال ،،ان القران انزل علی سبع لغات لان مناکرتھم لم تکن لان المنکر سمع مالیس فی لغتہ فانکرہ وانما کانت لانہ سمع خلاف ما اقرءہ النبی علیہ السلام وعساہ قداقرءہ مالیس فی لغتہ واستعمال قبیلتہ ( المحرر ج1 ص 45) اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ پہلے تو ان سب کی بولی ہر چیز میں ایک جیسی نہیں تھی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اعتراض تو سیدنا عمر کا سیدنا ہشام پر یہ نہیں تھا کہ انھوں نے دوسرے لہجے اور لغت کا لفظ استعمال کیا ہے بلکہ یہ تھا کہ مجھے جس طرح نبی علیہ السلام نے پڑھایا تھا وہ اس کے خلاف پڑھ رہے تھے ، یہ روایت الگ مسئلہ بیان کررہی ہے مگر جناب قاضی باقلانی اور غامدی الگ اعتراض کررہے ہیں ۔خود جو روایت جناب غامدی نے نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ ( سمعت ھشام بن حکیم بن حزام یقراء سورةالفرقان علی غیر مااقرؤھا وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقرءنیھا فکدت ان اعجل علیہ ثم امھلتہ ) ان الفاظ میں دیکھیں کیا بات بیان ہوئی ہے ؟ کیا اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ ہشام غیرِ لغتِ قوم میں قران پڑھ رہے تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ بھی احتمال ہے کہ نبی علیہ السلام نے اس کو دیگر قبیلے کا لفظ پڑھایا ہو ۔ اورچوتھی بات یہ ہے کہ یہ بھی احتمال ہے ( وھذاعندی )کہ وہ آدمی یعنی ھشام بن حکیم دوسرے قبائل میں رہا ہو ۔ اس وجہ سے اس اجنبی لفظ کو استعمال کیا ہوجیساکہ ہمارے بعض لوگ پشاور اور کابل وغیرہ میں رہتے ہیں جس سے ان کی زبان پر ان مقامات کی زبان کے الفاظ چڑھ جاتے ہیں پھر ساری زندگی وہ الفاظ ان کی زبان سے نہیں اترتے ۔ ممکن ہے ایسی صورت وہاں بھی پیش آئی ہو ۔ اللہ تعالی کی توفیق شاملِ حال رہی کہ ہمیں وہ عبارت قاضی ابوبکرباقلانی کی اپنی کتاب میں مل گئی ملاحظہ فرمالیں ،، فقد زعم قوم ان معنی قولِ النبی علیہ السلام ،،انزل القران علی سبعةاحرف ،، انہ منزل علی سبع لغات مختلفات وھذاایضا باطل ان لم یرد بالوجوہ المختلفة التی یتکلم بجمیعھا وتستعمل فی اللغةالواحدة والدلیل علی فساد ذالک علمنا بان لغة عمربن الخطاب وھشام بن حکیم بن حزام وابی بن کعب وعبداللہ بن مسعود وزیدبن ثابت کلھا لغة واحدة وانھا لیست لغات متغائرة وھم مع ذلک قدتنافروا وتناکروالقراءة وخرجواالی ماقدمناذکرہ ( الانتصار ج 1ص 379) اور محمود آلوسی نے بھی اس اشکال کا جواب دیا ہے ۔وہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔ لکھتے ہیں : ،، قال السیوطی بعد نقل ھذاالقول وذکرمالہ وماعلیہ وبعد ھذا کلہ ھو مردود بان عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ وھشام بن حکیم کلاھما قرشی من لغة واحدة وقبیلةواحدة قداختلفت قراءتھما ومحال ان ینکر عمر لغتہ فدل علی ان المراد بالاحرف السبعة غیر اللغات انتھی ، ویالیت شعری ادعی احد من المسلمین ان معنی انزال القران علی ھذہ السبع من لغات ھولاء العرب انہ انزل کیف ماکان وانھم ھم الذین ھذبوہ بلغاتھم ورشحوہ بکلماتھم بعد الاذن لھم بذلک فاذا لاتختلف اھل قبیلة فی کلمة ولایتنازع اثنان منھم فیھا ابدا ام ان اللہ تعالی شانہ ظھرکلامہ فی مرایا ھذہ اللغات علی حسب ما فیھا من المزایا والنکات فنزل بھا وحیہ واداھا نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ووعاھا اصحابہ فکم صحابی ھومن قبیلة وعی کلمة نزلت بلغة قبیلةاخری وکلاھما من السبع ولیس لہ ان یغیر ماوعی بل کثیرا مایختلف صحابیان من قبیلة فی الروایة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکل من روایتیھما علی غیرلغتھما کل ذالک اتباعالماانزل اللہ تعالی وتسلیما لماجاءبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد ینفی صحابی غیر روایتہ وینکرروایةغیرہ وکل ذالک یدل علی ان مرجع السبع الروایةلا الدرایة ( روح المعانی ج1 ص 22)
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...